Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 1, 2019

کچھ دیر شیراز ہند جونپور میں۔


محمد سالم سریانوی
(قسط اول)۔
صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
21/ ربیع الثانی 1440ء مطابق 29/ دسمبر 2018ء شنبہ کو ہمیں شیراز ہند جون پورکا ایک یادگار سفر کا موقع ملا، سفر تو بہت مختصر تھا لیکن میرے لیے بہت اہم تھا، اس سے پہلے کئی بار جون پور سے گزرنے کا موقع ملا تھا، لیکن باقاعدہ کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، اب چوں کہ باقاعدہ ایک جگہ جانا تھا، اس لیے بہت اہم ہوگیا، یہ سفر درحقیقت ایک تعزیتی سفر تھا، جو فخر شیراز ہند حضرت مولانا توفیق احمد دامت برکاتہم ناظم اعلی مدرسہ حسینیہ جون پور کی تعزیت کے لیے ہوا تھا، ابھی پچھلے ہفتہ حضرت مولانا کو ایک بڑا سانحہ پیش آیا کہ ان کی شریک حیات دنیائے فانی کو چھوڑ کر دنیائے باقی کی طرف روزانہ ہوگئیں۔ (إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون)
جون پور مشرقی یوپی کا ایک عظیم الشان، دیدہ زیب اور تاریخی ضلع ہے ، جو کہ دریائے گومتی کے دونوں طرف آباد ہے، یہ شہر اپنے علمی، تاریخی اور اسلامی آثار سے معمور ہے، اسی شہر کے بارے میں شاہ جہاں نے ’’دیار پورب شیراز ما است‘‘ کا تاریخی جملہ کہا تھا، جو کہ تاریخ میں نہایت تابناکی کے ساتھ درج ہے، یہاں پر ایک زمانے تک مسلمانوں کی حکومت مغلیہ اور سلطنت شرقیہ بڑی شان وشوکت اور عدل وانصاف کے ساتھ رہی ہے، جس نے اس شہر کو ایک یادگار اور تاریخی شہر بنادیا، جس کی تابناکی اب بھی اس کے شاہی آثار اور در ودیوار سے ظاہر ہے، اس کے علاوہ اس شہر میں بڑے بڑے جبال علم پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے صرف ہندوستان میں ہی نہیں بل کہ پوری دنیا میں علم وآگہی کی دنیا نام روشن کیا اور واقعی میں ’’شیراز ہند‘‘ کو اسم با مسمی کردیا، جس میں ملک العلماء قاضی القضاۃ شہاب الدین دولت آبادیؒ (م840ء)، مولانا عبد الاول جون پوریؒ (م968ء)، ملا محمود جون پوریؒ (1062ء)  اور مولانا شاہ دیوان عبد الرشید جون پوریؒ صاحبِ مناظرہ رشیدیہ (م1083ء) کا نام تاریخ میں شان وشوکت کے ساتھ ثبت ہے اور اپنی تابناکی کو بیان کرتا ہے۔
ہمارا یہ سفر ہمارے بزرگ اساتذہ واحباب کی معیت میں ہوا تھا، جس میں مخدوم گرامی حضرت مولانا مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی دامت برکاتہم ناظم اعلی جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور، استاذ گرامی حضرت مولانا مفتی احمد الراشد صاحب قاسمی استاذ حدیث احیاء العلوم، اسی طرح حضرت مولانا وحافظ محمد جبرئیل صاحب نعمانی وجناب حافظ عبید الرحمن صاحب ابراہیم پوری اساتذۂ حفظ احیاء العلوم تھے، ہمارا مختصر سا قافلہ تقریبا 10/ بجے صبح جامعہ آباد مبارک پور سے روانہ ہوا، قریب پونے تین گھنٹہ کے سفر کے بعد پونے ایک بجے ہم لوگ مدرسہ حسینیہ جون پور پہنچے، جو جون پور کا ایک مشہور ومعروف اور بافیض ادارہ ہے، اور ہماری منزل یہی تھی، ہم لوگ مدرسہ میں داخل ہوئے، اندر صحن میں حضرت مولانا صاحب چارپائی پر دھوپ میں تشریف فرما تھے، سلام مصافحہ ہوا، خیر خیریت معلوم ہوئی اورحضرت ناظم صاحب نے اصالۃ تعزیت پیش کی۔
مدرسہ حسینہ صرف جون پور ہی کا نہیں بل کہ مشرقی یوپی کا ایک اہم علمی ادارہ ہے، جو اپنے بانیوں کے اخلاص وللہیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس مدرسہ کی بنیاد 1973ء میں اس وقت کے اکابر اہم علم وفضل کے ہاتھوں پڑی، یہ مدرسہ جون پور کی مشہور شاہی مسجد ’’لال دروازہ‘‘ میں واقع ہے، مسجد نویں صدی ہجری میں تعمیر ہوئی تھی، لیکن حالات زمانہ اور مرور ایام کی وجہ سے ویران ہوگئی تھی، اسی مسجد میں مدرسہ حسینیہ کی شروعات ہوئی جو کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ’’مدرسہ حسینیہ‘‘ ہے، اس وقت مدرسہ کی باگ ڈور حضرت مولانا توفیق احمد صاحب کے ہاتھوں میں ہے،جو کہ ذی علم وجاہ، متواضع وبا اخلاق، جود وسخا کے نمونہ، رعب ودبدبہ کے مالک اور بہت سے مدارس ومکاتب کے بانی ہیں، بل کہ ہمارے ناظم صاحب مد ظلہ کے بقول ’’بابائے مدارس‘‘ ہیں، اس وقت مدرسہ میں حفظ وفارسی نیز قرأت کی تعلیم کے ساتھ عربی پنجم تک تعلیم ہوتی ہے۔
جیسا کہ ذکر ہوا کہ ہمارا قافلہ ایک بجے کے پہلے پہنچ گیا تھا، چناں چہ کچھ دیر وہیں صحن میں مولانا سے گفتگو ہوئی، اس کے بعد دستر خوان لگا اور ہم نے مولانا کے ساتھ کھانے کا شرف حاصل کیا، اس کے بعد نماز ظہر اسی جامع مسجد ’’لال دروازہ‘‘ میں ادا کی گئی، یہ مسجد سلطنت شرقیہ کی یادگار ہے، جس کی تعمیر 860ھ میں ہوئی، اس مسجد میں تین باہری داروازے ہیں، جن میں بڑا دروازہ مشرقی ہے، یہ دروازہ باہر روڈ پر کھلتا ہے، لیکن غالبا یہ دروازہ مستقلا بند رہتا ہے، اس کے علاوہ دونوں دوروازے مدرسہ ہی کے احاطہ میں کھلتے ہیں، بیچ والے دروازے کے بعد ایک کشادہ صحن ہے، اس میں ایک حوض ہے، اس کے بعد مسجد کا اندرونی حصہ ہے، جس کے درمیان میں ایک بلند دروازہ ہے، جس میں نقاشی کی گئی ہے، اس دروازے کے دائیں وبائیں طرف مختلف چھوٹے چھوٹے در ہیں، دروازے کے بعد محراب سے متصل ایک گنبد بھی ہے، یہ مسجد اپنی قدیم تعمیر کے ساتھ قائم ہے، جس میں حالات کے تحت اصلاح ومرمت کا کام بھی ہوا ہے۔
نماز ظہر سے فراغت کے بعد مسجد ہی میں دوسرے کئی اساتذہ سے ملاقات ہوئی، جس میں حضرت مولانا عبد الستار صاحب معروفی بطور خاص ہیں، انھوں نے چائے پینے کی فرمائش بھی کی، چناں چہ ان کی فرمائش پر ان کی قیام گاہ پر گئے اور چائے نوشی کی، اسی کے ساتھ کچھ دیر تک جدید وقدیم باتوں میں مشغولیت رہی، وہیں پر حضرت مولانا عظیم الرحمن صاحب غازی پوری مد ظلہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اس کے بعد چوں کہ تعلیم کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے وہاں سے اٹھ گئے اور دوبارہ صحن میں آئے جہاں پر مولانا تشریف فرما تھے، ملاقات ہوئی کچھ باتیں ہوئی اور سلام مصافحہ کرکے مدرسہ حسینیہ سے اپنی منزل کی طرف نکل گئے، راستہ میں جون پور کی ایک عظیم اسلامی یادگار ’’جامع الشرق‘‘ بھی پڑی تھی، اس لیے واپسی میں کچھ دیر کے لیے وہاں بھی حاضری ہوئی۔  (جاری)
(تحریر: 23/ ربیع الثانی 1440ھ مطابق 31/ دسمبر 2018ء۔