Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 18, 2018

مولانا غلام احمد وستانوی وقف بورڈ کی رکنیت سے معطل۔

مولانا غلام احمد وستانوی  وقف بورڈ کی رکنیت سے معطل۔وقف کی املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام۔
______ _______ ______ ____
اورنگ آباد ۔ 19اکتوبر 2018 ۔صدائے وقت (ذرائع)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . 
اوقاف بورڈ کی جائیداد کوزک پہنچانے،کے معاملے میں مولانا غلام محمد وستانوی کی وقف بورڈ کی رکنیت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں آئندہ کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔
اس ضمن میں حکومت مہاراشٹرا کی جانب سے 16 اکتوبر 2018 کو جاری کیے گئے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مولانا کو بادشاہی ملاّ مسجد ٹرسٹ (موضع بھنگار، ضلع احمد نگر) کی 32 ایکڑ 23 کٹھے زمین کے معاملے میں وقف ایکٹ 1955 دفعہ 20(1)(b) اور 16(d)(a) کے تحت ان کی رکنیت کو ختم کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن کے صدر شبیر انصاری کی جانب نے 29 نومبر 2017 کو محکمہ اقلیتی امور کے پاس شکایت درج کرائی تھی جس میں انھوں نے مولانا غلام وستانوی کے ساتھ ساتھ، دیگر 6 افراد کے خلاف وقف ایکٹ 1995 کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی کرکے وقف املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے تھے۔
حکومت کی جانب سے جاری موجودہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس موجود دستاویزات اور دیگر ثبوتوں کی بنیاد پر مولانا غلام محمد وستانوی کی جانب سے وقف جائیداد کو نقصان پہنچانے، وقف جائیداد پر غیر قانونی پرتصرف کرنے کے معاملے میں ان کی وقف بورڈ کی رکنیت کو کالعدم کیے جانے کی تحویز حکومت کے زیر غور تھی۔
حکم نامہ میں صراحت کی گئی ہے کہ 18 دسمبر 2003 کو بادشاہی ملاّ مسجد ٹرسٹ کہ 32 ایکڑ 23 گنٹے وقف زمین کو مولانا غلام وستانوی نے 99 سال کے ایک معاہدے کے تحت حاصل کیا تھا اور تب سے اس زمین پر ان کا قبضہ ہے۔ اس معاہدے پر ان کے دستخط موجود ہیں۔ اس زمین کو حاصل کرنے کےلیے وقف بورڈ کی پہلے سے اجازت نہیں لی گئی اور وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ56 (1) اور 56(2) کی خلاف ورزی کی گئی۔
مزید براں مولانا نے 12 دسمبر 2014 کو اوقاف بورڈ کے چیف آفیسر کو لکھے اپنے خط میں کہا ہے کہ بادشاہی ملاّ مسجد ٹرسٹ کہ 32 ایکر 23 گنٹے وقف زمین کو انھوں نے 99 سال کے معاہدے پر حاصل کیا ہے اور یہ زمین 18 دسمبر 2003 سے ان کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ اس لیے مولانا کی جانب سےموجودہ وضاحت اور صفائی  اور ناقابل قبول ہے۔ اور وہ وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 52 اے کے تحت کاروائی کے اہل پائے گئے ہیں۔