از سیدہ ام مناہل۔(ماخوذ)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اگرچہ سینکڑوں ہی نہیں بلکہ ہزاروں مذہبی اور سیاسی مخلصانہ اور خود غرضانہ فتنے اس دھرتی پر ایسے برپا ہو چکے ہیں جن کا تصور کرتے ہوئے بھی جسم کانپ جاتا ہے، قلم میں لغزش پیدا ہو جاتی ہے، بدن پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور زبان کو طاقتِ گفتار نہیں رہتی جن فتن میں کئی ایک بندگانِ حرص و ہویٰ اجماع اُمت کے جادۂ مستقیم کو چھوڑ کر ضالۃ الغنم بن بھی چکے ہیں مگر بحمد اللہ تعالیٰ مجموعی حیثیت سے اس اُمت مرحومہ کا کبھی بھی ضلالت و گمراہی پر اجتماع نہیں ہوا اور نہ بفضل اللہ تا قیامت ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت و نصرت ہمیشہ اس جماعت پر رہا ہے اور بمنہٖ قیامت تک رہے گا۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ (المتوفٰی 48ھ) کی روایت یوں آتی ہے کہ.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ :
لا یجمع اللہ امتی علی ضلالۃ ابدًا وید اللہ علی الجماعۃ۔
(مستدرک ج 1ص 114)
اللہ تعالیٰ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر رہے گا۔
اسی مضمون کی روایت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ (المتوفٰی 73ھ) سے بھی آتی ہے ۔ (ترمذی ج 2 ص 29 و مشکوٰۃ ج 1 ص31 اور مستدرک ج 1ص 115) اور حضرت انس بن مالکؓ (المتوفٰی 93ھ سے بھی مروی ہے۔) (مستدرک ج 1ص 117)
غرضیکہ متعدد روایات اس پر پوری طرح روشنی ڈالتی ہیں کہ مجموعی لحاظ سے من حیث القوم یہ اُمت کبھی ضلالت پر جمع نہ ہو گی اور چودہ سو سال سے ربِ قدیر کے فضل و کرم سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ اُمتِ مرحومہ حق پر ڈٹی رہی ہے۔
بلا شک و شبہ مذہب اسلام نے جماعتی زندگی پر بڑا زور دیا ہے اور جماعتی زندگی کے ترک کو اسلامی زندگی کے ترک سے تعبیر کیا ہے جس کا نتیجہ سوائے خسران اور عذابِ جہنم کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ (معاذ اللہ) اور حدیث من شذ شذ فی النار (ترمذی ج 2 ص 39 و مشکوٰۃ ج 1ص 30) کا یہی مطلب ہے اور دوسری حدیث میں واشگاف الفاظ میں رسولِ برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
فانہ لیس احد یفارق الجماعۃ شبرًا فیموت الامات میتۃً جاھلیۃ۔
( متفق علیہ مشکوٰۃ ج 2 ص 319)
جو شخص بھی جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوا اور اسی حالت میں اس کی وفات ہو گئی تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی زندگی اسلامی زندگی کے سراسر مخالف ہے کیونکہ اسلامی زندگی کی روح ہی یہ ہے کہ مومن کی حیات و موت، اس کی عبادت اور نیک عمل صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا جوئی کیلئے ہو اور بس۔ اس کا جو قدم بھی اٹھتا ہو اپنے رب ذو المنن کے شوقِ دیدار کے لئے اُٹھے اور اس کے لبوں سے جب بھی کوئی بات نکلے تو صرف حق تعالیٰ کی فرمانبرداری کیلئے اور کیوں نہ ہو اس کو تو سبق ہی یہ ملا ہے:
📕قُلْ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اسلام کی نگاہ میں جماعتی زندگی کا معنٰی اور مطلب کیا ہے اور اسلام جماعتی زندگی کس زندگی کو کہتا ہے؟ اسلامی تعلیم کی رُو سے جماعتی زندگی یہ نہیں کہ باہم مل کر تفریح طبع کیلئے کوئی کلب بنا لیا جائے اور فرصت کے اوقات میں وہاں جمع ہو کر خوش گپیاں ہانکی جائیں اور دل کی امنگیں نکال لی جائیں یا اتفاق کر کے کوئی اکھاڑا اور ورزش گاہ تجویز کر لی جائے جہاں صبح و شام اکٹھے ہو کر ورزش کی جائے یا کشتی لڑی جائے یا اصلاحی نام پر کوئی ادارہ یا انجمن بنا لی جائے اور صلاح و مشورہ سے اپنے مزعومہ اور مفروضہ دنیوی اغراض و مقاصد کو بروئے کار لایا جائے یا کوئی کمیٹی ترتیب دی جائے جس کے ذریعے ووٹوں کی دنیا میں اپنے مقصدِ پنہاں کو عملی جامہ پہنایا جائے یا قرآن و سنت اور فقہ اسلامی سے مستغنی ہو کر اپنے خود تراشیدہ اور خانہ ساز اصول کے تحت کوئی سوسائٹی وضع اور اختراع کر لی جائے جس میں ملی اور قومی، سیاسی اور اقتصادی، معاشی اور معاشرتی مفاد کو انجام دینے کی سعی اور کوشش کی جائے یا اسی قسم کی کوئی اور اجتماعی صورت اختیار کر لی جائے جس میں زندگی کے لائحہ عمل پر غور و خوض کیا جائے۔ اگرچہ ان تمام صورتوں میں نظر بہ ظاہر اجتماعی شکل تو موجود ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے یہ اُس اجتماعی زندگی کا مصداق ہرگز نہیں جو اسلام کا مقصود و مطلوب ہے بلکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی یک جہتی و اجتماع، اس کا اتفاق و اتحاد اور اس کا نظم و ضبط محض خدا تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کی خوشنودی کیلئے ہو اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی پیروی کیلئے ہو، قرآن و حدیث کی سربلندی کیلئے ہو، خلافتِ راشدہ کے قیام اور اس کی بقا کیلئے ہو، سلف صالحین کے بہترین طرزِ زندگی کے احیاء کے لئے ہو اور ملت کے ایک ایک فرد کی کوشش و کاوش، سعی و عمل، تپش و خلش اور سوز و گداز جو ان کے قلب عشق آمیز کی گہرائیوں سے اُبھر کر لبِ آتش نوا تک پہنچا ہو اور جس کی بدولت جذب و اثر کی دنیا رقص کرتی دکھائی دے، صرف اور صرف اطاعتِ خدا اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہو۔ کتاب و سنت کیلئے ہو۔ اسلام کی رفعت اور کامیابی کیلئے ہو۔ جس وقت اور جس قدر یہ آرزو بلند اور پاکیزہ تھی اس وقت یہ امت مسلمہ اور اس کا ایک ایک فرد بہمہ تن رضائے خداوندی، پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تبلیغ اسلام میں منہمک تھا۔ مگر ان کی تبلیغ و سعی محض زبان کی شیرینی اور قلم کی روشنائی ہی کی مرہون منت نہ تھی بلکہ اس میں خونِ جگر کی سرخی اور دل کی سوزش بھی شامل تھی۔ وہ باوجود اختلافِ استعداد کے اسلام کے صاف و شفاف چشمہ سے مستفید ہو کر سب عالم کو منور کرنے کے درپے تھے۔ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی، ایک بے قرار روح تھی جو سب میں تڑپ رہی تھی، سیماب کی طرح نہ ٹھہرنے والا دل تھا جس نے سب کو بے قرر کر دیا تھا۔ وہ بے سر و سامان تھے مگر منظم حکومتیں اُن سے لرزتی تھیں، تاج و تخت کے مالک اُن سے تھرّاتے تھے۔ وہ تھوڑے تھے مگر غالب و منصور تھے۔ وہ پیدل تھے مگر برق رفتار تھے۔ بعض دفعہ اکیلے ہوتے مگر ہزاروں پر بھاری رہتے تھے۔ نور توحید کا جذبہ، مخلوق خدا کی ہدایت و اصلاح کا ولولہ اور کائنات کی راہنمائی کی فکر ہر ایک قلب میں پیوستہ تھی، جس کے سبب خدا تعالیٰ کے نام کی سربلندی، اطاعتِ رسول کا جذبہ، مخلوقِ خدا کی صحیح ہمدردی اور ہر کام میں خدا تعالیٰ کی رضا طلبی کا جوش ان میں کام کر رہا تھا۔
وہ جو کچھ بھی تھے، جہاں بھی تھے اور جو کچھ بھی کیا کرتے تھے، ان کے ہر کام سے مقصود اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور دنیا کی درستی تھی اور بس۔ ان کی دوستی اور مودت بھی محض خدا تعالیٰ کیلئے ہوتی تھی اور ان کی عداوت و دشمنی بھی صرف خُدا کیلئے ہوتی تھی۔ وہ اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالبُغْضُ فِی اللّٰہِ کا مجسم پیکر تھے ، ان کی یہ صفت تھی کہ:
رہ حق میں تھی دوڑ اور بھاگ ان کی
فقط حق پہ تھی جس سے تھی لاگ انکی
بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی
شریعت کے قبضہ میں تھی باگ انکی
جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کر دیا گرم گرما گئے وہ
کفایت جہاں چاہئیے واں کفایت
سخاوت جہاں چاہئیے واں سخاوت
جچی اور تلی دشمنی اور محبت
نہ بے وجہ الفت نہ بے وجہ نفرت
جُھکا حق سے جو جھک گئے اس سے وہ بھی
رکا حق سے جو رُک گئے اس سے وہ بھی
اسلام میں جس اتفاق و اتحاد اور جماعتی زندگی کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
📕وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔
#پارہ4آل_عمران_آیت_نمبر103
#ترجمہ اور تم اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی اس مضبوط اور متین رسی کو جو قرآن مجید اور دین قیم کے نام سے موسوم ہے، پوری قوت اور طاقت کے ساتھ پکڑو۔ یہ عروہ وثقٰی اور محکم رسی ٹوٹ تو سکتی نہیں لَا انفِصَامَ لَھَا ہاں حرماں نصیبوں کے ہاتھوں سے چھوٹ سکتی ہے۔ اگر مسلمان سب مل کر اجتماعی قوت اور امکانی طاقت سے اس کو پکڑ لیں گے تو کبھی کسی باطل اور طاغونی طاقت سے بفضلہ تعالیٰ ان کو کوئی گزند اور تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ کوئی شیطان صفت اپنی شیطنت اور شر انگیزی میں کبھی کامیاب ہو سکے گا اور انفرادی زندگی صالح ہونے کے علاوہ اُمت مسلمہ کی اجتماعی قوت بھی بڑی مضبوط اور ناقابلِ اختلال ہو جائے گی اور قرآن و سنت سے تمسّک کرنے کی برکت سے تمام بکھری ہوئی قوتیں جمع ہو جائیں گی اور مُردہ قوموں کو ابدی زندگی اور حیاتِ تازہ حاصل ہو گی۔ آہستہ آہستہ جو اس کیف سے معمور اور شراب حق کے نشہ سے مخمور ہو گا اس کے دل سے اسلام کی اجنبیت دور اور بیگانگی کافور ہو جائے گی۔ صدائے حق کی کشش اور نوائے صدق کی سریلی بانسری ضرور منیب دلوں پر اثر کرے گی۔ کان والے اسے سنیں گے اور جو سُنیں گے سر دھنیں گے۔ اسلام کی رفعت اور سر بلندی کیلئے وہ اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہن کر اور اپنے پاؤں میں زنجیروں کے بوجھل حلقے ڈال کر اور اپنے نرم و نازک جسم کو چُور چُور کروا کر بلکہ اکثر اوقات دار و رسن کے نیچے کھڑے ہو کر بھی وہ ایسی لذت محسوس کرتے ہیں جو شاہِ ہفت اقلیم کو سلطنت کا سنہری تاج پہن کر بھی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ اپنی بقا کا راز ہی اسی میں سمجھتے ہیں۔
بشکریہ۔۔
سیدہ ام مناہل(صدائے وقت)۔