Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 2, 2018

خارجیت جدیدہ۔ایک علمی تحریر


تحریر/ علی کاظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ ابو نافع اعظمی صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
خارجیت وناصبیت جدیدہ کا اصل مسئلہ ان کا کھوکھلا اور پرفریب مبلغ علمی ہے جس سے بعض اوقات بڑے بڑے صاحب علم دھوکہ کھا کر ایک وقتی رعب اور دھونس میں آجاتے ہیں ۔

ھوا یہ ہیکہ محمود عباسی سے لیکر اب تک اس پوری جدید  ناصبی فکر پر کوئی اصولی ومنہجی تنقید ابھی تک سامنے نہیں آئی اور جزئیات  پر مبنی دفاعی وجوابی کام ھی ھوا ہے ، جس میں اکثر تاریخی حوالوں سے ناصبیوں کا رد کیا گیا ہے ۔

ان تاریخی متون کے جواب میں ناصبی حضرات نے ایک ھی حکیمی پھکی ایجاد کر رکھی ہے کہ کسی بھی تاریخی حوالے کے جواب و رد میں وہ اس تاریخ پر محدثانہ نقد شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ وسیرت کے امام و راوی پر فلاں حدیث کے امام نے جرح کی ھے لہذا یہ تاریخ جھوٹی اور کذب پر مبنی ہے ۔

حالانکہ محدثین کا واقدی اور ابن اسحاق سے جو جوھری واصل اختلاف ہے وہ صرف حدیث اور سیرت وتاریخ کے فنی فرق وامتیاز پر مبنی ہے ،

حدیث کے متعلق امت کا منہج ، تعامل ، اور اپروچ یہ ہیکہ یہ براہ راست وحی ہے یا اس کے قائم مقام ہے ، حدیث کا دائرہ  تشریعی امور کے استنباط ، احکام وقضایا کے ثبوت ، اور اھم عقائد کے براہ راست استخراج جیسے اھم امور پر مشتمل ہے ، اس لیے اس کی صحت ودرستگی کے معیارات بھی غیر معمولی ہیں ، وھاں کسی حدیث کی روایت کے لیے جتنے طرق اور جتنے راوی ہیں ان کو الگ الگ اور ان کی روایت کردہ حدیث کے ایک ایک لفظ کو دوسرے طرق اور دوسرے الفاظ سے ممتاز وجدا کرنے کا فنی اقتضا واحتیاج موجود ہے ۔

سیرت وتاریخ کا دائرہ تشریعی امور کا کم اور تہذیبی نوعیت کا زیادہ ہے اس کی فنی واصولی ضروریات مختلف ہیں سیرت نگاروں یا تاریخ نویسوں نے اس موضو کی فنی ضروریات کے تحت کسی بھی راویت کے طرق اور لفظی فروق کی جگہ اصل حیثیت اس علم میں مطلوب اس کی  تاریخیت کو برقرار رکھنے کو مقدم جانا ہے اور وہ ایک ھی روایت کے تمام طرق کو یکجا کر کے لکھ دیتے ہیں اپنے شعبہ کے فنی اقتضا کے مطابق ۔

اور محدثین اور سیرت نگاروں کے ھاں اصل اختلاف اسی منہج کا ہے اور باھمی تنقید کا جو سلسلہ ہے وہ بھی اسی موجب ہے ۔

یہی وجہ ہیکہ فقہاء نے جب ان تاریخی امور کی فقہی تکییف کی ہے تو  محدثین کی  تمام تنقیدات اور جرحوں کے باوجود انہیں تاریخی روایتوں اور ان کے محدثانہ ضعف کے باوجود بنائے استدلال انہی کی بیان کردہ روایتوں بنایا ہے ۔

ناصبی حضرات کرتے یہ ہیں کہ حدیث سیرت تاریخ کے فنی امتیازات ، مناھج ، تریجیہات کو یکسر نظر انداز کرکے ایک ھی نوعیت کے تمام اعتراضات سیرت وتاریخ پر جڑ کر عوام کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرتے ہیں ۔

اب یہ کس قدر بے شرمی اور ڈھٹائی کی بات ہیکہ ابن اسحاق کی سیرت جس کے منہج پر اکثر متون سیرت قائم ہیں اور دس کے قریب ذیول یا شروحات ایسی ہیں جو بذات خود سیرت کا ابتدائی ماخذ بھی ہیں اور ساتھ ہی وہ یا تو سیرت ابن اسحق کی تلخیص ہیں یا اس کی شرح ہیں یا اس کی شرح کی شرح ہیں یا اس کے معیارات پر لکھی گئی ہیں ۔ واقدی کی سیرت ھو یا ابن ھشام کی تلخیص ، سہیلی کی الروض الانف ھو یا ابن قیم کی زاد المعاد  ، یا بلوغ المرام یہ تمام جہاں سیرت کے ماخذوں میں شمار ھوتی ہیں وہیں یہ سیرت ابن اسحق کے ساتھ ھی گہرا ارتباط رکھتی ہیں مختلف حوالون سے ، ابن اسحاق کو مردود ثابت کرنے کا مقصد سوائے اس کے پھر کیا ہے کہ آپ چودہ سو سال کے اکثر بلکہ تمام  زخیرہ سیرت کو ھی رد کر رھے ہیں ۔

یہ تمام تفصیلات عرض کرنے کا مقصد  یہ ہیکہ ناصبی فکر کا مجموعی مبلغ علمی جو کھوکھلے پن ، دھوکے اور فریب پر مبنی ہے اس پر اصولی حوالہ سے کام کیا جائے اور ان کے فریب کی قلعی کھولی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔