Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 27, 2018

لوک سبھا میں احتجاج، مخالفت اور ہنگامہ کے درمیان طلاق ثلاثہ مخالف بل منظور۔


ترمیم کی تجاویز مسترد، ۲۴۵
اراکین نے حمایت میں ۱۱ نے مخالفت میں ووٹ دئیے۔

مسلم خواتین کےلیے گھڑیالی آنسو________ محمد سلیم،

منہ میں رام بغل میں چھری ____________سشمتا دیوی۔

اسدالدین اویسی نے ایک مرتبہ پھر حکومت کے دعوئوں کی دھجیاں اڑائیں،
مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بل کو بدترین ڈکٹیٹر شپ قرار دیا
_________________________
(مولاناسراج ہاشمی کےذریعے)/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . 
نئی دہلی: ۲۷؍دسمبر: لوک سبھا میں آج حکمراں جماعت ہنگامہ ، واک آئوٹ شور شرابے کے دوران اپنی عددی اکثریت کے بل پر طلاق ثلاثہ مخالف بل کو منظور کرالیا ہے۔ بل پیش کرتے وقت لوک سبھا میںحکمراں جماعت کے ممبران بھارت ماتا کی جے، جے سیا رام، وندے ماترم کے نعرے لگا رہے تھے۔ اطلاع کے مطابق لوک سبھا میں کانگریس سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے تین طلاق بل کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔ کانگریس کا مطالبہ ہے کہ اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے۔ کچھ جماعتوں نے بل میں کچھ ترامیم کی بھی تجاویز پیش کیں لیکن اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سمیت دیگر جماعتوں کی طرف سے بل میں ترمیم کے لئے لائی گئی تجاویز کو نامنظور کر دیا گیا۔تین طلاق پر مبنی بل کے حوالہ سے ایوان میں موجود 256 ارکان پارلیمنٹ میں سے 245 نے اس کے حق میں ووٹنگ کی جبکہ 11 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔قبل ازیں تین طلاق بل پر بحث کے دوران ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ خواتین کے نام پر لایا جا رہا یہ بل سماج کو جوڑنے والا نہیں بلکہ سماج کو توڑنے والا بل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے خلاف تو ہے ہی مساوی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ کھڑگے نے کہا کہ بل مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور آئینی اقدار کے خلاف کوئی حکومت قانون سازی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ صنفی مساوات کے ہم بھی حامی ہیں لیکن کسی بھی قانون میں طلاق دینے پر شوہر کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔تین طلاق بل پر بحث کے دوران کانگریس کی رکن سشمتا دیو نے کہا، ’’ہمیں بل پر اعتراض نہیں ہے بلکہ منہ میں رام بغل میں چھری سے اعتراض ہے۔ اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔ اسلام کی روایات میں دخل کا حق نہ عدالت کو ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو۔‘‘سشمتا دیو نے کہا کہ تین طلاق کے نام پر مسلم خواتین کو قانونی مقدمہ کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’شاہ بانو اور شاعرہ بانو کے مقدمات سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے۔ تاریخ میں اگر کسی قانون نے مسلم خواتین کو حقوق دئے تو وہ راجیو گاندھی کی حکومت نے 1986 میں دئے تھے۔‘‘ادھر آر ایس پی رکن پارلیمنٹ این کے پریم چندرن نے بل پر اپنا موقف رکھتے ہوئے بل کی کئی دفعات پر سوال کھڑے کئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بل کے مطابق تین طلاق دینے پر شوہر کے لئے جیل کا التزام ہے، اگر طلاق دینے پر شوہر جیل چلا جائے گا تو پھر متاثرہ خاتون کو معاوضہ کیسے ملے گا۔ کو دیگا پھر معاوضہ، جس کا بل میں التزام کیا گیا ہے۔‘‘بحث کے دوران سی پی آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ محمد سلیم نے اپنا موقف رکھا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی مسلم خوتین کے نام پر گھڑیالی آنسو بہا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو مسلم خواتین کو انصاف دلانے سے کوئی مطلب نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعہ وہ مسلم مردوں کو دوئم درجے کا شہری بنانے کی سازش کر رہی ہے۔رکن پارلیمنٹ محمد سلیم نے مزید کہا، ’’حکومت کا کہنا ہے کہ بل کو ترمیم کے بعد لوک سبھا میں پیش کیا گیا ہے لیکن اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ بل میں جو مجرامانہ التزامات موجود تھے انہیں نہیں ہٹایا گیا ہے۔‘‘ محمد سلیم نے کہا کہ بل میں بہت ساری کمیاں ہیں، لہذا اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔اے آئی اے ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ انور رضا نے کہا کہ بل مسلم پرسنل لا کے خلاف ہے اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ادھر ٹی ایم سی کے رکن سدیپ بندھوپادھیائے نے کہ، ’’ہم جنائیت کو فروغ دینے والے اس بل کے خلاف ہیں۔ جب شوہر جیل میں ہوگا تو معاوضہ کون دیگا، جیسا کہ بل میں التزام ہے۔‘‘حزب اختلاف کی جماعتوں نے تین طلاق کو غیر آئینی اور جرم بنانے والے بل کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے حکومت پر اسے جلدی میں پیش کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ بل کو مضبوط بنانے کے لئے اسے پرور کمیٹی کو سپرد کیا جائے چاہیے۔ مسلم خواتین (شادی  کے حقوق کا تحفظ) بل، 2018 پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ریواليوشنري سوشلسٹ پارٹی کے این پریم چندرن نے کہا کہ بل غیر آئینی طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ یہ بل پہلے لوک سبھا میں 2017 میں منظور کیا گیا تھا، لیکن راجیہ سبھا میں اس کو پاس نہیں کیا جا سکا تو حکومت آرڈیننس کے ذریعے اسے دوبارہ لوک سبھا میں لائی ہے جو غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس بل کو جلد بازی میں لائی ہے۔  اس کے لئے آرڈیننس لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔  پچھلی بار اس پر  تفصیلی بحث ہوئی ہے۔   ضابطہ 167 میں  بندوبست ہے کہ اگر کوئی بل ایک بار منظور ہو گیا ہے تو وہ ایوان میں واپس نہیں لایا جاتا ہے، لیکن اس حکومت نے غیر آئینی کام کر  کے اس بل کو دوبارہ ایوان میں پیش کیا ہے۔ اس کے باوجود، پہلے اس پر بحث کے دوران جو تجاویز دی گئی تھیں انہیں بل میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مسٹر پریم چندرن نے کہا کہ اس بل میں کئے گئے التزامات کے مطابق، شوہر تین سال تک جیل میں رہے گا۔  تو سوال یہ ہے کہ وہ بیوی کو گزارے کی رقم کس طرح  فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بل  جلد بازی میں تیار کیا گیا ہے،  اس لئے اس میں اس طرح کی بہت ساری خامیاں ہیں۔  بل کو  سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کیا جانا چاہئے ۔محترمہ سشمتا دیو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے  بل کی حمایت تو کی، مگر ساتھ ہی کہا کہ  اس کو لانے میں حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ "منہ میں رام ، بغل میں چھری"۔ یہ بل ہندو، پارسی اور عیسائیوں کے قانون کے مشابہ نہيں ہے۔ اس بل میں اب بھی بہت سی خامیاں ہیں، اس  لئے اسے مناسب سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی میناکشی لیکھی نے مودی حکومت کو خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پانچ سال کی مدت کار میں خواتین کو با اختیار بنانے اور ان کے مفادات کی حفاظت سے متعلق 50 اسکیمیں لائي ہيں۔ انہوں نے کہا کہ مرد حضرات خواتین کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے کھڑے نہيں ہوتے ہيں، خواتین کے حقوق کی لڑائی  نہيں لڑی جاسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام پارٹیوں کے لوگوں کو مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے لئے متحد ہونا  چاہئے اور اس بل کو منظور کرانا چاہئے تاکہ  انہيں انصاف مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ تین طلاق میں صرف مرد کو ہی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خواتین جب چاہے طلاق دے۔یہ عورتوں کو دبانے کی کوشش ہے جبکہ قرآن میں  خواتین کے احترام کو اہمیت دی گئی ہے لیکن کچھ لوگوں نے عورتوں کو  کچلے رکھنے کے لئے  قرانی نظام کے ڈھانچے  کو بگاڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فون پر پیغامات بھیج کر، فون کرکے یا دوسرے طریقے سے تین بار طلاق کہہ کر کسی  خاتون کی زندگی کو برباد کرنے کے رواج کو ختم کیا جانا چاہئے اور اس کے لئے یہ بل منظور کیا جانا ضروری  ہے۔اس سے پہلے ایوان میں بل کو بحث کے بعد منظور کرنے کے لیے پیش کرتے ہوئے وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ یہ بل مسلم خواتین کو احترام دینے، انہیں بااختیار بنانے اور برابری کا حق دینے کے لئے لایا گیا ہے۔  اس کی  دفعات کے تحت متاثرہ خاتون یا اس  کے رشتہ دار ایف آئی آر درج کر سکیں گے۔  متاثرہ خواتین کو پارلیمنٹ ہی  انصاف دے سکتی ہے اور اس کے لئے یہ بل لایا گیا ہے۔ اے آئی ڈی ایم کےکے انور رضا نے بھی بل کو ٹالنے یا  سلیکٹ کمیٹی کو سونپنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس بل میں تین سال کی سزا کے التزام کو  غیر معقول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے طلاق شدہ  مسلم خواتین کی حالت  مزید خراب ہو گی۔  انہوں نے کہا کہ اس بل کو یا تو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جائے یا  سلیکٹ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ترنمول کانگریس کے سدیپ بندوپادھیائے نے بل میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی فکر  مندی کو تو جائز قرار دیا، لیکن انہوں نے طلاق دینے والے مسلم شوہروں کے لئے  تجویز کی سزا  کو نامناسب اور  نا معقول قرار دیا۔اس دوران اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے بحث میں مداخلت کرتے ہوئے مسلم خواتین کی حالت زار کے لئے پرانی کانگریس حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔  انہوں نے کہا کہ 1986 میں شاہ بانو معاملے میں کانگریس نے جو 'لمحوں میں خطا کی، اس کی سزا صدیوں نے بھگتی ہے۔ مسٹر نقوی نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے کر کب کا  مسترد کر دیا ہے، لیکن  ہندوستان میں اب بھی شرعی قانون  کی شکل میں جاری ہے۔آج لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل کے خلاف مجلس اتحادالمسلمین کے قومی صدر حیدرآباد سے ایم پی بیرسٹر اسدالدین اویسی نے آئین ہند کا حوالہ دے کر اسے مذہبی آزادی میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ ہندوستان کی صد فیصد مسلم خواتین اس بل کی پرزور مخالفت کرتی ہے اور اسے ریجکٹ کرتی ہے۔ انہو ںنے کہاکہ آئین ہند کی دفعات ۱۴؍۱۵؍۲۶؍اور ۲۹کے تحت جو مذہبی آزادی کی گیارنٹی دی گئی ہے اس کے خلاف ہے اس لیے میں اس کی مخالفت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ایک مرد دوسرے مرد اور خاتون دوسرے خاتون کے سا تھ تعلق قائم کرسکتا ہے اس کے خلاف آپ نہیں ہیں لیکن طلاق کے خلاف ہیں کیو ںکہ وہ مسلم معاشرے سے جڑا ہوا ہے۔ انہو ںنے کہاکہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے ۔ ہمارے ملک میں طلاق کے قانون میں اگر کوئی ہندو طلاق دیتا ہے تو اسے ایک سال کی سزا کیوں ہے اسے ، اور مسلمان کو تین سال کی سزا کیوں کیا یہ آرٹیکل ۱۴ کا غلط استعمال نہیں ہے؟ انہوں نے اس موقع پر ایم جے اکبر اور مرکزی وزیر مختار عباس نقوی پر طنز کسا۔ انہوں نے کہاکہ طلاق کے تعلق سے حکومت کے ارادے نیک نہیں ہے۔ انہو ںنے کہاکہ ایک مرد کئی خواتین کے ساتھ تعلقات قائم کرسکتا ہے وہ گناہ نہیں ہے لیکن اگر کسی مسلمان نے تین طلاق کہہ دیا تو اسے تین سال کی سزا جبکہ سپریم کورٹ نے کہدیا ہے کہ اس سے شادی نہیں ٹوٹتی تو پھر آپ کس بات کی سزا دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ترپل طلاق کے ذریعے مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے اور انہیں جیل بھجوانا ہے۔ انہوں نے سائرہ بانو کے تعلق سے کہا کہ وہ تو بی جے پی میں چلی گئی آپ کی حکومت نے اس کےلیے کیا کیا؟ انہوں نے کہاکہ یہ جو قانون بنائے جارہے ہیں یہ راست طو رپر مسلمانوں کے خلاف ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے لوک سبھا میں حکمراں جماعت کی جانب سے طلاق ثلاثہ بل کے پاس کیے جانے کو بدترین ڈکٹیٹر شپ قرار دیا انہوں نے کہاکہ ’’مسلم کمیونٹی اور اپوزیشن پارٹی کی شدید مخالفت کے باوجود مرکزی حکومت کا طلاق ثلاثہ بل کو لوک سبھا میں پاس کرنا بدترین ڈکٹیٹر شپ ہے اور اس بات کی واضح نشانی بھی کہ یہ بل مسلم خواتین کی ہمدردی میں نہیں لایا گیا بلکی یہ ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے۔ جس کے ڈریعہ ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔