Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 2, 2018

شریعت کے عائلی قوانین کو سیکھنا نہایت ضروری ہے۔

یتیم بچوں کی کفالت کرنا کار ثواب ہے، مگر ان کو حقیقی اولاد کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔
       . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .         
شریعت کے عائلی قوانین کو سیکھنانہایت ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔خصوصی نمائندہ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
           "آئیے مسلم پرسنل لا سیکھیں
"کے عنوان سے سلسلہ وار محاضرات کا آٹھواں موضوع "یتیم بچوں کی کفالت اورگودلینےکی شرعی حیثیت" پر گزشتہ اتوار کو بلال اسکول نزد بلواس ہوٹل مولانا شوکت علی روڈ گرانٹ روڈ ایسٹ ممبئی میں مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی (نائب قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ )نے تفصیلی محاضرہ پیش کیا، جس میں انھوں نے بتایا کہ اسلام میں یتیم اورلاوارث بچوں کی کفالت کرنا کار ثواب ہے ، قرآن کریم میں جگہ جگہ یتیموں کی دیکھ بھالی اور ان پر خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو جنت میں اپنی رفاقت نصیب ہونے کی بشارت دی ہے ، اسی پر بس نہیں،بلکہ صحیح ڈھنگ سےان کی  ذمہ داری نہ نبھانے پر سخت وعید بھی سنائی گئی ہے،چنانچہ جولوگ یتیموں  کے مال کوناحق ہڑپ کر کھاجاتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم نے کہاہے کہ وہ اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھرتے ہیں،اس  سے اندازہ لگایا جاسکتاہے  کہ شریعت میں یتیم بچوں کی کفالت کس قدراہم اورکارثواب ہے۔مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی نے مزید کہا کہ اس کے باوجود کسی بچہ یا بچی کو حقیقی اولاد کا درجہ نہیں دیاجاسکتاہے ، قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے،اوریہ فطرت سے بغاوت ہے، مفتی صاحب نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ چوں کہ حقیقی اولاد مان لینے کی صورت میں خود اس بچہ کا نقصان ہوگا اس طور پر کہ وہ دو باپ اور دو ماں کی طرف منسوب ہوگا،جو اس کےلئے عارکاسبب ہوگا، جس سے اس کو ذہنی کوفت ہوگی، وہ اپنے حقیقی ماں باپ سے بدظن ہوگا، پھر ان کے خلاف بغاوت پر اترجائےگا،انھوں نے مزیدکہاکہ ایک سروے کے مطابق ایسے بچے غنڈے اور سماج کے لئے ناسور بن جاتے ہیں۔مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی نے گود لئے ہوئے بچے کو حقیقی اولاد کا درجہ دینے کے تعلق سے شرعی نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے شریعت کے دوسرے شعبے مثلا قانون نکاح، حضانت، وصیت، ہبہ، حجاب، وراثت، وغیرہ متاثر ہوتے ہیں، اس لئے اسلام یتیم بچوں کی کفالت کی ترغیب کے ساتھ ان کو حقیقی اولادکادرجہ دینے سےسختی سے روکتاہے ، انھوں نے مثال کے ذریعہ سمجھایا کہ اگر میت نے اپنے وارثین میں صرف ایک حقیقی بیٹے کو چھوڑاہے تو وہ کل مال کا مالک ہوگا، لیکن اگر اس نے کسی کو گود لیاہواتھا اوراس کو حقیقی اولاد کادرجہ دیدیاگیاتو اب وہ آدھے کامالک ہوگا، جس سے اس کے حقیقی بیٹے کو نقصان کا سامنا کرناپڑےگا، نتیجہ کے طور پر ان دونوں میں نفرت وعداوت جنم لیں گی،جھگڑا اورفتنہ و فساد پیداہوگا، اس لئےایسے فتنوں سےبچنے کے  لئے مسلم پرسنل لا میں اس کی  اجازت نہیں ہے۔مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی نےمزیدکہاکہ گودلئے ہوئے بچہ کو حقیقی اولادکادرجہ دینے کی صورت میں اس کے لئے وصیت کرنا بھی درست نہیں ہوگی، حالاں کہ اگر اس کو حقیقی اولاد کا درجہ نہ دیاجائے تو ایک تہائی مال تک کی وصیت کی جاسکتی ہے ، اس لیے یہ خود بچہ کے مفاد کے خلاف ہے۔پروگرام کے کنوینرمفتی محمد فیاض عالم قاسمی نے کسی بچہ کو حقیقی اورغیرحقیقی درجہ دینے اورنہ دینے کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہاکہ کہ اگرکوئی کسی کوپیارمیں" بیٹا"کہتاہے تو وہ خوش ہوتاہے، اوراگرحقیقی طورپر"بیٹا"کہتاہےتواس کوغصہ آجاتاہے۔بس یہی فرق ہےکفالت اورسرپرستی کرنےکے باوجودحقیقی اولاد کادرجہ دینے اورنہ دینے میں،اس پروگرام کی صدارت کررہے جناب مولاناشاہدمعین قاسمی سابق استاذمرکزالمعارف (جوگیشوری)نے کہاکہ محاضرات کے ذریعہ مسلم پرسنل لاکوسیکھنااورسکھایاجاناایک مستحسن اقدام ہے،اس کو بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے،انھوں نے مزیدکہاکہ ہر علاقہ میں اس طرح کے پروگرام ہونے چاہئیں،تاکہ شریعت کے عائلی قوانین سےواقفیت حاصل ہو،پروگرام کاآغازحافظ امانت اللہ کی تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا، اورصدرمحترم کی دعاء پر اختتام کو پہونچا۔ اخیر میں سامعین کے سوالوں کاجواب بھی دیاگیا،