Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 12, 2019

ترکی میں نئی نسل کی تربیت۔قابل تقلید تحریر۔

مفتی ابو لبابہ شاہ منصور۔۔صدائے وقت / بذریعہ مولانا طاہر مدنی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ترکی میں طویل جبریہ سیکولر نظام تھوپے جانے کے بعد نفسیات شناسی اور معاملہ فہمی کے ساتھ نئی نسل کی تربیت کی جارہی ہے۔ جب بچہ سات سال کا ہوجاتا ہے تو اسے نماز کی ترغیب دلانے کے لیے مقابلہ منعقد ہوتا ہے کہ جو بچہ فجر کی نماز چالیس دن تک باجماعت پڑھے گا، اسے ایک خوبصورت اور قیمتی بائیسکل دی جائے گی۔ بچے جوق درجوق فجر کی نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جب انہیں انعام ملتا ہے تو پورے شہر میں جلوس نکالتے ہیں۔ چالیس دن تک وہ نمازی بننا سیکھ رہے تھے، اکتالیسویں دن سے وہ نماز کے داعی بن چکے ہوتے ہیں۔
۔
جب گرمی کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو ترکی کے طول و عرض میں مساجد میں ’’حفظ القرآن سمر کیمپ‘‘ لگائے جاتے ہیں۔ کچھ تو مسجد کی بہترین سہولتیں، کچھ پڑھانے پڑھانے والوں کا رویہ، کچھ انعامات اور حوصلہ افزائی سے پیدا ہونے والا جذبہ۔۔۔ عجیب و غریب ماحول ہوتا ہے۔ بچے لگن سے قرآن کریم یاد کررہے ہوتے ہیں، والدین اور اساتذہ خوشی سے نہال ہورہے ہوتے ہیں اور چھٹیوں چھٹیوں میں ہر سال بچوں کو قرآن کریم کا اتنا منتخب نصاب یاد ہوجاتا ہے جو عمر بھر کے لیے ان کے واسطے رحمت و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس طرح جو بچہ پورا قرآن کریم حفظ کرلے اسے عمرے پر بھیجا جاتا ہے جس کی ویڈیو آج کل گردش کررہی ہے۔
۔
ترکی میں بچوں کو خطاطی اور تزئین کا فن سکھانے کے ادارے جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک مخصوص نام اور نشان ہوتا ہے جو دور سے پہچانا جاتا ہے۔ اسکاؤٹس کی تربیت اور اولمپیاڈ کا انعقاد بہت شاندار اور مثالی ہوتا ہے۔ بلدیہ کے پارکوں میں نہایت خوبصورت آسٹروٹرف بچھے ہوئے چھوٹے چھوٹے فٹبال گراؤنڈ ہوتے ہیں۔ ان میں وردی اور جوتے پہن کر کھیلنا ضروری ہے۔ اس کی گھنٹے کے اعتبار سے فیس بھی ہوتی ہے اور گراؤنڈ کے ساتھ پانی اور جوس کی مشینیں بھی رکھی ہوتی ہیں۔
۔
ایک مرتبہ ترکی میں بچوں کا دن منایا گیا۔ اس میں بچوں کو مستقبل کی قیادت سنبھالنے کی تربیت دینے کے لیے بڑے بڑے حکومتی عہدیداروں نے اپنی نشست کچھ وقت کے لیے بچوں کے سپرد کی۔ خود صدر ترکی نے ایک بچے کو اپنی نشست پیش کی۔
۔
آخر میں غبارے بانٹنے والے کا واقعہ سناکر بات ختم کرنا چاہوں گا۔ ایک مرتبہ پہلے بھی سناچکا ہوں۔ استنبول کے ’’قریۃ الصالحین‘‘ فاتح کے علاقے اسماعیل آغامیں ہم  کھڑے تھے۔ مسجد کے دروازے پر ایک شخص غباروں بھرا تھیلا لیے کھڑا تھا۔ یہ غبارے پھولے ڈنڈے کی شکل میں لمبے لمبے تھے۔ جو بچہ گزرتا یہ اسے جھٹ سے تلوار یا تاج بناکر پکڑا دیتا۔ ہم نے پوچھا: ’’یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ معلوم ہوا یہ ایک اچھے خاصے عہدے پر فائز سرکاری افسر ہے۔ فارغ وقت میں غبارے بھر کر لے آتا ہے اور بچوں میں یہ دو چیزیں (تلوار یا تاج) مفت تقسیم کرتا ہے۔ یہ بتانے کے لیے کہ جب سے ہم نے تلوار چھوڑی ہے، عزت کا تاج ہمارے سر سے اُترگیا ہے۔ بتائیے! نئی نسل کی تربیت اس طرح کی اختراعی جدتوں سے ہوتی ہے یا پھر مغرب میں کامیابی سے اخلاق باختگی پھیلانے والے پرفریب ٹوٹکوں سے۔ کوئی سمجھ کر بھی نہ سمجھے، ہمیں تو سمجھاتے رہنا۔
۔
ترکی زمان و مکان، موسم و مزاج کے اعتبار سے مغرب کے دہانے پر واقع ہے، مگر وہ مغرب کی تقلید کے بجائے زمانے میں پنپنے کے آزاد رویے دنیا میں متعارف کروارہا ہے۔ وہاں بچوں کی صحت و تعلیم پر بھرپور توجہ کے ساتھ انہیں مقصد زندگی کی تفہیم اور آفاقی انسانی آداب سے متصف کرنے کے لیے عجیب و غریب مثالی رویے اختیار کیے جاتے ہیں۔ایسی اخلاقی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے جو معاصر دنیا میں ایک مثالی مثال بنتی جارہی ہے۔
۔
مفتی ابولبابہ شاہ منصور