Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 25, 2018

ہجومی دہشت گردی(ماب لنچنگ) کا ایک اور معصوم شکار۔

*ہجومی دہشتگردی کا ایک اورشکار!
مدرسے کے طالبعلم محمد عظیم کی المناک شہادت!
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
رپورٹ سمیع اللہ خاں۔صدائے وقت۔
۸ سالہ محمد عظیم، جس کا تعلق میوات سے تھا دہلی کے ایک مدرسے میں طالبعلم تھا، دل میں طرح طرح کی امنگیں سجائے وہ ہواؤں سے بات کرنے کی عمر میں تھا ابھی اس کی معصوم زندگی اپنی معصومانہ ادا سے حسن فطرت کا حصہ تھی، ابھی تو اس کی کلکاریوں میں صرف اپنائیت اور محبت کی پیاس تھی! ماں باپ سے دور اپنے گاؤں گھر سے دور اس عمر میں اس نے مدرسے کے درودیوار کو اپنا وطن بنایا، ان دیواروں کی چھاؤں اس کی دوست ہوا کرتی تھی، ان دروازوں کی اوٹ اس کے ہمراز ہوتے تھے!
*لیکن اچانک یہ کیا ہوا؟*
کچھ بھیڑیوں نے اس معصوم کو ہی روند ڈالا، وحشیانہ اور سنگدلانہ بربریت سے اس کی جان لے لی، بعد تحقیق یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ اس کا جرم یہی تھا کہ وہ معصوم بچہ محمد عظیم نامی مناسبت رکھتاتھا اور دہشتگردی کے اڈے یعنی کہ مدرسے میں پڑھتا تھا، اور اس مدرسے سے اطراف کے زہر آلود انسان نما بھیڑیوں کو شیطان واسطے بیر تھا، ان بھیڑیوں نے آج محمد عظیم کو اس کے چند ساتھیوں کے ساتھ کھیلتے کودتے دیکھا، بچے بڑوں کے بغیر تھے، بڑے قرآن خوانی کے لیے گئے ہوئے تھے اس موقع پر ان بھیڑیوں کی شیطنت بھڑک اٹھی اور ان درندوں نے نفرت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے چالاکی سے اپنے کچھ اوباش بچوں کو مدرسے کے طلبا پر تشدد کے لیے اکسایا، اور دیکھتے ہی دیکھتے محمد عظیم خاک و خون میں لیٹ گیا
وہی آسمان جس پر کچھ دیر پہلے اس کی نظریں تھی وہ بے بسی کے ساتھ اس معصوم نوخیز غنچہ کو مسلا ہوا دیکھ رہاتھا !
خیر ۔ کفنانے دفنانے کا انتطام شروع کیا جائے ! یہ سب تو مسلم کمیونٹی کے لئے اب ہندوستان میں روزمرہ کا معمول ہے، ہمیں اس ملک کو بچانا ہے، اس کے سیکولرزم کو بچانا ہے، اس کے امن و امان کی ٹھیکیداری بھی ادا کرنی ہے، اور پھر ۲۰۱۹ کے الیکشن پر بھی خون کا نذرانہ ہم ہی کو تو پیش کرناہے لہٰذا ان سب کے پیش نظر کوئی کچھ نہ کہے، سب مون برت رکھ لو، قلم بند کردو، موبائل آف کردو، دو چار لاکھ روپیے لواحقین کے منہ پر مار کر ان کا بھی منہ بند کردو، اور زیادہ شورشرابہ ہو تو مزید دو چار رسمی بیانات، مقدمات کے اعلانات اور دور دورے کر لیے جائیں گے، مل گیا انصاف، ختم کہانی، یہی ہے ہندوستانی مسلمانوں کی مسلمانی! یقین نہ ہو تو حافظ جنید اور اخلاق دادری کی شہادت کو دیکھ لیجیے، شمبھولال دیگر اور سِنہا کے ٹولے پر نظر دوڑا لیجیے، اور اگر کسی ایک " ہجومی دہشتگردی " میں آپکی جھولی میں انصاف نظر آئے اور مجرمین کیفرکردار پر نظر آئیں تو بتائیے:
ہندوستانی مسلمانوں کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اسوقت وہ بارود کے ڈھیر پر ہیں، ان کے لیے جہاں لازمی طورپر دعوتی فریضے کی انجام دہی ضروری ہے، وہیں انہیں مین اسٹریم میں اتر کر اپنی اس ذلت آمیز شبیہ کو بزور طاقت کچلنا ہوگا، اس کا طریقہ یہ نہیں ہوتاکہ آپ نے چند لوگوں کے جھانسے میں آکر ان کی بھیڑ بن کر ان کو اسٹیج دے دیا، ان کے بھوشن ہوئے، تصویریں شائع ہوئیں بن گئے سلیبریٹی، ہوگئے لیڈر، اور ختم ہوگئی ہمدردی ! بلکہ اس کا لائحہ عمل یہی ہے کہ آپ ہجومی دہشتگردی کے خلاف سڑکوں پر اتریں اور تب تک ڈٹے رہیں جب تک کہ فاسٹ ٹریک کارروائی شروع نہ ہوجائے !
بگڑے ہوئے سنگھی زہر زدہ دہشتگردوں کا علاج اس کے سوائے کچھ بھی نہیں ہے، آپ جب تک ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہاتھ جوڑ کر سیکولرزم کی بھیک مانگتے رہیں گے اتنے وقت میں مزید سینکڑوں جانیں اس جنون کا شکار ہوں گی !
اگر آپ اپنا لوہا خود نہیں منواتے تو اس ملک میں آپ اسی طرح سیاسی قتل و غارت کے شکار رہیں گے، کم از کم اب تو آنکھیں کھولیں، ڈھکوسلوں سے باہر آئیے، حقیقت کا سامنا کیجیے، اور حقیقت یہی ہیکہ آزادی میں آپ کے باپ داداؤں نے اپنا خون پسینہ بہایا لیکن آزادی کے ستر سال بعد اسی ملک میں آپکی اوقات یہ ہیکہ، آپکی قومی شناخت پر آپکو راہ چلتے قتل کردیا جاتاہے،اور اب تو راجدھانی دہلی میں یہ ہورہاہے جہاں سیاسی، اور ملی لیڈرشپ کے مراکز بھی ہیں اور یہ راجدھانی کبھی ہماری شوکت و سطوت کا نشان ہوا کرتی تھی ۔یہ حال تاریخ میں کبھی شودروں کا ہوا کرتاتھا جسے پوری دنیا ذلّت کے نشان سے تعبیر کرتی ہے! اگر ان منتشر اور بکھرے بکھرے واقعات پر آپ کی آنکھیں نہیں کھلیں تو اجتماعی یلغار آپکو چٹ کرجائے گی، اگر آپ اپنی اسٹریٹیجی نئے سرے سے مرتب نہیں کرتے تو کوئی ابابیل، کوئی محمد بن قاسم نہیں آئے گا، تاریخ بھی ذلّت پذیروں کے ساتھ نہیں ہوتی۔