Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 2, 2018

سید سلمان ندوی کی تحریر " ازالہ" پر تبصرہ۔

تحریر/رشید ودود (صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .. . . . 
ازالہ لکھتے ہوئے سید سلمان ندوی صاحب نے مفتی عتیق بستوی کی خبر لینے سے پہلے سرکاری مولویوں کی خبر لی ہے اور انہیں باقاعدہ امتحان ہال میں بٹھا کر ان کے ہاتھ میں سوالنامہ تھما دیا ہے، یہ سوالنامہ دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ سلمان صاحب کا کینوس خاصا وسیع ہے، عالمی امور پر ان کی نظر بہت گہری ہے، اس قدر گہری کہ وہ اس کی گہرائی میں ڈوب کر رہ گئے ہیں۔
ہمارا کہنا ہے کہ سلمان صاحب سعودیہ کو بھاڑ میں جھونکیں، ہماری بلا سے، ہمیں سعودیہ سے کیا لینا دینا، ہم تو فقیر لوگ ہیں، کشکول اٹھا کر کہیں اور چل دیں گے، کٹولی نہ سہی اور کہیں، تو نہیں اور سہی، اور سہی اور سہی!
اب ایک شعر سنیں!
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پر بات کرنی ہے
سلمان صاحب کو غم ہے کہ ظالم سعودیہ نے اخوان پر پابندی لگا دی ہے، اس پابندی پر سلمان صاحب کا تلملانا فطری ہے، برسوں پہلے نانا جان نے جماعت اسلامی چھوڑ کر جو غلطی کی تھی، نواسہ شاید اسی کاازالہ کر رہا ہے، سلمان صاحب سرکاری مولویوں سے جواب بعد میں لیں، پہلے رشید ودود ہندی کے سوال کا جواب دے دیں۔
وطنِ عزیز میں جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (ایس آئی ایم آئی/سیمی) ہوا کرتی تھی، 2001 میں اس تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا گیا، سلمان صاحب نے اس پابندی کے خلاف کبھی آواز اٹھائی؟ اس کے ہزاروں کارکنان اب بھی قید و بند کی صعوبتوں کو جھیل رہے ہیں، سلمان کی آنکھ ان قیدیوں کے لیے کبھی نمناک ہوئی؟ اس تنظیم کے سربراہ شاہد بدر فلاحی صاحب کو کبھی انہوں نے پرسہ دیا؟ سلمان صاحب کا درد مند دل جو سلمان عودہ کے لیے تڑپتا ہے، کیا وہ شاہد بدر کے لیے بھی کبھی تڑپا؟
چلیے ،کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت سعودیہ سلمان صاحب کی نظر میں ظالم نہیں تھا؛ اس لیے سلمان صاحب کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، آیئے 2013 سے جائزہ لیتے ہیں، 2012 تک سلمان صاحب کی نظر میں سعودیہ دودھ کا دھلا تھا؛ لیکن 13 کے اوائل میں سلمان صاحب کو سعودیہ میں کیڑے نظر آنا شروع ہوگئے تھے، نقطۂ نظر کی یہ تبدیلی کیوں ہوئی؟ یہ فیضانِ نظر تھا یامکتب کی کرامت تھی؟ اس راز کو کوئی ندوی ہی فاش کرے تو زیادہ بہتر ہے، ہم تو فقیر آدمی ہیں، ہم نے تو سلمان صاحب کی طرح سعودیہ میں پڑھا بھی نہیں، ہم نے تو سعودیہ سے چندہ لا کر کٹولی میں کوئی مدرسہ بھی نہیں بنایا؛ اس لیے ہم پردہ کشائی سے قاصر ہیں۔
2012 سے 17 تک یوپی میں اکھلیش سنگھ وزیر اعلیٰ تھے، اس سے پہلے سلمان صاحب بہن جی کو راکھی باندھ رہے تھے؛ لیکن 12 میں جب اکھلیش کی آمد ہوئی، تو سلمان صاحب نے امامِ حرم کو لکھنؤ میں بلایا، کیوں بلایا؟ اس سوال کا جواب حفیظ نعمانی نے دے دیا تھا، آپ انہی سے پوچھ لیں، ہم کچھ عرض کریں گے ،تو مولانا کی شان میں گستاخی ہو جائے گی، بہرکیف اکھلیش حکومت کے ماتھے پر مظفر نگر فساد کا داغ لگا، کوئی یاد کر کے بتائے کہ مولانا نے کبھی اس فساد کے ذمے داروں پر انگشت نمائی کر کے حق گوئی کا فریضہ انجام دیا ہو؟ یہ مشکل سوال ہے، چلیے آسان سوال پوچھ لیتا ہوں، کیا مولانا نے مظفر نگر فساد کے متاثرین کی اشک سوئی کبھی کی؟
2014 میں دہلی کے تخت پر ایک فاشسٹ راجہ بیٹھا، اس کے راج میں ماب لنچنگ کو متعارف کرایا گیا، سپریم کورٹ نے ماب لنچنگ پر اپنی تشویش ظاہر کی، سلمان صاحب نے بھی ایسی کوئی تشویش ظاہر کی؟ دیوبند اور دہلی میں اس کے خلاف احتجاج ہوا، کیا اس احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے کے لیے مولانا سلمان اپنے ڈرائنگ روم سے نکلے؟ کیا مولانا کو ماب لنچنگ کے متاثرین کے نام یاد ہیں؟
سلمان صاحب کو سلمان عودہ، عوض القرنی اور سفر الحوالی کی گرفتاری کا بڑا غم ہے، ہم بھی اس غم میں ان کے برابر کے شریک ہیں؛ لیکن کیا سید سلمان کو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی بھی کوئی فکر ہے، بیچارہ نائک گرفتاری سے بچنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، کیا سلمان صاحب نے اس مظلوم داعی کے لیے بھی کبھی کوئی فکر ظاہر کی؟
سعودی صحافی جمال خاشقجی خوش قسمت ہے کہ سلمان صاحب کی آنکھ اس کے غم میں نم ہے؛ لیکن شجاعت بخاری بیچارہ بدقسمت ہے، بخاری قتل ہو گیا؛ لیکن سلمان صاحب کو شاید اس حادثے کی خبر بھی نہ ہو، شجاعت بخاری کشمیری ہے؛اس لیے سلمان صاحب نے اسے در خورِ اعتنا نہیں سمجھا، سعودی ہوتا، تو اب تک آسمان سر پر اٹھا لیتے۔
سلمان صاحب کٹولی مدرسہ کے مہتمم ہیں، ہزاروں طلبا کے سرپرست ہیں، سلمان صاحب کی ناک کے نیچے دہلی میں ایک طالب علم محمد عظیم قتل کر دیا گیا؛ لیکن کٹولی مدرسے کے اس مہتمم کو توفیق نہ مل سکی کہ وہ اس ظلمِ عظیم کے خلاف آواز اٹھائے:
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے
اور بھی غم ہیں زمانے میں خاشقجی کے سوا، صدام حسین کا عدالتی قتل ہوا، معمر قذافی کو بھیڑ نے قتل کیا، معمر بیچارہ تو اتنا بدقسمت تھا کہ سلمان صاحب کے ممدوح مولانا نے اس کے قتل پر فتوی دیا تھا، سلمان صاحب کی نظر میں یہ قتل شاید جائز ہے؛ اس لیے کبھی انہوں نے آواز نہیں اٹھائی، لیبیا کے حملہ آوروں میں ناٹو اتحاد میں دودھ کا دھلا قطر بھی شامل تھا؛ اس لیے یہ حملہ بھی سلمان صاحب کی نظر میں شاید صحیح ہو، علی عبداللہ صالح کو حوثیوں نے قتل کر دیا؛ لیکن اس ہائی پروفائل قتل پر بھی سلمان صاحب کے لبوں میں کوئی جنبش نہ ہوئی، مولانا تو صرف قرضاوی صاحب ہیں، فتح اللہ گولن جیسا دڑھ منڈا کہاں مولوی ہے؛ اس لیے سلمان صاحب نے اس کے حق میں کبھی آواز نہیں اٹھائی:
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو ،شفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو گریباں کا پتہ کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں فیضؔ کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے؟