Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 1, 2018

نئے نوٹ۔(حمزہ فضل اصلاحی۔)۔

تحریر / حمزہ فضل اصلاحی۔(صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
   ایک صاحب رکشا سے اترے ، پرس نکالا ، اس میں سے ۱۰؍ روپے نکالے اور ڈرائیور کے ہاتھ پہ رکھ کر آگے بڑھ گئے مگرمیں گہری سوچ میں ڈوب گیا ، نوٹ بندی کا زمانہ مجھ سے باتیں کر نے لگا ۔ دراصل ڈرائیور بہت غور سے پر س کی طرف دیکھ رہاتھا ، میں بھی دیکھنے لگا ۔ ڈرائیور کو آگے بڑھنے کی جلدی تھی۔  وہ کرایہ لے کر دوسرے مسافر کو اس کی منزل تک پہنچانا چاہتا تھا۔ ویسے بھی اس طرح جب کوئی مسافررکشا سے اترنے کے بعد کرایہ نکالنے میں دیر کرتا ہے تو پیچھے بیٹھے مسافروں کوکو فت ہونے لگتی ہے ۔ کسی کسی سے رہا نہیں جا تا ، وہ ڈرائیور ہی کو چار بات سنا دیتا ہے۔ خیر میں بھی پر س دیکھ رہا تھا ۔ میں نے نوٹ وہاں دیکھےجہاں لو گ باگ فوری ضرورت کیلئے اپنا  پاسپورٹ سائز فوٹو رکھتے ہیں ۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ کل تک عاشق پرس کے اس حصے میں اپنی محبوبہ کا پاسپورٹ سائز فوٹو رکھتے تھے یا اس کی کوئی نشانی رکھتے تھے ۔ فرصت ملنے پر اسے دیکھتے تھے ۔ اس تصویر سے باتیں کرتے تھے۔  یہ اس زمانے کی بات نہیں ہے جب عاشق اپنی معشوقہ کی ایک جھلک پاکر مہینوں خوش رہتا تھا، اس  کے پا ؤں زمین میں نہیں پڑتے تھے ، وہ اتراتا  پھر تا تھا ۔ اس کی چوڑیوں کے ٹکڑے سنبھال کر رکھتا تھا۔ فرصت کے وقت  چوڑیوں کے ٹکڑے سامنے رکھتا تو محبوبہ کا سراپا اس کی نگاہوں کی سامنے آجاتا۔ اس کو ایک ایک کر کے سب یا د آنے لگتا ، دل مچلنے لگتا۔  چوڑی کا ایک ننھا سا ٹکڑا خیالوں کی وادیوں میں لے کر چلا جا تا ۔ خیالوں کا دریا بہنے لگتا۔ دیکھئے میں بھی جذبات کی رو میں بہنے لگا ۔ چھوڑیئے ..عشق وشق پر س کی بات  کیجئے ..اگلے وقتوں کی کتنی باتیں ہوگئیں ؟ میں  یہ کہہ رہا تھا کہ اب پر س کے اس حصے میں سکے بھی رکھے جاتے ہیں جن سے بس والے ، رکشا والے یاٹکٹ کاؤنٹر پر بیٹھے ملازم کامنہ بند کیا جا تا ہے۔  اس شخص کے  پرس کے اس حصے میں  سو کا نیا نوٹ بہت سلیقے سے رکھا ہوا تھا ۔ آپ نے دیکھا ہوگاکہ۱۰۰؍ کا یہ نیا نوٹ بیگن کے رنگ کا ہے ، اسے عام بول چال میں بیگنی رنگ بھی کہتے ہیں۔ نوٹ بہت اہتمام سے سجایا تھا ، ایسا لگتا تھا کہ خر چ کرنے کا ارادہ نہیں ہے ، یہ سجاوٹ کیلئے ہے ۔ پرس کی زینت کیلئے ہے ۔ نوٹ کا تارا بنایا گیا تھا۔ کچھ لوگ اس نوٹ پریم کو پسند نہیں کرتے لیکن نو ٹ بندی کے زمانے میں کونے کھدرے میں رکھے یہی ’نو ٹ ‘نوٹ پریمیوں کا سہارا بنے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہےجب لوگ چلر اورچھوٹے نوٹوں کی دل وجان سے عزت کرتے تھے ۔ انہیں قدر کی نگا ہ سے دیکھتے تھے۔ اس برے وقت میں کچھ نوٹ پریمیوں نے تو ان نوٹوں سے اپنا گھر چلایا۔   پرانے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ایمر جنسی کا زمانہ دیکھا ہے ، اس وقت یہ ہو ا تھا ، وہ ہوا تھا ، ایسا ہوا تھا ، ویسا ہوا تھا۔ ایسا زمانہ بھی آئے گا جب یہ نسل اپنے بیٹوں پوتوں سے کہے گی کہ ہم نے نوٹ بندی کا زمانہ دیکھا ہے۔ اس زمانے کے قصے بہت ہیں۔ تلخ اور شیریں یا دیں ہیں۔
  اس مسافرکے نوٹ پریم نے سکہ پریمیوں کی بھی یاد دلا ئی ۔ نوٹ بندی ہی کے زمانے میں بچوں کے بینک کے چلر بھی کام آئے ۔ اسی زمانے میں بہتوں نے کچھ نادر ونایا ب سکے بھی دل مسوس کر خر چ کر دیئے ۔
یہ تو نئے نوٹ کا قصہ ہے ۔ بہت سے لوگ کڑے نوٹ بھی سنبھال کر رکھتے ہیں۔ کچھ جمع بھی کرتے ہیں ۔ بچپن میں ہماری یہی خواہش ہوتی تھی کہ عیدی میں کڑے نوٹ ہی ملیں۔ یہ نوٹ خرچ کرتے وقت تکلیف بھی ہوتی تھی، بڑے ہونے پربھی خراب نوٹوں کے بعد ہی کڑے نوٹوں کا نمبر آتا ہے۔ہماری اکثریت یہی کرتی ہے ، سب سے پہلے خراب نوٹ خر چ کرتی  ہے ، پھر نئے نوٹ.... ۔
بشکریہ۔
۔حمزہ فضل اصلاحی۔