Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 11, 2019

دہشت گردی ::: اسباب و نتائج، اعتراف یا انحراف


توقیر بدر القاسمی/ صدائے وقت
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہفتہ عشرہ سے ملک عزیز میں کیا میڈیا اور کیا گلی کوچی،کیا چوک چوارہا اور کیا بازار و مکان الغرض ہر جگہ احتجاجی نعروں سے لیکر بھاشن بازی و بیان طرازی میں ایک ہی شور بپا ہے وہ ہے"آتنک وادی کو نشٹ کردینا ہے:دہشت گرد کو ختم کرنا ہے:Finish terrorist"
چناچہ جب جب ہم ایسا سنتے ہیں تو یہی ایک تمنا لیے ہویے وہاں سے اٹھتے ہیں.کاش ایسا ہوجاتا!مگر یہاں تو چیخنے چلانے والے سبھی بندوق کی جگہ بے جان کیمرے اوردشنام آمیز نعروں کے سہارے زبانی گولی باری میں ہی مصروف نظر آتے ہیں.
معاملہیہیں تک ہوتا تو ٹھیک تھا،مگر اب"میر بھی کیا سادہ ہیں"والا بنتا جارہا ہے.
چناچہ اب بعض"میڈیا گیانی"کے لہجے میں خود منصف مزاج دیکھنے سننے والے ناظرین و سامعین کو"دہشت"محسوس ہونے لگی ہے.
کاشیہ گیانی ملکی و بین اقوامی سطح پر وقوع پذیر"دہشت گردی کی حقیقت:اسباب ونتائج"پر کم از کم اس موقعے سے عالمی امور کے تجزیہ کار اہل دانش کو متوجہ کیے ہوتے اور ملک گیر پیمانے پر اپنے ڈسکورس سے عالمی و علاقائی مخلص سماجی بہی خواہ و متعلقہ امور کے ماہرین Experts سے رجوع ہوتے اور انکے ذریعے اس سماجی لعنت اور معاشرتی کوڑھ کا علاج ڈھونڈنے میں کامیاب ہوپاتے،مگر نہیں! کیونکہ انہیں تو انکے مالکان کی طرف سے ایسے موقعوں پر TRP نظر میں رکھنے کی ہدایت ملی ہوتی ہے.
تو لیجیے موقعے کی مناسبت سے آج کی ہماری گفتگو کا محور ملکی و عالمی سطح پر "دہشت گردی کی حقیقت:اسباب ونتائج:اعتراف یا انحراف"ہے، تاکہ غور و فکر کے بعد کسی نتیجے تک پہونچنے میں آسانی ہو!
آغاز گفتگو میںیہ بات واضح کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کی حقیقت کے حوالے سے اپنا پہلا تاثر تو یہی ہے کہ یہ محسوس و مشاہد،چاند سورج اور دھوپ چھاؤں کی طرح ایک بدیہی امر ہے یعنی"کسی کو بھی اپنے ناجائز مفاد کے لیے تمام تر مسلّم الہامی و انسانی قوانینکو بالائے طاق رکھ کر اسے مالی و جانی نقصان سے دوچار کرکے دہشت زدہ کردینا"ہی دہشت گردی ہے.لہذا اس پر لمبی چوڑی بحث اور قیل وقال کے ساتھ اسکی تحدید و تعریف میرے خیال سے اسے نظری بنانا ہے.تاہم ماہرین نے جو کچھ کہا ہے اسکا خلاصہ یہاں بتادینا اس گفتگو کا واجبیتقاضا محسوس ہوتا ہے.
دہشت گردی کیا ہوتی ہے
اشراق کے مشہور کالم نگار منظور الحسن اس بابت اپنے استنباطی ذوق کو کام میں لاتے ہوئے لکھتے ہیں.
’’انسان خواہ مقاتلین ہوں یا غیر مقاتلین،ان کے خلاف ہر وہ تعدی دہشت گردی قرار پائے گی جس میںیہ تین شرائط پائی جاتی ہوں۔1۔کارروائی دانستہ ہو۔2۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہو۔3۔قانونی لحاظ سے ناحق ہو۔‘‘[دیکھیے اشراق متعلقہ موضوع کالم منظورالحسن]
دہشت پسندانہ کارروائی کی حقیقت جاننے کے بعد اس کے پیچھے کیا عوامل و محرکات ہوسکتے ہیں؟یہ انتہائی قابل غور امر ہے.چناچہ ہمیں بے انتہا محتاط و بے ریا مخلص اور باریک بیں محقق نیز غیر جانبدار و غیر جذباتی انسان بنکر واقعات و دلایل کی روشنی میں تلاش محرکات کی غرض سے دہشت گردی کی جڑیں تلاش کرنی ہوگی!
اس حوالے سے سب سے پہلے ہمیں عالمی سطح پر مشہور متعلقہ بیانیے(Related to Terrorism Narrative )اور موضوع بحث سوچ و افکار(Thoughts)پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا.
عالمی پیمانے پر موضوع بحث"دہشت گردی کے محرکات"دو ہیں.
اول:سیاست.دوم:مذہب
{راقم کی مراد سیاست سے آیندہ سطور میں"بے خداسیاست"ہوگی،جیسا کہ مذہب سے مراد عالمی امور کے ماہرین مذہب اسلام لیا کرتے ہیں}
بہر صورت سیاسی محرکات سے قبل مذہب کے حوالے سے جو بیانیے میڈیای گفتگو سے ہوتے ہوئے،سمینار میں پڑھے گیے مقالات اور چھاپی گئی کتب میں پیوست ہوگیے ہیں،اس پر مختصر گفتگو وسیع غور و فکر کے درست زاویے اور سمت متعین کرنے میں معاون ہوگی.
مذہب سے مراد آج مذہب اسلام کو بطور محرک [Motivator] تین طرح سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے.
مشہور عالمی بیانیے world view narrative
1:-پہلا بیانیہ مذہب اسلام ہی فی نفسہ تمام تر دہشت گردی کا سرچمشہ ہے.اسکی دلیل میں وہ جہاد کو دہشت گردی،اسلامی حدود اور سزاؤں کو وحشیانہ عمل اور ماضی کے غلام باندی کے بیان کردہ فقہی احکام نیز ارتداد اہانت رسول کی سزا کو انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادیکا مخالف ومعاند بناکر خود ساختہ انداز میں بھیانک بنا کر پیش کیا کرتے ہیں.اسکی تمثیل و تجسیم کے لیے مٹھی بھر خود غرضانہ سیاسی مزاحمت و بغاوت سے جنم لینے والے شدت پسند داعش اور بوکو حرام جیسی گروہ کو بھی نمایاں کرتے رہنا انکا محبوب مشغلہ ہے.
ہاں البتہ جو اس قدر منھ پھٹ نہیں ہوتے وہ مطلق اسلام کے بجاے'بنیاد پرست اسلام'[Radical Islam] کانام لیکر اپنے لہجے کی شدت اور فکر کی آنچ کو مدھم کرکے دکھانا چاہتے ہیں.
بہر حال ان سب کی مجموعی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انکے بیان کردہ نفسانی و شہوانی چوکٹھے میں فٹ آنے والا اسلام از سر نو تشکیل پایے اور قرآن وسنت سے متعین و مشخص اسلام رد ہو!نعوذ باللہ من ذلک!بصورت دیگریہ موجودہ مذہب اسلام رہا تو باقی دنیا نہیں رہ پایگی!
2:-دوسرا بیانیہ:
اسکے پرچارک کا ماننا ہے کہ بنفس نفیس مذہب اسلام نہیں،بلکہ اس سے مستنبط انسانی افکار کی بدولت ساری تفسیر و تمام احکام دہشت گردی کے محرکات ہیں.اس حوالے سے وہ بطور دلیل مزعومہ خلافت کی آڑ کا سہارا لیکر متروک سماجی مظہر مثلا غلام باندی کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست و قضا سے مشروط اہانت رسول کی سزا پر بندھ باندھنے والے اقوال کو اپنے رنگ میں پیش کرکے سرخ رو بننے کی کوشش کرتے ہیں.مد مقابل سے جب خود کو عاجز پاتے ہیں تو رٹا رٹایا سبق بوکو حرام اور داعش کو لیکر دوہرانے لگتے ہیں.اسی کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر خود ساختہ منطق کے مطابق اسلامی احکامات کی تشکیل بشکل تحریف کرنے کی کوشش میںیہ بیچارے بھی دوہرے ہویے جاتے ہیں.
3:-تیسرا بیانیہ:
اسکے مبلغین کا ماننا ہے کہ اسلامی اصول و ضوابط کی روشنی میں مستنبط سارے احکام ایسے نہیں ہیں.ہاں بعض مستنبط احکام ہی دہشت گردانہ سوچ اور سماج میں تفرقہ ڈالنے والے فکر و عمل ہیں.دلیل میںیہ نام نہاد مفکرین تکفیری فتاوی اور اسکے رد عمل میں پیدا ہونے والے سماجی انتشار نیز عام عوام کے بگڑے ذوق پر گراں منصفانہ حکم مثلا سود،بے حیائی،اختلاط جنس اور موسیقیوغیرہ کے حوالے سے'کمزور وکیل شریعت' کے بیان کردہ فلسفہ و حکمت سے لیس احکام کو پیش کرکے اس پر مزعومانہ تعریض کرتے اور شوق سے"جبری مفکر حقیقی"بننے کی کوشش بیجا میںغلطاں رہتے ہیں.انکی کوشش بھییہی رہتی ہے کہ انکی عارضی دنیا کی فانی لذات جو بظاہر خوش کن بباطن مضرت رساں ہیں،ان کا حل کسی متروک و شاذ اقوال سے ہی ڈھونڈ نکالا جایے!
پیش کردہ بیانیے کو اگر سرسری طور پر بھی کویی دیکھنے کی کوشش کرے تو وہ یہ کہنے میں دیر نہیں کر سکتا کہ مذکورہ بالا دلایل کی روشنی میں اپنے رنگ و آہنگ سے مذہب واحکام مذہب کو بطور 'محرکات دہشت گردی'جنہوں نے بھی پیش کیا ہے،وہ عالمی مفکرین میں شمار کم البتہ مذاہب سے برگشتہ افراد زیادہ ہوسکتے ہیں.
خواہ مرتدین کے قبیل سے ہوں یا پھر آزاد خیال سرمایہ دارانہ ابلیسی نظام کے آلہ کار اور ایجنٹ و ترجمان کے طور پر اسپانسرڈ!
چناچہ ایسے موضوع بحث بیانیے اور افکار کو فروغ دینے والوں میں مرتدینِ اسلام کاتناسب زیادہ ہے۔ان میں ماضی کے حزب التحریر کے کارکن ماجد نواز یہ'کتاب ریڈیکل'کے مصنف اور مسلم انتہا پسندی کے سدّباب کے لیے قائم کردہ قویلیم فاؤنڈیشن کے بانی ہیں،جو برطانوی حکومت کو پالیسی سازی میں مدد دیتی رہتی ہے.اس کے شانہ بشانہ ایان حرسی علی جیسی سرخیل زندیق جو "کیوں اسلام کی فوری تجدیدِ نودرکار ہے"جیسی کتابوں کی مصنفہ بھی ہے،جب ایک انٹرویو میں اُس کے بیان'اسلام کو شکست دینی ہوگی'کی وضاحت میں اینکر نے پوچھا کہ''آپ کی مراد یقیناً ریڈیکل اسلام ہو گی''
تو اس نے کھل کر کہا''نہیں!'' اسلام''اور بس!!اب ظاہر ہے کہ ایسی شدت پسندانہ سوچ کے حامل،مرتدین میں ہی سرِ فہرست ہوسکتے ہیں۔
دوسرا گروہ جارحانہ مگر سنجیدہ علمی رویّے کے حامل ملحدین کا ہے،جس کے پیشوا کی حیثیت سَیم ہیر کو حاصل ہے جس نے"ایمان کا اختتام" جیسی کتاب کے مصنف اور
(Islam is a mother lode of bad ideas اسلام ہی برے نظریات و خیالات کا جنم داتا ہے)
ڈائیلاگ کہنے والے کی حیثیت سے شہرت حاصل پائی ہے.
سیم ہیرس اور ماجد نواز"اسلام اور بردباری کا مستقبل"(Islam and the Future of Tolerance) کے عنوان سے اسی موضوع پر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔
تیسرا گروہ اُن غیر مسلموں کا ہے جو مذہبِ اسلام اور شرعی قوانین(Sharia Law) سے کھلم کھلا عناد رکھتے ہیں،مگر اِسے مذکورہ بالا دو گروہوں کے علمی مباحث کے سائے میں چھپانےکی کوشش کرتے ہیں۔ اس گروہ کے عمائدین میں فرانس کی مارین لی پین، نیدرلینڈ کے جیرٹ وائلڈرز،امریکہ کی پیم گیلر اور رابرٹ سپینسر اور ڈینیل پائپس،اور برطانیہ کے ڈگلس مرَّے وغیرہ شامل ہیں.[تفصیل کے لیے دیکھ سکتے ہیں تحریر عدنان اعجاز 'الحاد جدید کا علمی محاکمہ']
جب کہ راقم کا احساس یہی ہے کہ متذکرہ بالا بیانیے کے مصنفین میں سے اول الذکر نے جن باتوں کو مذہب اسلام کے حوالے سے دہشت گردی کا محرک بتایا ہے،سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اسکی نہ تو درست تنقیح کر پایے ہیں اور نہ ہی درست طریقے سے اسکی تعیین ان سے ہوپای ہے.چناچہ آییے عقل و منطق کی خراد پر ان بیانیے کو چڑھا کر ان کے دعووں کی پرت اتار کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں!
پیش کردہ بیانیے کا تجزیہ
1:-اس حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہمارے عدم تنقیح والے دعوی کی دلیل کے طور پر ہر انصاف پسند طبیعت کے لیے عقلی ومنطقی اتنی سی بات ہی کافی ہو گی کہ اگر فی نفسہ 'مذہب اسلام'میںیہ بات ہوتی،تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اسکے ماننے والے سبھی افراد دہشت گرد ہوتے،یعنی آج پوری دنیا کے چھ ارب سے زائد أفراد میں سے میں ایک چوتھائی مسلم آبادی جو ڈیرھ پونے دو ارب افراد ہیں وہ سب اسکی تعلیمات و ہدایات پر انکے بیان کے مطابق عمل پیرا ہوکر ضرور دہشت گرد ہوتے.جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے.چناچہ ڈھونڈنے سے بھی بمشکل تمام اج اسلامی راستے سے بھٹکے ہویے دس ہزار افراد بھی مل جائیں تو غنیمت ہے!
2:-دوسری بات یہ ہے کہ اگر عین مذہب اسلام ہی دہشت گردی کا سرچشمہ ہوتا تو اسلام کے روزاول سے ہییہ ساری دہشت گردانہ کارروائی اسکی تاریخ سے چمٹی ہوی ہوتی،جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ یہ دہشت گردانہ خود کش حملے بیسویں صدی سے آہستہ لَے پکڑنے والی اکیسویں صدی کی دھماکے دار گونج میں تبدیل ہویی ہے وہ بھی اس طرح کہ عام انسانی آبادی میں تباہی سے لیکر مخالفین کو ٹھکانے لگانے تک کی تحریک سیاسی طالع آزما صیہونیت سے ہوتے ہوئے کٹر پنتھی ہندو مت تک نمو پاتی چلی گئی،جو تاریخی لحاظ سے اسرائیل کے وجود میں آنے سے لیکر ہندوستانی سیاسی جنون میں ابال مارنے تک اپنا وجود رکھتی ہے. لہذا اسکے وجود میں آنے کے بعد ہی امریکی صدور کے قتل سے لیکر مہاتما گاندھی کی ہتیا تک،راجیو گاندھی کے بھیانک مرڈر سے لیکر ہزاروں معصوم انسانوں کے حالیہ قتل و حادثات تک پھیلا ہوا یہ ایسا امر بیل بن گیا کہ اسکی جڑ ڈھونڈنے کی کوشش ہر انسان کا بحیثیت انسان ایک اہم فریضہ ہے.
3:-تیسری بات یہ کہ اگر ایسا ہوتا تو اسلام پسند مقابل و مقاتل کا نشانہ غیر مسلم ہوتے،جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آج قاتل بھی کلمہ گو ہے اور مقتول بھی کلمہ گو! یہی نہیں جتنے دہشت گرد نام نہاد اسلام نام والے گرفت میں آیے ہیں وہ کس قدر قرآن و سنت کے ماہر ہوتے ہیں اسے بتانے کی ضرورت نہیں!
پتا نہیں وہ واقعی کبھی کلمہ گو بھی ہوتے ہیںیا کسی عالمی سازش کے تحت پیدا کردہ ابلیسی ترجمان و مسلمان کے ہمنام!
نتیجہ ماحصل
اس لیے مطلق مذہب اسلام کو ایسا نشانہ بنانا یہ ایک طرف جہاں ذہنی کجی اور علمی و منطقی تجزیے سے کورے پن کا مظہر ہے وہیں دوسری طرف علم و اخلاق کے دیوالیہ پن کا شاخسانہ بھی!بس!اور کچھ نہیں! انکی دلیل کے طور پر پیش کردہ خلافت اور ارتداد وغیرہ کی بابت تفصیلی گفتگو آیندہ سطور میں آرہی ہیں.
اب جہاں تک "کلییا جزوی:مستنبط احکام اسلام"کے تناظر میں دوسرے اور تیسرے بیانیہ پیش کرنے والے کی بات ہے تو یہ بھی اسی وقت تسلیم ہوسکتا تھا جب ان گروہوں کے سربراہ کو دنیا بھر میں مسلمانان وقت میں مرجعیت حاصل ہوتی اور سبھی ان سے ہی اپنے روز مرہ کے مسایل میں راہنمای کے لیے رجوع ہوتے!جبکہ معاملہ نوے ڈگری برابر برعکس ہے.
علماء اسلام اور راقم کا احساس
راقم اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میںیہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہویے مسلمانوں کے لیے حقیقی مرجعیت رکھنے والے اس دین معتدل کے حقیقی ترجمان،حامی سنت وقرآن اور ماہر شریعت و فلسفہ احکام کی ہر آن یہی تڑپ رہی،کہیہ اپنے ہم نام،قرآن وسنت سے دور گمنام بلکہ کھلم کھلا باغی دہشت گردوں کی انفرادی جماعتوں،گروہوں یا تحریکوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب بنانے اور اُن میں سے ہر ایک کے خاص خاص عقائد و استدلالات کی غلطی واضح کرنے کے لیے ہر حال میں کوشاں رہیں!تاکہ اسلام کا صاف شفاف اعتدال سے بھرا پرا چہرہ سامنے آسکے اور انسانیت کے لیے پر امن طریقے سے اس پر سوچنے سمجھنے کی راہ ہموار ہو!
دنیا بھر میں مشہور ام المدارس مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے راقم حصول تعلیم کی غرض سے وابستہ ہونے کے بعد علمی و فکری تعلیم و تربیت سے لیس ہوکر علمی و عوامی شہرت یافتہ ادارہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں المعھد العالی جیسے تربیت افتا وقضا کے مشہور انسٹی ٹیوٹ سے جب بغرض تدریس وابستہ ہوا وہاں دس سالوں تک فقہ وفتاوی اور کار قضا کی اہمیت و نزاکت سیکھنے سکھانے کے بعد ابھیدکتور شہاب الدین ازہری کی تحریک و تشویق نیز انہی کی ترتیب پرچند ماہ قبل بفضل خدا جامعہ ازہر مصر کے سہ ماہی تربیتی دورے میں شریک ہونے کا موقع ملا،تو ان تمام جگہوں پر براہ راست راقم کو جو محسو ہوا وہ یہی کہ دہشت بڑی ہوشیاری سے اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے پھیلایا گیا ایک بھرم ہے،یہ سیاسی مفاد پرستوں کا ایسا گرم توا ہے،جس پر انکی روٹیاں ہر آن سینکی جاتی ہیں.
ورنہ دنیا جانتی ہے کہ عوامی و علمی مرجعیت رکھنے والے کیا عالمِ عرب کیا عالم غیر عرب،کیا مشرقی علماء اورکیا مغربی علما سبھی نے داعش،القاعدہ،بوکو حرام وغیرہ کو راہ راست پر لانے اور انکی فکری کجی کو درست سمت دینے کی خاطر علیحدہ علیحدہ طور پر اپنی اپنی سطح سے انہیں مخاطب بنا کر اپنے تئیں سوالات و استدلالات سے بھر پور لٹریچر تیار کرڈالے،متعدد کتابچے لکھے،انہیں عام کیا،یہی نہیں بلکہ ان تک اپنی سی کوشش کرکے ارسال بھی کیے.پھر بھی دہشت گردی کا محرک اسی اسلام کو کہا جاتا رہا.آخر ایسا کیوں؟
اپنا تو احساس یہی ہے کہ آج بھی کویی وقت فارغ کرکے ان رسائل کو لیکر بیٹھے تو وہ ان رسائل میں اس طرح کے استدلالات دیکھے گا:خلافت کا اعلان کوئی غیر معروف شخص،اپنے علاقے کے معتبر و مستند علما و عوام کی تائید کے بغیر کر ہی نہیں سکتا؛کوئی خود ساختہ جماعت یا گروہ کو از خود حق کا معیار بنا کر اپنے سے علمی وفکری بنیاد پر اختلاف رکھنے والے باقی مسلمانوں کو کافر و مرتد یا سزاءً واجب القتل قرار نہیں دے سکتا؛یہی نہیں اسلامی فقہی ذخیرہیہ بھی بتاتا ہے کہ مسیلہ تکفیر ایک بہت ہی پیچیدہ مسیلہ اور قانون ہے،اس کا بے دریغ استعمال اور فکری و نظریاتی اختلاف کے نتیجے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا؛اسی طرح خلافت کا قیام مطلوب ضرور،پر اس کے اعلان کے لیے جس قسم کی روحانی ومادی'قوت'اور جس قسم کی علمی و اخلاقی'ریاست'فقہ میں درکار ہے وہ فلاں اور فلاں گروہ کے پاس ہے ہینہیں!چناچہ خود ساختہ بے بنیاد خلافت کی آڑ لے کر عورتوں،بچوں،بوڑھوں وغیرہ کو اسلام قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی کسی کو اس بنیاد پر تکفیری فیصلے صادر کرکے غلام بنانے کی اجازت دیتا ہے،بلکہ اسلام کی عطا کردہ رحمت اور راہنمای کے نتیجے میں اب اسکی کوی ضرورت ہی باقی نہیں اور نہ ہی کسی خاتون کو باندی بنانے اور اس سے ہمبستری کی ضرورت پڑ سکتی ہے.
ارتداد واہانت رسول کی سزا یہ ریاست سے بغاوت کے مترادف ہے،جو اسلامی ریاست و قاضی کے دایرہ اختیار میں آتا ہے.کسی بھی مستنبط فقہی اصول میں اسکی گنجایش نہیں کہ مسلمانوں کی مساجد قایم کرنے کے لیےیہودیوں عیسائیوں وغیرہ کی عبادتگاہوں کو نقصان پہنچایا جایے أور نہ ہی کسی صورت میں غیر مسلموں کو اسلام لانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؛اسلامی احکامات و ہدایات صاف صاف یہ بتاتے ہیں کہ فقط نظریاتی و عقائد کی امتیاز کی بنا پر دشمنوں کی روحانی ہتک اور جسمانی تعذیبیا جنگ میں مارے گیے مقابل کی بے حرمتییا قطع و برید جیسے وحشیانہ عمل اور قبیح افعال کی کویی گنجائش نہیں!
چناچہ اہل علم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ حدود اور شرعی سزاؤں کے نفاذ کے لیے جس حزم و احتیاط،فقہی عقلیت و بصیرت،قانونِ شہادت و عدالت اور ان کے مطلوبہ مسلم معیارات سے واقفیت، بلکہ بھرپور مجتہدانہ مہارت درکار ہے،وہ اِن گروہوں کے ہاتھوں اجرا و اطلاقات میںیکسر مفقود ہے.
انہیںیہی علماء کرام یہ بھی بتاتے ہیں کہ بغاوت کی شرائط بہت سخت ہیں،جن کا فلاں گروہ کے بیان کے مطابق پورا ہونا درست نہیں؛وغیرہ وغیرہ!
یہ محنت کیوں؟
علمایے اسلام کو یہ محنت اس لیے کرنی پڑ رہی کہ آج ان کے جیسے ہم نام گروہ کے ہی بے بصیرتانہ عمل اور غیر مجتہدانہ حرکت سے ایسی ایسی حرکتیں صادر ہوجاتی ہیں کہ جہاں اپنوں کی پیشانی عرق آلود ہوتی ہیں وہیں غیر مسلموں کو اسلام کا مذاق اڑانے اور اسے ایک بے رحم مذہب کے طور پر دنیا کو باور کرانے کا موقع مل جاتا ہے!لہذا جو نام نہاد مفکرینیہاں وہاں کی اڑا لیتے ہیں اور احکام اسلام پر معترض ہوبیٹھتے ہیں انہیں ایک بار پھر سے انکا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ کچھ فکر و تحقیق کا بھرم باقی رہے!
پیش کردہ سطور میں اسلام اور اسلام سے مستنبط احکامات آیا دہشت گردی کے محرک ہیںیا نہیں؟اس پر آپ قارئین کرام بھی ایک بار پھر سے نگاہ ڈال کر ان حقائق کو ذہن میں محفوظ رکھیں تاکہ مضمون کے آخر میں کسی نتیجے تک پہنچنے میں آسانی ہو.
بہر کیف پیش کردہ بیانیے کا جایزہ لینے کے بعد یہاں اب اس بیانیے کا جایزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے جس میں بے خدا سیاست اور ناخدا ترس سیاسی عزایم کو دہشت گردی کا محرک مانا جاتا ہے.لہذا آییے دیکھتے ہیں کس قدر اس میں سچائی ہے!
چوتھا بیانیہ بے خدا سیاست محرک ہے
اس بیانیے کے مطابق دنیا بھر میں رایج دہشت گردی کا اصل سبب 'مذہبی تعلیمات'نہیں بلکہ 'بے خدا سیاست"ہے.یعنی عالمی قوتوں یا اسلامی دنیا کے ناخدا ترس مقامی یا خارجی آمروں/حکمرانوں کے تحکم و استبداد کے باعث،مذہب اسلام کے ابدی قوانین میں کسی خارجییا وقتی جذباتی تبدیلی کو تسلیم کیے بغیر رد عمل اور دفاع نفس کی تحریک پر جن علاقوں میںیہ پیش آتی ہے.اسکی متعدد وجوہات ہیں.
چناچہ کرہ ارض پر کہیں مسلمانوں کی معاشی بد حالی(Economic Anxiety) اسکا سبب بنتی ہے،تو کہیں معاشروں میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم (Social Injustice) اسے تحریک دیتی ہے.کسی جگہ شناختی بحران(Identity Crisis)اسکو فروغ دیتا ہے تو بعض جگہ مسلمان خِطّوں پر غیر مسلموں کے ناحق زمین،تیل کے ذخائر اور دیگر معدنی وسائل وغیرہ پر قبضے(Colonization/Land Usurpation/Rule by Proxy)اسکو پروموٹ کرتے ہیں،چناچہ متذکرہ بالا بیانیے کے مطابق یہ اور اس طرح کے دوسرے وجوہات ہی وہ اصلی اسباب ہیں جو دنیا بھر میں'سیاست کا کاٹ سیاست'جیسے فارمولے پر آمادہ کرتے ہیں اور پھر دھونس دکھاکر قبضہ جمانے والوں کے خلاف دھونس کا مظاہرہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس طرح مجبور کرتے ہیں کہ شدت پسندوں کے ساتھ ملکر یا انکا مقابل بنکر اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوجاییں!
نتیجتاً پھر کہیں آزادی کے نام پر قابض فوجیوں سے جھڑپ ہوتی ہے،جسے دہشت گردانہ حملہ نہیں بلکہ جنیوا کنوینشن کے مطابق"Army legitimate war"کہا جاسکتا ہے.تو کہیں یہ معصوم نہتے شہری پر بیان کردہ دہشت گردانہ شکل کی روپ بھی لے لیتا ہے جسکی محرک وہی الٹی میٹلی سیاست ہی ہوتی ہے.
اس کے بعد پھر یہ ہوتا ہے کہ مختلف حالات و ظروف میں اس اصولی بیانیے(سیاست محرک ہے)کے اپنے حسب الطلب تشکیل شدہ شکل و جماعت والے (Customized Versions)منظر عام پر آنے لگتے ہیں.
چناچہ شام و عراق اور ایران وعرب میں بین الاقوامی سیاسی طاقتوں کی زیرِ نگرانی شیعہ سنی فساد کو قصداً ہوا دینے کا عمل اسکی مثال میں پیش کی جاسکتی ہے،جو فی الواقع داعش کے ظہور و نمو کا سبب بنا۔تو کہیں سرحدی توسیع و تحدید کا قضیہ چھیڑ کر دوملکوں کو ٹکرانے کی عالمی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوشش کی جاتی ہے تاکہ ایک طرف اپنی سیاسی چودھراہٹ کا طنطنہ باقی رہے تو دوسری طرف بڑے بڑے سیاسی ساہوکاروں کے عالمی منڈی میں بنے بنایے اسلحہ کی تجارت کو خسارے سے بچایا جاسکے!یہی نہیں اپنے اپنے سیاسی نظریات کے تحت برپا کردہ عزایم کو بروئے کار لانے کے لیے اپنے اپنے قومی و بین اقوامی کیڈر کے بیچ نتیجتا لامتناہی فکری و عسکری خوں چکاں کشمکش کو ہوا دیتے ہیں اور پھر اس طرح ہر خطے میں اپنے کنٹرولڈ میڈیا کی نگاہوں اور اینکروں کی زبانی دو مسلم جماعت کا خوں ریزقضیہ کہکر اسے مذہب کے نام سے نمایاں کر دیتے ہیں.
عالمی سطح پر ان نظریات و تجزیات پر نگاہ رکھنے والے اس سے اتفاق کر سکتے ہیں کہ اس موقف اور بیانیے کییہی حقیقت ہے.اس سے اتفاق رکھنے والوں میں ماضی کے مرحوم سر سید احمد خان سے لیکر آج کے فرید زکریا جیسے عالمی شہرت یافتہ جرنلسٹ کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے،اگرچہیہ کچھ قابلِ بحث ہے.اسی طرح غیر مسلم نظریہ سازوں میں سی جے ورلیمین تو مکمل طورپر اور یہاں تک کہ نوم چومسکی کے پائے کے دانشور بھی تقریباً اسی مؤقف کی تائید کرتے ہیں.
لہذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب دکھائییہ دیتے ہیں کہ یہ{دہشت گردی کا محرک بے خدا سیاست} بیانیہ Narrative نہ رطب و یابس کی نوعیت کا حامل بیانیہ ہے اور نہ ہماشما قسم کے لوگوں کا یہ ہوا میں گرہ ڈالتا اظہار خیال،بلکہ اس کے پیچھے افراد و استدلال کی بظاہر قابلِ لحاظ قوت اور ناقابل استردادا شکل و نوعیت موجود ہے.
خلاصہ کلام
ان تمام تر تجزیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج عالمی پیمانے پر دہشت گردی کے اسباب و نتائج جو واقعی اور حقیقی ہیں،انکا اعتراف کسی بھی پہلو سے نہیں کیاجارہا ہے،بلکہ اپنے اپنے بے خدا سیاسی عزایم کی تکمیل کے لیے ناخدا ترس عالمی سیّاس بڑی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے کنٹرولڈ میڈیا اور فکر فروش نام نہاد دانشور کے ہاتھوں اسے مسخ کرنے پر تلے ہویے ہیں۔