Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 8, 2018

کھجناور(ضلع سہارنپور کا ایک مقام) کی سیر


تحریر/ فضیل احمد ناصری ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*کھجناور* کاف کے پیش اور جیم کے سکون کے ساتھ ہے۔ یہ عظیم نسبتوں کا حامل ایک قصبہ ہے۔ دیوبند سے کم و بیش 60 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغرب کی طرف۔ اس کی سرحد پر ایک طرف رائے پور ہے اور دوسری طرف سکروڈہ۔ سکروڈہ اور رائے پور دونوں علاقے اولیاء اللہ کی سرزمین ہیں۔ کھجناور کا نام خاکسار نے بارہا سن رکھا تھا۔  یہاں کے مولانا مفتی ساجد اور اور مولانا فتح محمد ندوی صاحبان سے میری پرانی ملاقاتیں ہیں۔ مولانا ساجد صاحب اپنے جان دار علم اور طاقت ور  قلم کی بنا پر علمی و ادبی حلقوں میں اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ مولانا فتح ندوی صاحب بھی علم و ادب کا ستھرا مذاق رکھتے ہیں اور علما کی صحبتوں کے بڑے شوقین۔ اس قصبے کا نام اولاً انہیں کے ذریعے سماعت سے ٹکرایا۔ وہاں گھومنے کی خواہش یوں تو ایک عرصہ سے تھی، مگر کبھی جانے کا اتفاق ہنوز نہ ہو سکا تھا۔ ایک دن اچانک میرے پاس مولانا ساجد کھجناوری صاحب کا فون آیا کہ آپ کو میرے وطن تشریف لانا ہے، ہمارے ادارے میں ششماہی امتحان ہے، اس میں آپ کی شرکت چاہیے۔ تفصیل سے پتہ چلا کہ یہ سفر نامور خاکہ نگار رئیس القلم حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مدظلہ اور محترم مفتی انوار خان بستوی صاحب کی معیت میں ہوگا۔ ششماہی کی تعطیل تھی، وقت تازہ دمی کا خواستگار تھا، بے تکلف میں نے ہامی بھر لی۔نکلنے کے لیے صبح آٹھ بجے کا وقت تجویز ہوا، گاڑی کا انتظام مفتی انوار بستوی صاحب کے ذمے تھا۔

*کھجناور کو روانگی*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔. . 
صبح ہوئی تو مولانا بستوی کا فون آیا کہ گاڑی دیر سے کھڑی ہے، تشریف لے آئیں۔ میں جلد پہونچا۔ مفتی صاحب کے ساتھ گاڑی پر بیٹھا، رئیس القلم شاہ صاحب دام ظلہ خانقاہ پولیس چوکی کے پاس ہمارے منتظر تھے۔ وہاں سے وہ بھی ہمارے ساتھ ہو لیے، پھر تینوں آدمی جانبِ منزل رواں دواں۔

صبح کا سہانا وقت تھا۔ فضا قدرے کہر آلود۔ ہم بھی سکڑے اور بل کھائے ہوئے۔ موسمِ سرما سے ہر چیز افسردہ و پژمردہ ۔ آفتابِ عالم تاب کی توانائی بھی اپنے وجود کی جنگ لڑتی ہوئی۔ گاڑی دوڑتی رہی اور کم و بیش 50 منٹ کے بعد کھجناور پہونچ گئی۔

*مدرسہ دارالقرآن دیدار شاہؒ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہونچے تو مولانا ساجد کھجناوری صاحب اور دیگر علمائے کرام خیرمقدم کے لیے موجود تھے۔ تھوڑی دیر تعارف کا سلسلہ چلا، بتایا گیا کہ یہ جناب مولانا ابرار ندوی صاحب ہیں۔ یہی اس ادارے کے بانی اور مہتمم ہیں۔ آپ کے اصل داعی بھی یہی ہیں۔ ماشاءاللہ جوان اور صالح نظر آئے۔ بزرگوں کی ادائیں اپنی ہستی میں سموئے ہوئے۔ حقِ ضیافت میں مستعد۔ ادھر مدرسہ دیکھا تو دل خوش ہو گیا۔ دراصل میرے ذہن میں اس کی شکل ایک مکتب اور چھوٹے ادارے کی تھی۔ ماشاءاللہ یہ تو ایک بڑا ادارہ تھا۔ عمارت بڑی اور طلبۂ علومِ دینیہ سے آباد۔ یہ 2006 میں قائم ہوا ہے، سرِدست یہاں درجۂ حفظ اور درجۂ ناظرہ قائم ہے۔ مقامی اور بیرونی طلبہ کی کل تعداد 300 سے زیادہ ہے۔ اس کے حسنِ کارکردگی کا ہر کوئی مداح۔ گاؤں کے لوگ اس پر پروانہ وار گرتے ہیں۔

اس کا محلِ وقوع بھی بڑا دل فریب ہے۔ مدرسے کے جوار میں ایک بڑا تالاب ہے۔ میں نے نظر ڈالی تو آب تھا، نہ سراب۔ مغربی جہت میں وسیع و عریض مسجد ہے اور جانبِ مشرق مدرسے کی عمارت۔ مسجد کے بائیں طرف بڑا سا مطبخ اور احاطے کے ٹھیک قلب میں چند قبریں اور ایک بڑا روضہ۔ یہ روضہ شیخ دیدار علی شاہؒ کا ہے۔ یہ قطب الاقطاب حضرت مولانا عبدالقدوس گنگوہیؒ کے متوسلین میں سے تھے اور بڑے صاحبِ نسبت بزرگ۔ روضے کے باہر جو چند قبریں ہیں ان میں حضرت مولانا سید عبدالعزیز کھجناوریؒ کے والا تبار صاحبزادے حضرت مولانا سید یحییٰ صاحبؒ کی قبرِ مبارک بھی ہے۔ روضے کی وجہ سے کسی دور میں یہ پورا علاقہ بدعت زدہ تھا، عرس و قوالی تام جھام سے ہوتی تھی، بدعات و خرافات کا دور دورہ تھا، جب سے مدرسہ دارالقرآن قائم ہوا ہے بدعات کی جڑ کھود دی گئی ہے، خرافات کو دیس نکالا کیا جا چکا ہے۔ رسوماتِ کہنہ کی باقیات اگرچہ اب بھی ہیں، عرس ہنوز ہر سال منایا جاتا ہے، مگر پچھلی سی آگ روشن نہیں رہی۔ دیوبندیت روز افزوں غالب ہے، بلکہ اب تو تسلط بھی اسی کا ہے۔

خیر خیریت اور تعارف کے بعد مختصر ناشتہ کیا اور امتحان کے لیے مسجد پہونچ گیا۔ میرے لیے جو نشست تجویز ہوئی وہ روضۂ دیدار شاہؒ کے بالکل مواجہہ میں تھی۔امتحان صبح دس بجے شروع ہوا اور ایک بجے تک مسلسل جاری رہا۔ سارے طلبہ درجۂ حفظ کے تھے۔ طلبہ کی تیاریاں لاجواب تھیں۔ ان کی کارکردگی دیکھ کر دل سے دعا نکلی، اس کے بعد ظہرانہ ہوا اور مدرسے سے اجازت مل گئی۔

*مولانا فتح محمد ندوی صاحب کی پرلطف چائے پر حاضری*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا فتح محمد صاحب ساتھ ہی تھے۔ یہ دارالعلوم اور ندوہ دونوں گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ہیں۔ فراغت ندوے سے ہی ہے۔ ان کی خواہش کے مطابق چائے نوشی کے لیے ان کے دولت کدے پر حاضری ہوئی۔ مدرسے سے بالکل متصل جانبِ مغرب۔ درمیان میں راستہ ہی حدِ فاصل تھا۔ بڑا سا اور خوب صورت گھر۔ گھر نہ کہیے، بلکہ حویلی۔ سلیقے سے تعمیر شدہ۔ نوابی طرزِ تعمیر۔ چائے کی چسکیوں کا دور پندرہ منٹ سے آگے نہ بڑھا اور ہم اگلی منزل کے لیے آگے بڑھ گئے۔

*حضرت شیخ الہندؒ کی یادگار کا دیدار*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی آگے بڑھی، بمشکل دو منٹ چلی ہوگی کہ ایک بڑا تالاب سامنے نظر آیا۔ پانی برائے نام بھی نہ تھا، ہاں 10،11 میٹر اونچے منڈیروں والا ایک کنواں دکھائی دیا۔ مولانا ساجد کھجناوری نے بتایا کہ اس جگہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے اپنے شاگرد حضرت مولانا سید عبدالعزیز کھجناوریؒ کی خواہش پر *عزیزالقرآن* کے نام سے ایک ادارے کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ یہ ادارہ برسوں اپنی خدمات پیش کرتا رہا، کنواں اس ادارے کے احاطے میں واقع تھا۔ علاقے کی بنجر زمینوں کی سیرابی کے لیے تالاب کھودا گیا تو پورا مدرسہ ہی تالاب کی زد میں آگیا۔اب ادارے کا نام و نشان ندارد ہے، تاہم وہ کنواں آج بھی قائم ہے اور حضرت شیخ الہند کی یاد اپنی دیواروں میں سموئے ہوا۔

*شاہ عبدالعزیز کھجناوریؒ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا شاہ عبدالعزیز کھجناوریؒ کا ذکر چل ہی پڑا ہے تو مختصراً عرض ہے کہ یہ اس علاقے کی عظیم شخصیت تھی۔ عظیم نسبتوں کی حامل۔ اتنی نسبتیں ایک ساتھ کم ہی جمع ہوتی ہیں۔ باکمال عالم، صاحبِ باطن داعی، خدمتِ اسلام میں سدا کوشاں۔ یہ دارالعلوم کے فاضل تھے، شیخ الہندؒ کے تلمیذِ خاص۔ بانئ دارالعلوم حضرت الحاج سید عابد حسین دیوبندیؒ کے خلیفہ اور بانئ مسلکِ دیوبندیت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے مجازِ صحبت ۔ مدرسہ عزیز القرآن کے بانی بھی تھے اور مہتمم بھی۔ یہ ادارہ ایک زمانے میں خاصی شہرت رکھتا تھا۔ تالاب میں واقع ہونے کی وجہ سے آبادی کے وسط میں منتقل ہوا تو اس کے دو ٹکڑے ہو گئے، ایک ٹکڑے کا نام حفظ القرآن ہو گیا اور دوسرا ٹکڑا اپنے سابق نام سے ہنوز جاری ہے۔ بانئ مرحوم کے پوتے اسے چلا رہے ہیں۔

*مولانا ساجد صاحب کے گھر*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں سے نکلے تو اگلی منزل مولانا ساجد صاحب کی رہائش گاہ تھی۔ مولانا کھجناوری دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کے استاذ ہیں۔ دیگر متعدد کتب کے ساتھ مختصر المعانی اور مشکوۃ شریف کے دروس بھی ان سے متعلق ہیں۔ لکھنے پڑھنے کا خوب صورت ذوق رکھتے ہیں۔ خوب نگار اور بسیار نویس ہیں۔ اپنے ادارے کے ترجمان: ماہنامہ *صدائے حق* کے مدیر بھی ہیں۔ سادگی، سنجیدگی اور علم و حلم کا حسین سنگم ہیں۔ کئی عدد کتب کے مصنف و مرتب بھی ہیں۔ اپنی خامہ برداری کے باعث اربابِ علم کی نگاہوں کا تارہ ہیں۔

ظہر کا وقت ہو چکا تھا۔ جماعت تیار تھی۔ نماز پڑھ کر مولانا کھجناوری صاحب کے گھر حاضری ہوئی ۔ مولانا کا گھر بھی کشادہ اور علاقائی روایات کا حامل تھا۔ چائے ہوئی اور پھر واپسی کے لیے پا بہ رکاب۔

*کھجناور کی مختصر تاریخ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری عادت ہے کہ جہاں جاتا ہوں وہاں کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اپنے اسی شوق کے پیشِ نظر مولانا ساجد صاحب سے جہاں اور باتیں کیں وہیں اس کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالنے کی فرمائش بھی رہی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ گاؤں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ہندوستان آنے سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ گاؤں کی کل آبادی 10000 ہے اور ساری کی ساری مسلمانوں پر مشتمل ۔خاص بات یہ کہ یہاں مغربی تہذیب کا منحوس سایہ آج تک نہیں پڑا۔ خواتین آج بھی پردہ نشیں ہیں۔ میں کافی دیر تک گلگشت کرتا رہا، مگر مستورات کی آمد و رفت دکھائی نہیں دی۔ یہ اس کی مشرقی تہذیب اور اسلامی عصبیت کو بتاتا ہے۔اسکولوں اور کالجوں کا یہاں کوئی تصور نہیں۔ اتنی قدیم بستی ہے، مگر ترقی کے آثار کا دور دور تک اتہ پتہ نہیں۔گاؤں کے لوگ ہی فرنگی ترقیات سے آبی ہیں۔ جگہ جگہ دینی ادارے نظر آئے، لیکن مغربی تہذیب کا نشان یکسر عنقا۔ یہ پورا گاؤں راجپوتوں کے شرفا کا ہے۔ دو چار گھرانے سادات کے بھی ہیں۔ 25، 30 علمائے کرام کی کھیپ بھی میسر۔ ان میں مظاہری بھی ہیں اور قاسمی بھی، رشیدی بھی ہیں اور ندوی بھی۔ یہ گاؤں مشائخِ ہند میں ایک نمایاں ترین شخصیت مولانا یعقوب مجددی بھوپالی رحمۃ اللہ علیہ کی سسرال بھی ہے۔ شاہ عبدالعزیز کھجناوریؒ کی ایک صاحب زادی کی شادی شیخ سے ہوئی تھی۔ یعنی شیخ مجددی بھوپالیؒ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیزؒ کے داماد تھے۔ شیخ یعقوب مجددیؒ کے حالات مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے قلم سے آ چکے ہیں۔ یہ قصبہ ہر اسلاف پسند کا دامنِ دل کھینچتا ہے۔

کھجناور کی سادہ اور مشرقی فضا اور اس پر مولانا ساجد صاحب کی والہانہ ضیافت، جلد واپسی کا خیال ہی دل سے نکل گیا، جی چاہتا تھا کہ قیام کا سلسلہ اور دراز کر دیا جائے، مگر کب تک؟ وقت کافی ہو چکا تھا اور ہم حسین یادیں لیے گاڑی میں بیٹھ گئے۔

صدائے وقت بشکریہ مولانا سراج ہاشمی سلطانپور۔