Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 8, 2018

قوم کو آگاہ کیجئیے ، مگر اس کا حوصلہ مت چھینیئے!ایک سبق آموز تحریر۔ضرور پڑھیں۔


بقلم محمد اجمل قاسمی/ بشکریہ عاصم طاہر اعظمی۔(صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
شکوہ الطاف حسین حالی نے بھی لکھا ہے، جسے ہم مسدس حالی کے نام سے جانتے ہیں، یہ اشعار نہیں ہیں، بلکہ درد و غم کے آنسو ہیں، جو ملت اسلامیہ کی ہمہ جہت فلاکت و زبوں حالی اور امت مسلمہ کی  ہمہ گیر نکبت وپستی کے دل دوز مناظر دیکھ کر  حالی کی نوک قلم سے ٹپک پڑے ہیں۔
حالی نے مسلم معاشرے کی ایک بے کم و کاست اور سچی تصویر پیش کی ہے، ان کی زبردست قوت مشاہدہ نے جو دیکھا ہے ان کی شاعری نے اسے الفاظ وأشعار کا بہترین روپ دے کر قوم کو ایک ایسا دراز قامت آئینہ پیش کیا ہے جس میں قوم اپنے شکستہ وجود کے ایک ایک عیب اور کمزوری کو اول وہلہ میں دیکھ سکتی ہے،
حالی نے اپنی شاعری کی ساز میں وہ سوز بھرا ہے، درد و غم کی وہ تعبیر کی ہے، لٹتی پٹتی قوم پر وہ نالہ کشی کی ہے کہ پڑھنے والا پڑھتا ہے اور درد وغم کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے ۔
ملت کے لیے حالی کے جو جذبات ہیں اور اس حوالے سے ان کے اندر جو دلسوزی اور تڑپ ہے وہ جہاں قاری کے دل میں حالی کے لیے محبت و عقیدت کے جذبات پیدا کرتی ہے وہیں بکھرے ہوئے کارواں اور اس کی لٹتی ہوئی متاع کے زیاں کا احساس بھی اس کے اندر جاگ جاتا ہے۔
لیکن زیاں کا یہ احساس اس کے اندر قوت فکر وعمل پیدا کرنے کے بجائے اس کی مایوسی کو اور بڑھا دیتا ہے، اور اس کے شکستہ وجود میں ھزیمت کے احساس کو مزید تیز کردیتا ہے۔
دوسری طرف شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی شکوہ تحریر کیا ہے، جسے ہم اور آپ شکوہ ہی کے نام سے جانتے ہیں، مگر وہ نوجوان مسلم کو  دور زوال کی تصویر دکھانے کے بجائے اس کے تابناک ماضی کی طرف لے گئے ہیں، اور اسے اس کے عظیم پیش روؤں کی داستان عزیمت ولولہ انگیز اسلوب میں سناکر اس کے اندر عقابی روح، چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
انھوں بساط غم بچھا کر غم زدہ افراد کے غم میں اضافہ نہیں کیا، بلکہ انھوں نے اپنے طاقتور اور پرشوکت اشعار میں فتح وکامرانی کے نغمائے طرب گاکر حوصلوں کو مہمیز کیا، ہمتوں کوجوان کیا، عزائم کو بیدار کیا، یہ ترانہ اتنا حوصلہ بخش ہے کہ ناتواں ممولا بھی اسے سن لے  تو اسے شہباز سے پنجہ آزمائی کی ہمت اور جرأت آجائے۔
یہی وہ راز ہے جس نے اقبال کے شکوے کو زبان زد خاص و عام بناکر بقاء دوام سے ہمکنار کیا ہے۔
آج ہر خطیب اور قلم کار جب دور حاضر کے مسائل پر کچھ لکھتا یا بولتا ہے تو نوجوانوں کے سامنے امت کو در پیش چیلنجز اس درجہ ہولناک بناکر پیش کرتا ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں، اور بجایے اس کے کہ ان کے اندر چیلنجز کا سامنا کرنے کی اسپرٹ پیدا ہو ان کی رہی سہی قوت وفکر عمل بھی فنا ہوجاتی ہے اور وہ مقابلہ کی ہمت جٹانے کے بجائے کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ۔
ہماری ہر تحریر میں "زوال پذیر قوم" شکست خوردہ قوم "اور ان جیسے بیسویں الفاظ اس کثرت سے استعمال ہوتے ہیں کہ قاری یہ تاثر لینے مجبور ہوتا ہے کہ ہم واقعی زوال پذیر لوگ ہیں، اور ہم سے اب کچھ نہیں بن پڑے گا۔ اسے اپنی خوبیاں بھی خامیاں معلوم ہونے لگتی ہیں، اور وہ ان کے دفاع یا حفاظت کی فکر کرنے کے بجائے اس سے چھٹکارا پانے کی دھن میں لگ جاتا ہے۔
قوم کو جگائیے مگر اس طرح کہ بیدار ہوکر اس کی عقل ٹھکانے رہے اور وہ اپنے کو نقصان سے بچانے کی تدبیر کرے، ایسا نہ جگایے کہ ہواس باختہ ہوکر خود ہی درندے شکاری کے منہ میں چلی جائے۔
آپ طبیب ہیں مریض کو اس کا مرض بتائیے تاکہ وہ علاج کرکے اپنی صحت کی حفاظت کرے، مگر اس طرح نہ بتائیے کہ آپ کی خبر اس کے لیے موت کا پیام بن جائے اور موت سے پہلے ہی وہ مرجائے ۔
آج ہمارے بہت سے دوست اسی نوعیت کی غلطیاں دہرا کر نادانی میں وہ سب کررہے ہیں جو دشمن سے بھی نہ بن پڑا۔
ہندوستان کامسلمان مسلسل لٹتا رہا پٹتا رہا، حکومتوں نے بھی اس کے وجود کو دھکا دیا اور اکثریتی سوسائٹی نے بھی اس کے قدم اکھاڑ نے کی کوشش کی، آج بتایا جاتا ہے کہ وہ تعلیم معیشت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں دلت سے بھی پسماندہ ہے، مگر یہ لٹا پٹا مسلمان خطرات کے درمیان اپنے پاؤں پر اپنی ہمت کے بل بوتے مضبوطی سے قائم ہے، اسے فقیر محتاج کہا گیا، مگر کام اس کی مفلس جیب نے وہ کیا ہے جو حکومتی خزانوں سے بھی نہ بن پڑا۔
اتنے سارے عالیشان مدرسے، مسجدیں، تنظیمیں، تحریکیں، دینی جلسے اور اجتماعات اسی کی قربانیوں کے دم سے قائم ہیں اور نہ صرف قائم ہیں بلکہ پھول پھل رہے ہیں ؟ کیا زوال پذیر قومیں ایسی ہی ہوتی ہے؟! سلام ہو ہندی مسلمان پر جسے فاقہ کش کہا جاتا ہے کہ اس کی فیاضیوں نے اس صنم کدہ میں توحید کی وہ فصل بہار آگائی ہے جسے دیکھ کر مملکت توحید کے ادیب کبیر عائض قرنی کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور وہ اپنے جذبات چھپا نہ سکے، انھوں نے کہا میں ریاض میں رہتا ہوں، دنیا کے ملکوں میں پھرا ہوں، لیکن مجھے جو روحانی سکون دارالعلوم دیوبند اور ہندوستان کے دیگر علماء ومشایخ کی زیارت کرکے ملا کہیں نہیں ملا، مجھے شاہی محلات میں امراء وسلاطین کی ہمنشینی کے مقابلے میں خاک پر ان طلبہ علماء اور مشائخ کی ہمنشینی عزیز ہے۔
ہم ان روشن پہلوؤں پر بات کرکے نوجوانوں کے عزائم کو بلند کیوں نہیں کرتے؟
جسے دیکھیے بس وہی ہمت شکن راگنی الاپے جارہا ہے جسے سن سن کر کان پک گئے اور طبیعت اوب چلی ہے ۔
انداز اور اسلوب بدلیے، ہراساں نہ کیجیے ہمت و حوصلہ کی روح پھونکیے ۔