Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 31, 2019

الفاظ،،، معنی،،، اور حقائق۔


از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى۔
آكسفورڈ/ صدائے وقت/ بذریعہ ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . 
زبان كا بنيادى مقصد سوچنا ہے، اس كى تشريح ميں نے پہلے كى ہے، اس كا ثانوى مقصد پيغام رسانى ہے، پيغام رسانى  كے تين مراحل ہيں، پہلا مرحله  صحيح الفاظ كا استعمال ہے،  دوسرا مرحله معانى تك رسائى ہے، اور تيسرا مرحله ان معانى كو حقائق سے مربوط كرنے كا ہے، مثلا: كيلا ايك لفظ ہے، اس كے بولتے ہى ذہن ميں ايك معنى مرتسم ہوتا ہے، اور يه معنى حقيقت تك پہنچاتا ہے، الفاظ منه سے بولے جاتے ہيں، معانى ذہن ميں ہوتے ہيں، اور حقائق كا وجود خارجى ہے.  كيلا كهانے كا فائده لفظ كيلا سے نہيں حاصل ہو سكتا، اسى طرح وه معنى جو ذہن ميں ہے اسے نہيں كهايا جاسكتا، كهانے كى چيز وه كيلا ہے، جو خارج ميں بطور حقيقت موجود ہے۔
كبهى  انسان كو الفاظ، معانى اور حقائق تينوں كا علم ہوتا ہے، اوپر والى مثال ميں مخاطب لفظ كيلا سنتا ہے، اس سے معنى اخذ كرتا ہے اور پهر حقيقت سے اسے مربوط كرتا ہے، يا مثلا وضوء كرنا، يه لفظ ہے، اسے بولتے ہى اس كا مفہوم ذہن ميں آجاتا ہے، اور حقيقى وضوء وه ہے جو انسان عملا ًكرتا ہے، اس قسم كى چيزوں كو محكم كہتے ہيں۔
الفاظ كے معانى كى تشريح كو تفسير كہتے ہيں، اور ان الفاظ ومعانى كو حقائق سے مربوط كرنے كو تأويل كہتے ہيں، يوسف عليه السلام نے خواب ميں ديكها كه گياره ستارے، سورج اور چاند ان كے لئے سجده كر رہے ہيں، ستاروں، سورج اور چاند كى حقيقت ان پر اس وقت كهلى جب ان كے والدين اور  بهائى مصر تشريف لائے اور انہوں نے سجده كيا، اس موقع پر انہوں نے فرمايا: "ہذا تأويل رؤياي"، يعنى يه  ميرے خواب كا خارجى مفہوم ہے، اسى طرح نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے خواب ديكها كه آپ نے دوده نوش فرمايا، اور اس كا بچا ہوا حصه حضرت عمر رضي الله عنه كو ديديا، صحابه كرام  رضي الله عنهم نے عرض كيا: ما أولت؟ اس كا خارجى حواله كيا ہے؟ تو آپ نے فرمايا: علم۔
اگر انسان نے خارجى حقائق كا مشاہده نہيں كيا ہے تو الفاظ سے اسے كسى قدر معانى كا علم ہوسكتا ہے، حقائق كا نہيں، كيونكه حقائق نه الفاظ ميں سكون پزير ہوتے ہيں اور نه معانى ميں، اگر كسى نے تاج محل نہيں ديكها ہے، تو اسے لفظ تاج محل بتايا جا سكتا ہے، اور اس كا تقريبى مفہوم بهى بتايا جا سكتا ہے، ليكن تاج محل كى حقيقت تاج محل ديكهنے كے بعد معلوم ہوگى، لوگ موت كا لفظ جان سكتے ہيں، اس كے معنے سے بهى واقف ہو سكتے ہيں، ليكن اس كى حقيقت مرنے كے وقت معلوم ہوگى، اس قسم كو متشابه كہتے ہيں، متشابه كہنے كى وجه يه ہے كه ان حقائق كى تشريح ہميشه ان الفاظ كے سہارے كى جاتى ہے جو دوسرے مختلف حقائق كے لئے وضع كئے گئے ہيں، ان معلوم حقائق وغير معلوم حقائق كے درميان الفاظ كا تشابه واشتراك ہوتا ہے، ورنه في الواقع دونوں الگ الگ چيزيں ہيں۔
انسان كے وجود كا ايك مرحله پيدائش سے پہلے كا ہے، دوسرا مرحله اس دنيا ميں پيدا ہونے كے بعد كا ہے، تيسرا مرنے كے بعد عالم برزخ كا ہے، اور چوتها آخرت كا ہے، انسان صرف اس دنيا كى حقيقت سے واقف ہے، باقى تينون مرحلوں كے حقائق اس كے لئے غيب ہيں، ان كے لئے قرآن وحديث ميں جو الفاظ مستعمل ہوئے ہيں  ہم ان كو جان سكتے ہيں، ان كے معانى كو سمجه سكتے ہيں، اس سے زياده كا علم اس دنيا  ميں ممكن نہيں، متشابہات وغيبيات كے سلسله ميں صحيح رويه يه ہے كه الله اور اس كے پيغمبر نے جو الفاظ ومعانى بتائے ہيں  ان كو سمجهيں اوران پر ايمان لائيں، ليكن ان كو حقائق سے مربوط كرنے كى كوشش نه كريں، كيونكه ہم جب بهى ايسا كريں  گے ہم ان غير معلوم حقائق كو معلوم حقائق پر قياس كريں  گے حالانكه دونوں كے درميان بعد المشرقين ہے، ان كے درميان صرف الفاظ كا اشتراك وتشابه ہے۔
حديثوں سے معلوم ہوتا ہے كه مرنے كے بعد قبر ميں مسلم اور غير مسلم دونوں سے سوالات ہوتے ہيں، اس دنيا كے اندر زندگى اور بات كرنے كے درميان تلازم ہے، ليكن يه ضرورى نہيں كه يه تلازم دوسرے عوالم ميں بهى ہو، اس لئے صحيح رويه يه ہے كه چونكه ان لوگوں كے لئے قرآن وحديث ميں موت كا اطلاق  كيا گيا ہے تو ہم ان كو مرده كہيں، اور ساته يه بهى يقين كريں كه ان سے سوال وجواب ہوتا ہے، ان پر جنت كى يا جہنم كى كهڑكى بهى كهولى جاتى ہے۔
اسى طرح پيغمبروں كے لئے موت كا لفظ قرآن وحديث ميں استعمال ہوا ہے،  مثلا: إنك ميت وإنهم ميتون، يا افإن مت فهم الخالدون، حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه نے ارشاد فرمايا: من كان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات، اس لئے ہم  ان كے لئے لفظ موت استعمال كر سكتے ہيں، ليكن حديثوں كے اندر  عالم برزخ ميں انبيائے كرام كے جو حالات بيان ہوئے ہيں وه اس دنيا ميں زندوں كے خصائص ميں سے ہيں، تاہم  قرآن وحديث ميں كہيں ان كو زنده نہيں كہا گيا ہے، اس لئے محتاط طريقه يه ہے كه ان سارى باتوں كو مانتے ہوئے ان پر زندگى كے لفظ كا اطلاق نه كيا جائے۔
علمائے متاخرين كى ايك جماعت ان كو زنده باور كرتى ہے، اور اس كے لئے ان كے پاس دو دليليں ہيں، ايك قياس اولى، دوسرے دليل تلازم۔
قياس اولى: قرآن كريم ميں وارد ہے كه شهيدوں كو مرده نه كہو، وه زنده ہيں اور ان كو اپنے رب كے پاس رزق مل رہا ہے، اگر شهداء كو مرده نہيں كه سكتے تو انبياء جو ان سے بہتر ہين ان كو بدرجۂ اولى زنده شمار كرنا چاہئے۔
يه قياس دو وجہوں سے  غلط ہے،  ايك يه كه اس كى كوئى دليل نہيں كه غير نبى كسى جزئى امر ميں نبى سے مختلف نہيں ہوسكتا، اس لئے قياس اولى يہاں غير محل ميں ہے، دوسرے يه كه غيبيات ومتشابہات   ميں  قياس نہيں ہوتا، قياس كے لئے مقيس عليه اور مقيس دونوں كى حقيقت كا جاننا ضرورى ہے، ہم نه شهيدوں كى حيات كى حقيقت سے واقف ہيں اور نه انبيائے كرام كے برزخى احوال كى حقيقت سے،  نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے معراج كے موقع پر موسى عليه السلام كو قبر ميں نماز پڑهتے هوئے ديكها، پهر بيت المقدس ميں وه آپ كے مقتدى تهے، اور اس كے بعد چهٹے آسمان ميں ان كو ديكها، ان تينوں جگہوں پر ان كى موجودگى متشابہات ميں سے ہے، جن پر ہم ايمان لاتے ہيں، ليكن ان كى تاويل نہيں كرتے يعنى ان كے حقائق بيان نہيں كرتے۔
دليل تلازم: پيغمبروں كے جو احوال حديثوں ميں بيان ہوئے ہيں وه اس دنيا ميں زندوں كے احوال ہيں، لهذا ان كو زنده كہا جاسكتا ہے۔
يه تلازم بهى غلط ہے، كيونكه اگر دو چيزيں اس عالم ميں متلازم ہيں تو ضرورى نہين كه دوسرے عالم ميں بهى  ان كے درميان تلازم ہو، ورنه پهر ماننا پڑے گا كه كافر ومشرك سب زنده ہيں، كيونكه  مرنے كے بعدان كے جو حالات بيان ہوئے ہيں وه اس دنيا ميں زندوں كے حالات ہيں، قرآن كريم نے جمادات ونباتات كى تسبيح كا ذكر كيا ہے، تو كيا اس بنا پر جمادات ونباتات كو حيوان كہيں گے؟
اس دنيا ميں ہم دوسروں كو سلام بهجواتے ہيں، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے لئے الله تعالى نے انتظام كيا ہے كه ہم جہاں سے صلاة وسلام بهيجيں فرشتے انہيں پہنچا ديتے ہيں، اور ہم جب روضۂ اطہر پر حاضر ہوتے ہيں تو براه راست سلام پيش كر سكتے ہيں، جيسے ہم كسى قبرستان ميں جاتے ہيں تو وہاں كے مدفونين كو سلام كرتے ہيں، ہميں اس كى ضرورت نہيں كه  ہم نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كو دوسروں كے واسطے سے سلام بهجوائيں، كيونكه ہمارے سلام بهجوانے كا الله تعالى نے فرشتوں كے ذريعه انتظام كرديا ہے، اسى لئے سلام بهجوانے كى كوئى ہدايت حديثوں ميں نہيں، اور نه ہى صحابه وتابعين ميں اس كا معمول رہا ہے۔
خلاصه يه ہے كه متشابہات وغيبيات ميں نصوص پر اكتفا كرنا چاہئے، اور متشابہات كو غير متشابہات پر قياس نہيں كرنا چاہئے ، كيونكه دونوں كے حقائق مختلف ہيں، اور اشتراك صرف لفظ كا ہے۔