Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 7, 2019

مولانا سید سلمان الحسینی ندوی کے نام ایک گزارش۔

از/ شمس المظاہری۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
حضرت والا!!!!!
سب سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ میں نے دار العلوم ندوۃ العلماء کے نصاب کے مطابق درجہ عربی ہفتم تک کی تعلیم (جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ ) میں حاصل کی ہے لیکن بدقسمتی سے ندوۃ العلماء سے فراغت حاصل نہیں کر سکا ۔اور دورہ حدیث شریف کے لئے جامعہ مظاھر العلوم سہارنپور آ گیا۔۔میں نے ندوۃ العلماء کے کئی اکابر اساتذہ کرام کی زیارت کی ہے ۔۔مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں علیہ الرحمہ کو بہت قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔۔ان کی کئی تصنیفات کا بغور مطالعہ کرنے کی بھی توفیق حاصل ہوئی ہے۔۔جانشین مفکر اسلام حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم سے بالمشافہ کئی بار گفتگو کرنے کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔۔مختلف پروگراموں میں آپ کی علمی و فکری  تقریریں سننے کا بھی موقع ملا ہے ۔۔اور میرا یہ یقین ہے کہ اسوقت ملک ہندوستان کے چند گنے چنے باصلاحیت ،ذی استعداد ،دوررس اور عالمی حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے علماء کرام میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔۔۔
حضرت والا!!!! آج ہی چند گھنٹے قبل مولانا سعد صاحب اور دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء کے حوالے سے ایک ویڈیو کلپ جس میں آپ اپنے  افکار و آراء بیان فرما رہے تھے ۔۔آپ کی اس ویڈیو کلپ کو بار بار سننے کا موقع ملا ہے۔۔اسی سلسلہ میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔۔
آپ کے بقول مولانا سعد صاحب نے تحریری و تقریری طور پر ،دار العلوم کو مرجع سمجھتے ہوئے اور اس کا احترام کرتے ہوئے اپنے اقوال سے رجوع کر لیا تھا۔۔مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اتنی وضاحت کے ساتھ
اگر رجوع ہو چکا ہوتا تو بات اس حد کو کیوں پہونچتی ؟؟؟؟
آپ یہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح کا استفتاء ہوگا فتوی ویسا ہی دیا جائے گا ۔۔تو کیا استفتاء بھیجنے والے نے دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء کو غلط استفتاء لکھ کر بھیجا؟؟؟یا دار العلوم دیوبند کا دار الافتاء استفتاء سمجھ ہی نہیں سکا ؟؟یا دار الافتاء نے فتوی ہی غلط دے دیا؟؟اگر استفتاء غلط تھا تو مولانا سعد صاحب پہلے ہی اسکی نفی کر دیتے کہ ان کی جانب غلط باتیں منسوب کی جا رہی ہیں۔۔یا ان کے بیانات کو بلا سمجھے پیش کر دیا گیا۔۔حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔
حضرت والا!!!آپ نے  مولانا سعد صاحب کے بیانات کا تذکرہ جس سرسری طور پر کیا ہے وہ قابل تعجب ہے۔۔۔۔گویا کہ  وہ ایسی کوئی بات نہیں کہ اسے قابل اعتنا سمجھا جائے اور اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔۔
بڑے ادب و احترام کے ساتھ سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ  نبی (موسی علیہ السلام)کی شان میں جو کلمات بزبان مولانا سعد صاحب کہے گئے ہیں۔۔ یا بعض اہسے مسائل جن پر جمہور کی رائے سے ہٹ کر اپنی الگ رائے قائم کی گئی  ہے۔۔کیا وہ اس لائق ہیں کہ سرسری انداز میں اسے  لیا جائے؟؟؟اور اگر دار العلوم دیوبند جو بلاشبہ ام المدارس اور مرکز علوم نبوت ہے ۔۔اس پر مولانا سعد صاحب کی گرفت کرے تو اسکی اہمیت و عظمت پر خاک ڈالنے کی کوشش کی جائے۔۔۔
کیا یہ عجیب نہیں کہ دار العلوم دیوبند اور افکار دیوبندیت جو کہ فکر نبوت ہی کا چربہ ہے۔۔اپ نے اس عظیم الشان اور وسیع الفکر مشرب کو اپنے بیان میں اسقدر محدود کر ڈالا گویا دار العلوم دیوبند کو صرف سہارنپور کے ہی لوگ جانتے ہوں؟؟؟؟۔۔اس سے آگے کسی بھی ضلع یا صوبہ یا ملک میں دار العلوم کی کوئی شناخت نہ ہو۔۔؟؟؟؟
جبکہ آپ نے نہ جانے کتنے ممالک کے دورے کئے ہیں ۔۔اور اچھی طرح واقف ہوں گے کہ دار العلوم دیوبند کے فارغین و نمائندے شاید و باید ہی کائنات کا کوئی بھی خطہ یا حصہ ہو جہاں پہونچ کر انہوں نے امامت و خطابت اور صحافت کے ذریعے دار العلوم کا تعارف نہ کرایا ہو۔۔اور لوگوں کے قلوب پر دار العلوم کی عظمت کا سکہ نہ بٹھایا ہو۔۔آپ نے تبلیغی جماعت کو آفاقی جماعت قرار دیا ہے ۔۔اور الجزائر ،تیونس اور آسٹریلیا اور نہ جانے کن کن ممالک کا تذکرہ فرمایا ہے ۔۔اور وہاں کے دار الافتاء اور مفتیان کرام کی بات کی ہے۔۔یقینا آپ کی بات سر آنکھوں پر۔۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جماعت کا جو مربوط و مستحکم نظام ہندوستان اور بر صغیر میں ہے ۔۔دوسرے ممالک میں اسکا شاید عشر عشیر بھی نہیں۔۔۔اسلئے جماعت کے موجودہ داخلی اختلافات کا سب سے گہرا اثر بر صغیر پر ہی پڑا ہے۔۔جسکی وجہ سے یہاں کے اکابرین میں سب سے زیادہ اضطراب پایا جاتا ہے۔۔
اگر آپ  کا یہ بیان مان بھی لیا کہ دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء کو عالمی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔۔تو کیا اس سے بھی انکار کیا جا سکتا ہے کہ دار العلوم دیوبند کے مناہج ،افکار اور آراء کو پوری دنیا میں وقعت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟؟؟؟
یہ بالکل حقیقت ہے کہ دعوت و تبلیغ کا جماعتی نظام اسوقت عالمی سطح پر مقبولیت کا درجہ رکھتا ہے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس جماعت پر دیوبند اور اکابرین دیوبند کی مہر لگی ہوئی ہے ۔۔حضرت مولانا الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ نے اس کار نبوت کو عملی شکل دینے سے قبل اکابرین دیوبند سے کئی بار مشورہ فرمایا تھا۔۔اور اسلاف ہی کی تائید و تصدیق کے ساتھ اس کام کو شروع کیا گیا تھا۔۔
میرے قلب کا یقین ہے کہ دار العلوم دیوبند ہو یا مظاہر العلوم ہو یا دار العلوم ندوۃ العلماء، اپنے نصاب تعلیم و نظام تعلیم کے اعتبار سے مختلف ہو سکتے ہیں ۔۔
لیکن بہر حال  ہر ایک کی فکر، فکر ولی اللہی ہے ،مسلک ابو حنیفہ ہی کے پیرو ہیں۔ مشرب دیوبندیت ہی کے ترجمان ہیں۔۔
حضرت والا!!!!!!!!!اسوقت امت مسلمہ اپنے اندر کافی بے چینی و بد اطمینانی محسوس کر رہی ہے ۔۔مسئلہ امارت و شوری کا نہیں ہے کہ کون کسے امیر مانتا ہے اور کون نہیں مانتا ؟؟؟مسئلہ دراصل اس فتنہ کا ہے جو دونوں فریق کے آپسی اختلافات اور تنازعات سے پیدا ہو رہا ہے۔۔۔مسئلہ اس ذہنی بے راہ روی ،فکری بے اعتدالی اور قلبی بے حسی   کا ہے ۔۔جسکی بنا پر تبلیغ کا قدیم جماعتی اور وحدت زدہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔۔مسئلہ اس دروغ گوئی ، بدزبانی،الزام تراشی اور تہمت بازی کا ہے جسکی بنا پر کردار گر رہے ہیں۔افکار سڑ رہے ہیں اور شخصیتیں مجروح ہو رہی ہیں۔۔شوری والے مولانا سعد صاحب کے خلاف ہفوات و بکواس میں مشغول ہیں اور امارت کے پیروکار شوری کی جماعت کو اپنی مسجدوں میں ٹکنے نہیں دے رہے ہیں۔۔۔بلکہ نوبت تو اب دست و گریباں اور سر پھٹول تک پہونچ چکی ہے۔۔
شاید اپ نے دار العلوم کے اس اعلان کو سنا ہوگا کہ "دار العلوم دیوبند کو جماعت کے دونوں دھڑوں کے داخلی اور خارجی اختلافات سے کوئی سروکار نہیں ہے" یہ اعلان اسلئے نہیں تھا کہ دار العلوم اس کام کو اپنا کام نہیں سمجھتا بلکہ دار العلوم اپنے نظام تعلیم اور طلباء کی سرگرمیوں کو اس اختلاف سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے ۔۔
لیکن افسوس کہ یہ باور کرا دیا گیا کہ دار العلوم دیوبند مولانا سعد صاحب اور ان کی امارت کے خلاف ہے ۔۔اور پھر سعدیانیوں و امارتیوں نے اکابرین دیوبند کے خلاف سوشل اور پرنٹ میڈیا پر وہ طوفان بدتمیزی مچائی کہ الامان و الحفیط۔۔۔۔مدرسوں کو چندہ دینا بند کر دیا۔۔علماء سے عوام کو بدظن کرنے لگے ۔۔۔علماء کو گالیاں دینے لگے۔۔جبکہ سچی بات یہ ہے کہ اگر کوئی ہملوگوں کے سامنے مولانا سعد صاحب کے خلاف بدزبانی کرتا ہے تو طبیعت چاہتی ہے کہ اس خبیث کا منہ نوچ لوں۔۔۔۔شوری والوں نے جب دیکھا کہ مولانا سعد کے متبعین اور علماء کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال ہے تو اپنی انگلی سیدھی کرنے لئے شور مچانے لگے کہ دار العلوم اسکا حمایتی ہے۔۔جبکہ جب یہ لوگ ایک تھے تو علماء کو گھاس ڈالنا بھی انہیں گوارہ نہیں تھا۔۔اگر کوئی نرا جاہل بھی چلہ اور چار ماہ لگایا ہوتا تو ان کے نزدیک علماء سے زیادہ متقی ،پرہیزگار اور باصلاحیت سمجھا جاتا تھا۔۔
حضرت والا!!!!!اپ کے بیان کو سنکر نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ بھی موجودہ فتنہ کا سارا ٹھیکرا دیوبند اور علماء دیوبند کے سر پھوڑنا چاہتے ہیں۔۔۔جبکہ یہ اپ کے شایان شان نہیں ہے۔۔۔آپ کے بڑوں نے بھی ہر معاملے اور مسئلے میں دار العلوم کو اپنا مقتدا و پیشوا گردانا ہے۔۔پھر اپ نے اپنی ایک الگ ہی راہ کیوں منتخب فرما لی؟؟؟؟
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپ دار العلوم دیوبند تشریف لے جاتے ،،مرکز نظام الدین جاتے ،،تبلیغی جماعت کے اکابرین سے گفتگو کرتے۔۔۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے علماء اور تبلیغ کے ذمہداران سے رابطہ کی کوشش کرتے۔۔
لیکن آپ نے صرف بیان دینا اور اکابرین دیوبند کو مورد الزام ٹھہرانا اپنے لئے کافی سمجھا۔۔۔
ایک آخری بات۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ نہ سمجھا جائے کہ اپ میں اور مولانا سعد صاحب میں ایک مناسبت ضرور ہے۔۔وہ یہ کہ جس طرح وہ جمہور سے الگ ہو کر اپنی رائیں قائم فرماتے ہیں اسی طرح آپ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                       والسلام
                        خاکسار
                   شمس المظاھری
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . نوٹ۔۔۔مراسلہ نگار کی رائے سے ادارہ صدائے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔