Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, October 6, 2018

ہم پر انگریزی کیسے مسلط ہوئی۔ایک تاریخی تحریر۔

  تحریر /آصف جیلانی
بشکریہ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
برطانیہ کے مشہور تاریخ دان لارڈ مکالے 1834 سے 1838 تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے سیکرٹری تھے۔ 1835میں انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کیا ہے اور ہندوستان کی فضا میں سانس لی ہے۔ میں نے اس دوران ایک شخص بھی نہیں دیکھا جو بھک منگا اور چور ہو۔ اس ملک میں اتنی دولت دیکھی ہے، اتنی اعلیٰ اخلاقی قدریں دیکھی ہیں اور اعلیٰ قابلیت کے لوگ دیکھے ہیں۔ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو نہیں توڑتے جو اس کا روحانی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ لہٰذا اس ملک پر تسلط جمانے کے لیے ہمیں اس قوم کے موجودہ تعلیمی نظام اور اس کے کلچر کو تبدیل کرنا لازمی ہے تاکہ یہ قوم یہ محسوس کرنے لگے کہ غیر ملکی اور انگریزی تہذیب ان کے کلچر سے اعلیٰ ہے یوں یہ قوم اپنی خود داری کھو بیٹھے گی۔ لارڈ مکالے نے زور دیا کہ برصغیر میں ہمارا مطمح نظر ایسے طبقے کو فروغ دینا ہونا چاہیے جس میں خون اور رنگ تو برصغیر کا ہو لیکن مذاق، رائے، اخلاق اور ذہانت انگریز کی ہو۔‘‘
اس فلسفے کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں انگریزی مسلط کرنے کا نہایت کایاں منصوبہ تیار کیا۔ اس زمانہ میں انگریزی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فارسی تھی جسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی اور نہ صرف عدالتوں اور سرکاری اداروں میں واحد زبان کے طور پر رائج تھی بلکہ ادب شعر و شاعری اور ثقافت پربھی حاوی تھی۔ انگریزوں کو اس بات کا احساس تھا کہ فارسی کو یک لخت ہٹا کر اس کی جگہ انگریزی کو رائج کرنا بہت مشکل ہوگا۔ چناں چہ لارڈ مکالے نے یہ تدبیر اختیار کی کہ فارسی کے تسلط کے خاتمے کے لیے پہلے مرحلے میں علاقائی زبانوں کو بڑھاوا دیا جائے اور عوام میں اپنی مادری اور علاقائی زبانوں سے لگاؤ اور اہمیت اجاگر کی جائے اور یوں ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ فارسی ان کی اپنی زبان نہیں ہے بلکہ مغل حکمرانوں کی زبان ہے۔
اس سلسلے میں یہ پہلو نہایت دلچسپ تھا کہ 1780 سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے فارسی اس قدر اہم تھی اور اس سے اس حد تک عقیدت تھی کہ وارن ہیسٹنگس نے آکسفورڈ یونی ورسٹی میں فارسی کا شعبہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاکہ ہندوستان جانے والے بیوروکریٹس فارسی سیکھ سکیں اور انہیں سرکاری کاموں میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ اس زمانہ میں ہندوستان کی تعلیمی پالیسی پر مستشرقین حاوی تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی میں کام کرنے والے اہل کاروں کے لیے سر ولیم جونز نے 1771میں فارسی کی گرامر شائع کی تھی۔ ان مستشرقین نے فارسی کی پشت پناہی کے ساتھ عربی اور سنسکرت کی تعلیم کی حمایت کی تھی اور کلکتہ اور بنارس میں مدارس اور اسکول قائم کیے تھے۔ عدالتوں اور سرکاری اداروں میں فارسی کے خاتمے کے پس پشت حقیقی عوامل کو چھپانے کے لیے نوآبادیاتی حکمرانوں نے ہندوستان کی علاقائی زبانوں پر اپنی عنایات کا نمایاں اظہار شروع کر دیا۔ اسی دوران برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کی علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات کا اعلان کیا۔ کلکتہ میں اردو اور بنگالی کی تعلیم کے لیے 1800میں جو فورٹ ولیم کالج قائم کیا گیا تھا اس پر خاص توجہ دی گئی۔ بنارس میں سنسکرت اور ہندی کی تعلیم کو فروغ دیا گیا۔ اسی زمانہ میں سندھی کا عربی رسم الخط اختیار کیا گیا۔ انگلستان سے جو نوجوان، فوج اور بیوروکریسی میں قسمت آزمانے ہندوستان آتے تھے انہیں کم سے کم دو علاقائی زبانیں سیکھنی اور ان کا امتحان دینا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ عدالتوں اور سرکاری اداروں سے فارسی کے مکمل خاتمے کے بعد 1835 میں گورنر جنرل کی کونسل نے کھلم کھلا ایک قرارداد میں اعلان کیا کہ برطانوی حکومت کا عظیم مقصد ہندوستان کے عوام کو یورپی علوم اور سائنس کی تعلیم دینا ہے اور اس مقصد کے لیے انگریزی کی تعلیم کے لیے وافر فنڈ مہیا کیے جائیں گے۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ انگریزی ہندوستان میں حکمران طبقہ کی زبان ہے۔ یہ زبان ہندوستانیوں کے اعلیٰ طبقے میں بولی جاتی ہے لہٰذا یہ زبان سرکاری اداروں اور تجارت میں بھی استعمال ہونی چاہیے۔ جہاں تک عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں علاقائی زبانوں میں کارروائی کا سوال تھا تو اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ فارسی رسم الخط کی بنا پر اردو کی اتنی مخالفت نہیں کی گئی جتنی کہ ہندی کے سلسلہ میں دیوناگری رسم الخط رکاوٹ قرار دی گئی اور یہ دلیل پیش کی گئی کہ اسے عدالتی اور سرکاری اداروں میں رایج کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔
لارڈ مکالے کا کہنا تھا کہ انگریزی زبان ہندوستان کو یورپی برادریوں سے قریب تر لا سکتی ہے اس لحاظ سے عربی اور سنسکرت کی تعلیم بے سود ہے اور اس کے بعد ہندوستان میں عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی اشاعت ممنوع قرار دے دی گئی۔ بالاخر 4 ستمبر 1837 کو ہندوستان میں فارسی کی جگہ انگریزی نے لے لی۔ فارسی کے خاتمے کے خلاف ہندوستان میں کئی سال تک احتجاج ہوتا رہا۔ مشرقی بنگال میں ہندوں اور مسلمانوں دونوں نے عدالتوں میں فارسی کے خاتمے کے خلاف پر زور صدائے احتجاج بلند کی۔ 1839 میں زمینداروں اور وکلا نے حکومت ہندوستان کو درخواست دی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ عدالتوں میں فارسی برقرار رکھی جائے۔ لیکن نو آبادیاتی حکمران کسی صورت میں انگریزی کو ہندوستان پر مسلط کرنے کے منصوبہ کو ناکام بنانے نہیں دینا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے بڑے منظم طریقہ پر ایک طویل عرصہ سے کام شروع کیا تھا۔ یوں ہندوستان میں انگریزی کے تسلط کے لیے میدان صاف ہوگیا۔ ہندوستان کی اشرافیہ نے جو پہلے فارسی کی تعلیم حاصل کرنا فخر سمجھتی تھی، فارسی کے زوال کے فوراً بعد انگریزی کی طرف دیوانہ وار بے تابی کے ساتھ بڑھی اور اسے اپنے کلیجے سے لگا کر حکمرانوں کی وفا داری اور قربت کا دم بھرنا شروع کردیا۔ عیسائی مشنریوں نے بھی انگریزی کے بل پر تبلیغ کے روشن امکانات کا خیر مقدم کیا۔ بنگال میں راجا رام موہن رائے نے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ریٹائرڈ اہل کار تھے، انگریزی کی تعلیم کے لیے انگلو انڈین کالج قائم کیا۔ ادھر بنارس میں نارائین گھوشالنے عیسائی مبلغوں کی مدد سے انگریزی کا اسکول قائم کیا۔ دلی میں البتہ انگریزی کی تعلیم عام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ بیش تر نجی مدارس میں عربی، فارسی اور فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی جس میں انگریزی کی تعلیم کی سخت مخالفت کی گئی جو زیادہ دیر پا ثابت نہ ہو سکی۔
غرض لارڈ مکالے کا یہ دعویٰ صحیح ثابت ہوگیا کہ برصغیر کی زبان اور ثقافت کا ورثہ چھین کر اسے آسانی سے زیر کیا جا سکتا ہے اور برصغیر میں ایسے طبقے کو فروغ دیا جا سکتا ہے جس میں خون اور رنگ تو برصغیر کا ہو لیکن ذہنیت نو آبادیاتی ہو۔ واقعی برصغیر میں انگریزی کے مسلط ہونے کے بعد جیسے کہ لارڈ مکالے کو توقع تھی، ہم نے انگریزی زبان، انگریزی تہذیب اور انگریزی کلچر کو اعلیٰ سمجھ کر اپنی خودداری کھو دی ہے۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ یہ ذہنیت آج بھی ہم پر مسلط ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ انگریزوں کی غلامی کے دور میں انگریزی ہمارے ذہنوں پر اور ہماری زبان اردو پر اتنی حاوی نہیں تھی جتنی کہ آزادی کے بعد اب ہم پر حاوی ہے۔ عالم یہ ہے کہ ہم نے انگریزی کو اپنے اوپر مسلط کر کے اپنی زبان کو مسخ کر دیا ہے۔ ہم اردو کا ایک جملہ انگریزی کی بیساکھی کے بغیر ادا نہیں کر سکتے۔ صورت حال یہ ہے کہ اب اردو ہماری مادری زبان نہیں رہی ہے بلکہ اردو انگریزی کی باندی دکھائی دیتی ہے۔