Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 29, 2018

نیا سال! یوم احتساب ہے نہ کہ یوم فرحت۔


از/ مولانا امتیاز اقبال ،،، صدائے وقت / مولانا سراج ہاشمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
یکم جنوری سے شمسی نئے سال کاآغاز ہوتاہے ۔ پہلی بات تو یہ ہےکہ  شریعت اسلامیہ میں مواقیت یعنی اوقات کوپہچاننے کا معیار چاند کو بنایا گیا ہے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی طالب علمانہ شان اور تحقیقی مزاج کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ عالی قدرمیں چاند سے متعلق سوال فرمایا تھا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجودہے۔
سوال اس لیے پیدا ہواتھا کہ چاند عجیب وغریب مخلوق نظرآتاہے اس لیے کہ یہ کبھی بالکل باریک ہوتا ہے، اورکبھی پیالے کے جیسےرونما ہوتا ہے تو کبھی تھالی کے مانند مکمل اور روشن دکھائی دینے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کےجواب میں فرمایا کہ یہ چاند تمہارے اوقات ، مہینوں اور سالوں کو جاننے کا ذریعہ ہے۔ چاند کو معیار بنانے میں یہ حکمت لکھی گئی ہے کہ چاند میں تغیر کو ہر عام و خاص محسوس کرتا ہے۔ اور اس کامشاہدہ کرسکتا ہے، اس لیے کہ چاند دنیا کے اکثر علاقوں میں نظر آتا ہے (جہاں نظر نہیں آتا وہاں کی وجوہات کچھ اور ہیں)دیہات ہویاشہر ، میدان ہو یا پہاڑی علاقہ، غرض کہ ہر طرف سے ہر جگہ نظر آتا ہے دیکھنے والا باآسانی دیکھ سکتا ہے اس کے برخلاف نظام شمسی کے تغیرات سے ہر آدمی واقف نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ادنی غور فکر کے بعد اس کے بارے میں علم ہوسکتا ہے۔
بہر حال چاند کو معیار بنا کر دنوں اورمہینوں کی تعیین ہوتی ہے اس کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے چاند کو معیار طے کرنے کے نتیجے میں اسلامی مہینے کسی بھی موسم میں آسکتے ہیں مثلاً رمضان المبارک کبھی گرمی میں تو کبھی سردی میں اور کبھی دیگر موسموں میں آتا ہے۔ دیکھاجاتا ہے کہ ۳۱؍دسمبر کی شب میں غیروں کی نقالی یا اپنے مزاج کی غفلت بے حیائی اور لاپروائی کےچلتے جشن کا ایک سماں پیداہوجاتاہے ، بڑےشہروں میں غیر مسلم اور مسلم عیاش اور اوباش قسم کے لوگ سال نو کی تقریبات میں حصّہ لیتے ہیں ۔ جوشراب ، شباب اور کباب پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ان تقریبات کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں اور اسلام کا مزاج یہ ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو ہر اُس کام سے منع کیاہے جو اس کو آخرت سے اور اللہ سے دور کردے ۔یہ تقریبات صرف اورصرف اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہے ۔ اور اس کانتیجہ خدافراموشی ہے ۔اُ س کی نحوست سے زندگی میں غفلت بڑھتے بڑھتے آدمی حقیقت سے بہت دور ہوجاتا ہے ۔جب سال کاپہلا دن اللہ کی نافرمانی اور اس کی پاکیزہ شریعت کی دھجیاں اڑانے میں گزرے گا تو پورا سال کس کیفیت کے ساتھ گزرے گا اس کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔ بہر حال سالِ نو کے موقع پربجائے خوشی منانے یا مبارکبادی دینے کے خود احتسابی سے انسان کوکام  لینا چاہیے۔حقیقی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان مسافر ہے اس کی زندگی مسافرانہ ہے بالکل اسی طرح کہ ہم گویا کسی اسٹیشن پر بیٹھے ہوئے ہیں جس کی گاڑی آئی وہ اپنے اگلے سفر کے لیے روانہ ہوگیا اور باقی مسافر اپنی گاڑی کے انتظار میں ہیں کہ کب گاڑی آ جائے اور تمام اسباب وسامان سمیٹ کر چل دیا جائے ۔
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو غفلت اور لاپرواہی میں اپنی عمر کے بیش قیمت لمحات گزار رہے ہیں، اپنی موت کو بھول کر انجام سے بے پرواہ ہوکر اپنے کھانے ،پینے، کھیلنے ،کودنے اور اپنی دھن میں مصروف ہیں حالانکہ سانسوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی عمر کی مقدار گھٹ رہی ہے رفتہ رفتہ انسان اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے اعمال وافعال کا جائزہ لینا بہتر ہے نا کہ محض مبارکبادیاں دے کر دل کو تسلی کا سامان مہیاکرے ۔ہر گزرا ہوا دن آئندہ کی یاد دلانے والا ہے اور جو وقت گزر گیا وہ واپس آنے والا نہیں دَراصل سال نو ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ گزری ہوئی گزرگئی اب آئندہ کا خیال کرنا ہے اور غفلت ولاپرواہی اس کے ماحول کو چھوڑ کر اپنا سمت ِ سفر متعین کرکے زادِ راہ کا انتظام کرنا ہے۔خلاصہ کلام یہ ہےکہ نئے سال کی تقریبات  شریعت اسلامی کے مزاج اور منشا کے خلاف ہے، ویسے بھی یہ غیروں کی نقالی ہے حالاںکہ یہ یوم احتساب ہے نہ کہ یوم فرحت،اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تدبر اور غوروفکر کی دعوت دی ہے اور ہرچیز سے عبرت حاصل کرنے کا مزاج بنایا ہے ،ہرسال سالِ نو یہ پیغام ساتھ لاتاہے کہ  
میں تو جاتا ہوں ذرا یہ دھیان رہے
اپنے مرنے کا خیال تجھے ہر آن رہے