اعظم گڑھ ۔اتر پردیش ۔صدائے وقت۔نامہ نگار۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
دنیا کی تمام تحریکات جو حقوق نسواں کے کے لئیے مختلف ادوار میں چلائی گئیں وہ اسلامی تحریک کے سامنے قصیر القامت ثابت ہوئیں۔
اخلاق بندوی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ کاسیرت صحابیات پر چوتھا دوروزہ انٹرنیشنل سیمینار بہ عنوان ”اصلاح معاشرہ میں صحابیات کا کردار اور اس کی عصری معنویت “١٩-٢٠ نومبر ۲۰۱۸کو کالج گراﺅنڈ میں منعقد ہوا۔ چھ نشستوں پر مشتمل اس سیمینار میں بیش قیمتی مقالے پڑھے گئے، عمدہ تقاریر پیش کی گئیں اور اسلامیات پر مختلف کتابوں کی رسم اجراءعمل میں آئی، ایوارڈز اور اعزازات تقسیم کیے گئے۔
سیمینار کا آغاز ۱۹ نومبر کو صبح ۱۰ بجے حافظ قمر عباسی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ کو کنوینر ڈاکٹر ظہور عالم نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔مولانا انصار زبیرمحمدی (ممبئی) نے سیمینار کے موضوع اور مقاصدپرتفصیلی گفتگو کی۔مولانا عمیر الصدیق ( رفیق شبلی اکیڈمی) نے اپنے خطاب میں بچوں کی پرورش اور نگہداشت میں ماں کے کردار کی معنویت پرسیر حاصل بحث کی۔ مہمان اعزازی جناب کے ڈی ترپاٹھی، چانسلر مہاتما گاندھی انٹر نیشنل ہندی یونیورسٹی نے ملک کے تعلیمی نظام میں اخلاقی تعلیم کی اہمیت پرروشنی ڈالی اور اصلاح معاشرہ کے لیے ڈاکٹر محمد طاہر کی کوششوں کو سراہا۔ سیمینار کے کنوینر ڈاکٹر محمد طاہر نے معاشرے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں پھیلی ہوئی برائیوں کولطیف پیرائے میں کرید کرید کر اجاگر کیا بالخصوص نسل نو میں پھیلی ہوئی فحاشی اور بے حیائی کا ماتم کیا جس نے آج پورے سماج میں ایک وبائی صورت اختیار کر لی ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی، صدر شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی نے اپنا مقالہ پیش کیا اور وجود زن کو کسی بھی خاندان کی بنیاد ، محور اور مرکز بتایا۔کالج کی طالبہ عفت رحمان نے رسالت مآب کی شان میں نعت کا نذرانہ پیش کیا۔ چند دیگر طالبات نے اسلام سے قبل بچیوں کو زندہ در گور کر دیے جانے کا منظر اسٹیج شو کے ذریعہ پیش کیا جسے دیکھ کر شائقین کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسی اجلاس میں ڈاکٹر محمد طاہر کی کتابوں کی رسم اجرا بھی عمل میں آئی جن کے نام ہیں مسائلِ امروز، امت کی مائیں، طلاق اور چشم خوں بستہ کا انگریزی ترجمہ دی ورلڈ اِز ٹومچ وِد اَس۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر غیاث اسد خاں نے مہمانوں، مقالہ نگاروں و دیگر حاضرین کا شکریہ اداکیا۔
دوسرا اجلاس بعد نماز ظہر ۲ بجے کالج کی طالبہ بشریٰ خاتون کی نعت خوانی سے شروع ہوا۔ کالج کی طالبہ ام عمارہ اورداعی دین احمد یادونے تقاریر پیش کیں۔ مولانا ابوالبرکات اصلاحی اور ڈاکٹر اشہد کریم (فیض آباد) نے اپنے مقالات پیش کیے ۔ اخلاق بندوی نے اپنے مقالے کی تلخیص پیش کی. انھوں نے دعوی کیا کہ دنیا کی تمام تحریکات جو حقوق نسواں کی بحالی کے لیے مختلف زمانوں میں چلائی گئیں وہ اس اسلامی تحریک کے سامنے قصیر القامت ثابت ہوئیں جو چودہ سو سال قبل پیغمبر اسلام نے چلائی تھی.
تیسرا اجلاس بعد نماز مغرب کالج کی طالبہ عفت رحمان کے ہدیہ نعت سے شروع ہوا۔اس نشست میں محترمہ زینب شیخ (بنارس ) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جب کہ اسلام نے بہت پہلے ہی جنسی امتیاز ختم کر دیا تھا۔ محترمہ ساجدہ بنت ابواللیث( سابق پرنسپل شعبہ نسواں جامعة الفلاح ) ڈاکٹر شبنم (الٰہ آباد)،ڈاکٹر نعیم النساءو ڈاکٹر شاہدہ شبنم (کشمیر)، ڈاکٹر شبانہ نسرین و ڈاکٹر شبانہ جاوید (کلکتہ) نے عنوان کے تحت اپنے مقالات پیش کیے۔ ڈاکٹر شاہدہ شبنم نے سر زمین شبلی سے اپنے والہانہ لگاﺅکا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ اعظم گڑھ پہنچیں تو اندھیرا ہوچکا تھا پھر بھی وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہاں کی زمین کا دیدارکر لینا چاہتی تھیں کہ صبح تک کی محرومی کا احساس نیند پر غالب نہ آجائے۔ اپنے صدارتی خطاب میں محترمہ اسماءشمس نے خواتین کو شرعی احکامات کا پابند ہونے کی نصیحت کی۔ انھوں نے کہا کہ مغربی تہذیب صرف ایک چھلاوہ ہے جو تھوڑے دن اپنی چمک دکھا کر انسان کو ڈپریشن کا شکار بنا دیتی
ہے۔ کالج کی طالبات اقصیٰ خان اور ہیم لتا سنگھ نے اپنی نظمیں پڑھیں ۔ مہمانان خصوصی ڈاکٹر نصرت جہاں اور ڈاکٹر عابدہ کوثر کے تاثراتی تبصرے سے نشست اختتام پذیر ہوئی۔ نظامت کالج کی طالبات ادیبہ عترت اور رُبا فاطمہ نے کی ۔
چوتھے اجلاس کا آغاز ۲۰ نومبر کو صبح ۱۰بجے تلاوت کلام مجید اور ترجمہ سے ہوا۔ کالج کی طالبہ وردہ عمران نے اپنے مخصوص انداز میں نظم پڑھی۔ ڈاکٹر سرفراز نواز نے اپنے خطاب میں علامہ شبلی نعمانی کی دونظموں "ایثار کی اعلیٰ ترین نظیر"اور”اہلِ بیتِ رسول کی زندگی “ کی نسبت سے ازواج مطہرات اورصحابیات کے کردار پر روشنی ڈالی ۔ محمد افضل نے اپنے مقالے کے ذریعہ رزق حلال سے بچوں کی پرورش و پرداخت پر زور دیا کہ یہی وہ نسخہ ہے جس سے صالح اولادیں پروان چڑھتی ہیں۔ ڈاکٹر مرزا محمود بیگ (الٰہ آباد یونیورسٹی ) نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صحابیات رسول کو دنیا سے بقدر ضرورت لگاؤ تھا وہ زیادہ تر آخرت کے لیے فکرمند رہا کرتی تھیں. ڈاکٹر جاوید اختر، مولانا ابو اعلیٰ(دہلی)،مولانا عبد العزیز(کلکتہ)، ڈاکٹر احسان اللہ فہد (علی گڑھ) ڈاکٹر نصرت جہاں(کلکتہ ) اور ڈاکٹر عابدہ کوثر(کشمیر) نے بھی اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔ آخر الذکر مقالہ نگار خواتین نے ارباب حل و عقد کے سامنے سوال اٹھایا کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے لیے خواتین سے زیادہ مرد ذمہ دار ہیں پھر مورد الزام صرف خواتین کو ہی کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ انھوں نے تلقین کی کہ عورتوں کے مقابلے مردوں کی اصلاح زیادہ ضروری ہے۔ پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی (سابق صدر ادارہ علوم اسلامیہ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ) کی تقریراس نکتہ پر مرکوز تھی کہ ہمیں شاعری اور لفاظی کی خود فریبی سے نکل کر صحابہ و صحابیات کی اصل زندگی کا مشاہدہ کرنے اور ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اتارنے کی ضرورت ہے۔ مہمان خصوصی جناب آصف فاروقی (دبئی) نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور بے حسی پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے مذہبی تقریبات میں غیر مسلموں کو مدعو کرنے اور اچھے اخلاق کا نمونہ پیش کرنے پر زور دیا ۔اسی نشست میں ڈاکٹر محمد طاہر کی کتاب ’چشم خوں بستہ‘ کے انگریزی ترجمہ ’دی ورلڈ اِز ٹو مچ وِد اَس ‘ اور ہندی ترجمہ ’اپنا دکھ اپنے لوگ‘ کے لیے بالترتیب ڈاکٹر سرفراز نواز اور اخلاق بندوی کو مومنٹو اور توصیفی اسناد سے سرفراز کیاگیا۔ اسی کڑی میں ڈاکٹر محمد طاہر کی کتاب ’امہات المومنین‘ کے عربی ترجمہ کے لیے خبیب حسن اور’مومنوں کی مائیں‘ کے کشمیری زبان میں ترجمہ کے لیے ڈاکٹر شاہدہ شبنم کو سرٹیفکیٹ اور اعزاز سے نوازا گیا۔
پانچویں اجلاس کا آغاز بعد نماز ظہر کالج کے طالب علم ذیشان آرزو کی نعت خوانی سے ہوا۔اس نشست میں کالج کی طالبات کی نظم خوانی کے علاوہ شکیل احمد اعظمی، عبید اللہ شفیق (ممبئی) مولانا ظل الرحمان فائق ومولانا محمد اسلم مبارک پوری (جامعہ سلفیہ بنارس)اورڈاکٹر اشہد کریم (فیض آباد) نے اپنے مقالات پڑھے۔ سراج معصوم اعظمی نے امہات المومنین کی شان میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ نظامت اخلاق بندوی نے کی۔
چھٹواں اجلاس بعد نماز مغرب شروع ہوا ۔اس مجلس میں شکیل احمد (مئو)اورمولانا محمد امین عامر( کلکتہ)کے مقالات کے علاوہ کالج کی طالبات ایشا سنگھ ،ثانیہ بانو،ہیم لتا اور کلثوم ارشد کی تقاریر اور نظمیں حاضرین کی خدمت میں پیش ہوئیں۔ اختتامی لمحات میں مقررین نے سیمینار کی جملہ تقریب پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ مولانا عبد الجلیل انصاری (ممبئی ) نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگرام کا کسی کالج میں انعقاداصلاح معاشرہ اور فلاح انسانیت کے لیے ایک مثبت قدم ہے ۔ کالج کی طالبات کے علاوہ شہر اور مضافات کی خواتین کثیر تعداد میں اس پروگرام میں شریک ہوئیں. ڈاکٹر نصرت جہاں نے اس سیمینار کو علامہ شبلی کے مشن کی تعبیر بتایا۔ ڈاکٹر عابدہ کوثر نے کہا کہ اعظم گڑھ علمائے دین کی وہ بابرکت سرزمین ہے جہاں اس طرح کی تقریبات میں شرکت کے لیے کشمیر جیسے دور دراز علاقے سے سفر کی تمام دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے یہاں حاضر ہونا ہمارے لیے باعث صد راحت جاں ہوتا ہے۔ جملہ مہمانان کرام نے ڈاکٹر محمد طاہر اور مکرم علی کی شاندار میزبانی اور حسن انتظام کے لیے بھر پور سراہا۔ اخلاق بندوی نے کالج کی طالبات کی طرف سے ڈاکٹر محمد طاہر کی علمی اور ملی خدمات کے اعتراف میں ایک تاثراتی نظم پیش کی اور سیمینار کی بے انتہا کامیابی پر انھیں مبارکباد پیش کی۔ آخر میں سیمینار کے کنوینر ڈاکٹر محمد طاہر نے کالج کے مینیجر، پرنسپل، معاونین ، مندوبین و دیگر حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ نظامت مولانا انصار زبیر محمدی نے کی.
متفرق
Saturday, November 24, 2018
اعظم گڑھ۔شبلی کالج میں سیرت صحابیات پر دو روزہ بین الاقوامی سیمینار
Author Details
www.sadaewaqt.com