Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 10, 2018

سپریم کورٹ نے چار ملزمین کو دہشت گردی کے الزامات سے با عزت بری کیا۔


اتر پردیش حکومت کو منہ کی کھانی پڑی، جمعیۃ علماء کی بڑی کامیابی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ممبئی ۱۰؍ دسمبر(خصوصی نمائندہ صدائے وقت)۔
۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج یہاں چار مسلم نوجوانوں کو بڑی راحت دیتے ہوئے انہیں دہشت گردی جیسے سنگین الزامات سے باعزت بری کردیا۔یہ اطلاع آج یہاں چار ملزمین سے تین ملزمین واصف حیدر،ممتاز مختار احمد اور شفت رسول کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی ) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی جبکہ ایک ملزم حاجی عتیق احمد کے مقدمہ کی پیروی اے پی سی آر تنظیم نے کی۔
گلزار اعظمی نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے جسٹس این وی رمنا اور جسٹس موہن شانتانوگودرا نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ملزمین کو باعزت بری کیئے جانے والے فیصلہ کے خلاف حکومت اترپردیش کی جانب سے داخل اپیل پر سماعت کرنے کے بعد اسے خارج کردیا ، جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کامنی جیسوال، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ارشاد حنیف اور ان کے معاونین ایڈوکیٹ عارف علی اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے پیروی کی۔
دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں انہیں ایسی کوئی بھی خامی نظر نہیں آتی جس پر نظر ثانی اور فیصلہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، تفصیلی فیصلہ جلد ہی ملزمین اور وکلاء کو مہیا کردیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ۱۶؍ مارچ ۲۰۰۱ء کو کانپور میں فساد برپا کرنے اور پولس اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزامات کے تحت تحقیقاتی ایجنسی نے ملزمین واصف حیدر،ممتاز مختار احمد،حاجی عتیق حاجی رشید احمد اور شفت رسول کو تعزیرات ہند کی دفعات 302,307,395,147,149,427,436,153-Aکے تحت مقدمہ قائم کیا تھا نیز ملزمین کے قبضہ سے بندوق اور دیگر ممنوعہ ہتھیار ضبط کرنے کا بھی دعو ی کیاتھا جس سے انہوں نے پولس افسر ایس پی پاٹھک کا قتل کیا تھا۔کانپور میں قرآن شریف کو جلانے کے خلاف احتجاج کے دوران فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تھا جس میں دونوں فرقوں کی جانب سے ۱۸؍ لوگوں ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
چارج فریم ہونے کے بعد نچلی عدالت میں ملزمین کے مقدمات کی سماعت چلی جہاں انہیں۲۲؍ جنوری ۲۰۰۴ء کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن نچلی عدالت کے فیصلہ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ۲۹؍ مئی ۲۰۰۹ کو تبدیل کرتے ہوئے ملزمین کو باعزت بری کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔
گلزار اعظمی نے مزید بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے ملزمین کو راحت ملی تھی اور وہ دس سالوں کی جیل کے صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد جیل سے رہا ہوئے تھے لیکن ان کے مقدمہ سے باعزت بری ہونے کے چند ماہ بعد ہی ریاستی حکومت نے ان کی رہائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جہاں مقدمہ کی سماعت تقریباً آٹھ سال تک چلتی رہی اور آج بالآخیر ملزمین کو انصاف حاصل ہوا۔
گلزاراعظمی نے آخیر میں کہا کہ میڈیا نے اس معاملے کو دہشت گردی سے جوڑ کر پیش کیا تھا جس کے خلاف ملزمین نے میڈیاہاؤسیس کو نوٹس بھی جاری کیا تھا نیز آج کا سپریم کورٹ کا فیصلہ ان میڈیا والوں کے منہ پر زوردار تماچہ ہے جنہوں نے ملزمین کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا تھا اور انہیں دہشت گرد لکھا تھا