Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 16, 2019

سر زمین فلسطین کو پائیدار حل درکار ہے !!


عمیر کوٹی ندوی/ صدائے وقت۔
. .  . . . . . . . . . . .   . . . . . . . . . . . . . 

یہودی آباد کاروں کی طرف سے پولیس اور فوج کی فول پروف سیکیورٹی میں قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے اور  مقدس مقام کی بے حرمتی کرنے کا سسلہ  کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حالیہ معاملہ میں مسجد اقصیٰ کے پہرے داروں نے یہودیوں کو قبلہ اول میں داخل ہونے سے جب روکنے کی کوشش کی تو صہیونی فوج اور پولیس اہلکاروں‌نے انہیں اور بڑی تعداد میں مسجد اقصیٰ میں جمع ہونے والے فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہی نہیں بلکہ مسجد اقصیٰ کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر صہیونی فوج اورپولیس کی بھاری نفری بھی  تعینات کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی حکام صحابہ کرام اور بزرگان دین کی قبروں پر ہوٹل، ریستوران اور کئی دیگر سیاحتی اور کمرشل عمارتیں تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ خبروں کے مطابق فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں قائم ایک تاریخی قبرستان' مامن اللہ'  کا وجود صہیونی سازشوں کے باعث خطرے سے دوچار ہے جہاں  اسرائیلی بلدیہ کی طرف سے بلڈوزر کے ذریعہ قبرستان کی حفاظتی دیوار مسمار کرنے کے ساتھ ہی  اس کی مغربی سمت میں کئی پرانی قبریں بھی اکھاڑ پھینک گئیں ہیں۔اس سے قبل  بھی اسرائیل  کی طرف سےکئی دوسرے قبرستان بھی صہیونی جارحیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر جاری مظالم جبر وتشدد کے درمیان فلسطینیوں کے داخلی مسائل بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اوران کی ماتحت اتھارٹی نےغزہ کے عوام کو ایک منصوبے کے تحت مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کا یہ عمل اس لئے ہے تاکہ غزہ کے عوام 'حماس' کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکیں۔

فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کی پٹی کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے بعد اقتصادی، سماجی ، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔غزہ کے عوام پر فلسطینی اتھارٹی کی معاشی پابندیوں کا آغاز مارچ 2017ء میں ہوا۔ فلسطینی اتھارٹی نے انتقامی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئےغزہ کے عوام پر اقتصادی پابندیاں‌عاید کر دیں۔ در اصل حماس نے غزہ کی پٹی کو قومی حکومت میں شامل کرنے کی اپنی کوششوں کی  ناکامی کے بعد غزہ کی پٹی کے لیے ایک انتظامی کمیٹی کا اعلان کردیا تھا ۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق تجزیہ نگار حسام الدجنی کا کہنا ہے کہ اس وقت سے صدر عباس کی طرف سے یہ انتقامی حربہ جان بوجھ کراختیا رکیا گیا ہے۔ان کے مطابق صدر عباس کی طرف سے غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی ایک معاشی کوڑے کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر عباس کی طرف سے غزہ کے عوام کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ غزہ کے عوام کو تنہا کرنے کی کوشش ہے اور وہ خاموشی کے ساتھ غزہ کے عوام کو حماس کے خلاف بغاوت پر مجبور کر رہے ہیں۔حسام الدجنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر عباس نے غزہ کے عوام کے سامنے تین آپشن پیش کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ غزہ کی پٹی کے عوام کو سڑکوں پر لایا جائے اور انہیں حماس کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے۔ اس طرح وہ غزہ کو ایک خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔دوسرا آپشن حماس کو اسرائیل کے خلاف جنگ کی طرف لے جانا اور حماس اور اسرائیل کو ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں‌ الجھانا ہے۔تیسرا مقصد حماس پر معاشی دباؤ ڈال کر اسے غزہ کی پٹی میں اقتدار سے الگ کر کے غزہ کی پٹی کو فلسطینی اتھارٹی کی عمل داری میں لانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس طرح وہ حماس کو ہتھیار ڈالنے اور اسے غرب جیسے حالات سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف مسئلۂ فلسطین کے تعلق سے سعودی عرب کی سوچ اور طرز عمل ہے۔ اس وقت اس نے حماس کے بارے میں ایک خاص'رائے' قائم کرلی ہے۔ اخوان المسلمین اور حماس کے بارے میں اپنی رائے کے اظہار میں وہ کوئی تامل بھی نہیں کرتا ہے۔  اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ  سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ریاض میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات  ہوئی ہے۔ خبروں کے مطابق ملاقات میں فلسطین کی تازہ صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ اس موقع پر سعودی شاہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب یروشلیم دارالحکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ  مسلم ممالک کے اسرائیل مخالف رویے اور پالیسی میں بتدریج تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ حال ہی میں خلیجی ملک عمان اور مسلم اکثریتی ملک چاڈ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔مسلم ممالک کے رویے اور پالیسی میں بتدریج واقع ہونے والی  یہ تبدیلی محل نظر ہے۔ اس مسئلہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پولینڈ کے شہر 'وارسا' میں ہونے والی مشرق وسطیٰ کانفرنس میں شرکت سے قبل تل ابیب میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں جن سے دشمنوں کو کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ پرنشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس مسئلہ سے ہی متعلق اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  نے ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی نئی رکن کانگریس الہان عمر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

الہان عمر نے کہا تھا کہ امریکہ میں اسرائیل کا حامی لابیئنگ گروپ،'امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی' یہودی ریاست کی حمایت کے حصول کے لیے قانون سازوں کو خرید رہا ہے۔اُنھوں نے کہا تھا کہ قانون سازوں کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اصل سبب امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کی جانب سے دی جانے والی مالی حمایت ہے۔ حالانکہ بعد میں انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کر لی تھی۔ اس کے بعد بھی امریکی صدر نے اخباری نمائندوں  سے کہا کہ عمر کی معذرت "کافی نہیں" ہے  اور مزید یہ کہ معافی کے لیے "ان کے الفاظ کھوکھلے تھے"۔ٹرمپ نے الہان عمر سے مطالبہ کیا کہ وہ کانگریس سے مستعفی ہوں یا کم از کم ایوان کی امور خارجہ کمیٹی کی اپنی رکنیت چھوڑ دیں۔اس کے بالمقابل روس نے کہا ہے کہ " امریکا کی مشرقِ اوسط میں امن عمل کی بحالی کے لیے مجوزہ صدی کی ڈیل 1967ء کی سرحدوں پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست کی ضمانت دینے کے لیے کافی نہیں ہے"۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ "امریکا اس مسئلے کے حل کے لیے جان بوجھ کرنئے نئے حل تجویز کررہا ہے، حکمت عملیاں پیش کررہا ہے"۔اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ روس کے نزدیک اسرائیلی فلسطینی امن بات چیت میں فلسطینیوں کے درمیان اتحاد کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ" ہم دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح فلسطینی تنازع کے حل کے لیے پختہ عزم رکھتے ہیں۔یہ حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں ، جنرل اسمبلی اور عرب امن اقدام سے ہوکر برآمد ہوگا"۔ خارجی اور داخلی دونوں ہی پہلوؤں سے مسائل سے گھری سرزمین فلسطین کو پائیدار  حل درکار ہے لیکن یہ اخلاص اور سنجیدگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔