Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 11, 2019

پرسنل لاء بورڈ کو کھلونا بنانے کی کوشش۔

از/ حبیب الرحمٰن شمس قاسمی۔(ماخوذ صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کے ہر ہر طبقے اور مسلک کا نمائندہ متحدہ ادارہ ہے یہ ملت اسلامیہ کا سب سے باوقار ادارہ ہے. یہ شرف آج بھی صرف بورڈ کو حاصل ہے کہ اسے مسلمانوں کی مرکزي قیادت کہا جاتاہے
لیکن ادھر کچھ دنوں سے بورڈ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کو طے کرنے والے نادان پالیسی ساز ہیں جو بورڈ کو سوشل میڈیا کے بازار میں بے حیثیت کرنا چاہتےہیں
پچھلے چند دنوں میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام سے سوشل میڈیا پر دو چیزیں سامنے آئی ہیں جن کے مطابق اب بورڈ Facebook پر انٹرویو کرےگا دوسری اطلاع ہے کہ اب بورڈ سوشل میڈیا کے ٹوئٹر ٹرینڈ بھی چلائے گا

حیران ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو

اب تک یہ شکایت تھی کہ ٹیکنیکل میدان میں ملی تنظيميں پیش رفت نہیں کررہی ہیں ان کی سرگرمیوں اور پالیسیوں کو جاننے کے لیے بڑی دقت ہوا کرتی تھی. پھر جب خدا کر کر کے بورڈ نے سوشل میڈیا پر اپنے منظم نیٹورک کو قائم کیا تو اطمینان حاصل ہوا جب بھی کسی ملی ایشو پر اپنی مرکزي قیادتوں کی رائے یا اسٹینڈ معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بورڈ کے ان سوشل میڈیا ذرائع میں سے کسی نا کسی پر معلوم کرلیتے ہیں
لیکن اب نہ جانے ذمہ داران کو کیا سوجھی ہے کہ باضابطہ بورڈ کو میڈیا اینکرنگ والی ڈیبیٹ سے لے کر تفریحی ٹویٹر ٹرینڈ میں بھی سرگرم کیا جارہاہے. یہ کسی بھی صاحب عقل و نظر کی سمجھ سے بالاتر قضیہ ہے کیونکہ یہ تنظیموں اور تحریکوں کا طریقہ تو ہوتا نہیں ہے اور خاص کر منظم قومیت کی نمائندہ جماعت کا تو یہ میدان سرے سے ہے ہی نہیں. میڈیا ڈیبیٹ اور انٹرویو والا اقدام جہاں بورڈ کے خلاف زبانیں دراز کرواتے ہوئے اس کا سیاسی استحصال کروائے گا وہیں ٹرینڈ جیسی معمولی تحریک کو بورڈ کے پلیٹ فارم ہر لانے سے بورڈ پر گالیوں اور ہرزہ سرائیوں میں جہاں اضافہ ہوگا وہیں، بد گوئی اور بدتمیزی کا الزام بھی بورڈ پر آسکتا ہے
اگر بورڈ کے نام سے ٹرینڈ چلایاجائے باضابطہ تو بالآخر ذمہ داری پوری پوری بورڈ کی ہی ہوگی اور بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کی متفقہ نمائندگی کرتاہے. ایسے میں بے شمار نوجوان اور نہ جانے کتنے ہی غیر معلوم لوگ بورڈ کے ٹرینڈ میں شریک ہوکر نازیبا ٹوئیٹس اور عدالت و آئین کے خلاف تبصرے کرینگے اور یہ ہوگا ہی چاہے ہمارے افراد کریں یا سنگھی عناصر بورڈ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ یہ کام کریں. لیکن بالآخر بدنامی تو مسلمانوں اور بورڈ کی ہی ہوگی اور اگر ان ٹرینڈ میں موجود غیر آئینی بدتمیزی پر مقدمات دائر کردیے گئے تو اگلے مراحل نہایت ہی ناگفتہ بہ ہوں گے
ملک کے اکابر علما کی باضابطہ نمائندہ جماعت کے نام سے ٹوئٹر ٹرینڈ یا سوشل میڈیا انٹرویو جیسی سرگرمیاں بالکل ہی غیر مناسب اور غیر موزوں معلوم ہوتی ہیں. اور پھر جبکہ ان دونوں میدانوں میں کام کرنے والے افراد ہمارے پاس اب موجود ہیں تو آخر کیا ضرورت آن پڑی ہےکہ بورڈ کے نام پر ان کے متوازی کوششیں کرنے کی؟ بورڈ کی پالیسی تو اولین مرحلے میں باہمی ربط و تعاون کی ہونی چاہیے تھی. ہر جگہ دخل اندازی اور ٹانگ اڑانے سے نا صرف بے حیثیتی عام ہوتی ہے بلکہ نوجوانوں میں مزید ٹکراﺅ کی شکلیں پیدا ہوتی ہیں. صحافت. میڈیا اور ٹوئٹر ٹرینڈ جیسی کوششوں کے لیے بورڈ کو چاہیے کہ ملت کے موجود ذرائع کو اپنے ساتھ استعمال کرے اور انہیں مضبوط کرے ناکہ ان میدان میں بورڈ کے نام سے تماشے بازیاں کی جائیں
اس سے بعض لوگ اپنے فالوورز بڑھا کر سیلیبریٹی تو بن سکتے ہیں لیکن مؤثر نہیں ہوسکتے نیز مزید ٹکراﺅ کے امکانات بھی ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ ذمہ داران بورڈ. نوخیز ارکان بورڈ کی ان غیر مناسب سرگرمیوں کو تجربے کی روشنی میں پرکھیں گے۔

حبیب الرحمن شمس قاسمی ۔نئی دہلی۔

فائل فوٹو/ پرسنل لاء بورڈ