Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 11, 2019

تاریخی سر زمین دولت آباد۔۔۔۔۔کچھ یادیں، کچھ باتیں۔

تحریر/ذیشان الہی منیر تیمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
             دولت آباد صوبہ مہاراشٹرا کا ایک نہایت ہی مشہور و معروف اور تاریخی شہر ہے ۔محمد بن تغلق نے  اپنے دور اقتدار میں دلی کو چھوڑ کر دولت آباد کو اپنا دار الحکومت بنایا ۔اس سے اس جگہ کی اہمیت اور حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے سیاح اس جگہ اور قلعہ کی زیارت کرنے آتے ہیں ۔10 مارچ  2019 ء کا دن میرے لئے کافی اہم تھا کیونکہ اس دن ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ جن میں خاص طور سے معصوم اشرف اور شمشاد قابل ذکر ہیں کے ہمراہ اس تاریخی مقام اور قلعے کی زیارت کے لئے اپنے دار الاقامۃ سے نکلے پھر مولانا آزاد کالج سے گاڑی پر سوار ہوکر "باوا " اور باوا سے ایک دوسری گاڑی پر سوار ہوکر اورنگ آباد سے دولت آباد کے لئے نکلے راستہ میں صرف پہاڑ ہی پہاڑ نظر آ رہے تھے لیکن راستے میں مجھے عیسائیوں کی ایک بہت بڑی قبرستان بھی نظر آئی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اورنگ آباد میں عیسائیوں کی تعداد اچھی ہیِں ۔پہاڑوں، قبرستانوں اور پارکوں کی زیارت کرتے ہوئے ہم لوگ لگ بھگ ایک بجے دولت آباد پہنچے ۔وہاں جاکر سب سے پہلے ہم لوگوں نے ٹکٹ لی پھر محمد بن تغلق کے قلعہ کی طرف بڑھا گارڈ ٹکٹ چیک کرنے کے بعد ہم لوگوں کو اندر بھیج دیا جیسے ہی اندر پہنچا قلعے کی دیوار، بناؤ و سنگار نے ہم لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا پھر کچھ اور اندر گئے تو قدیم زمانے کے ہتھیار اور اسلحہ وغیرہ دیکھائی دیا کچھ اور اندر گئے تو قطب مینار کی طرح ایک لال رنگ کا مینار بنا ہوا تھا ۔اس مینار کے بائے طرف ایک بہت بڑی مسجد تھی اور آج بھی اس کی ظاہری بناوٹ اور سجاوٹ سے معلوم ہوتا کہ وہ مسجد تھی لیکن آج اس مسجد کے محراب پے اوم لکھ کر اس کے نیچے ایک مورتی رکھ دی گئی ہے یعنی اس مسجد کو اب مندر میں تبدیل کردیا گیاہے اس مندر کے پیچھے ایک بہت بڑا تالاب کی شکل میں حمام ہے جس کو اس زمانے میں غسل اور کپڑے دھونے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا ۔اس مینار سے کچھ اور دور اونچائی پر گئے تو ہمیں ایک پارک دیکھائی دیا اور اس کے ٹھیک سامنے بائے طرف کچھ اونچائی پر ایک توپ رکھا ہوا تھا جس پر حسین، نصر من اللہ و فتح قریب، کے ساتھ ساتھ قرآن کی یہ آیت تھی کہ "مومنوں کو خوشخبری سنا دو کہ فتح اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور اللہ مسلمانوں کی حفاظت کرنے والا ہے "اس توپ پر اورنگ زیب رحمہ اللہ سمیت دو اور افراد کے نام اور شیر کی تصویر بھی تھی ۔یہاں سے اب ہم لوگ آگے بڑھے اور قلعہ کے اندر گئے تو صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا چمگادر اور لوگوں کی کافی بیھڑ تھی لوگ موبائل کی روشنی کے سہارے اوپر چڑھ رہے تھے ہم لوگ بھی ان کے پیچھے ہوگئے لگ بھگ پانچ منٹ چلنے کے بعد روشنی ملی جہاں سے نیچے دیکھنے کے بعد گاڑی اور لوگ چوٹے چھوٹے دیکھ رہے تھے وہاں سے جب ہم لوگ قلعہ کی اوپری حصہ کو نظر اٹھاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ابھی ہم لوگوں کو اس کے آخری چھوڑ تک پہنچنے کے لئے کافی ہمت کی ضرورت ہے چنانچہ دس یا بارہ مرتبہ بیٹھ کر آرام کرکے اور پانی پی پی کر سیلفی لیتے ہوئے ہم لوگ اس قلعہ کے آخری چھوڑ پر پہنچے وہاں سے بڑی بڑی بلڈنگ گاڑیوں کی طرح اور گاڑیاں کھلونے کی طرح دیکھائی دے رہی تھیں ۔یہاں پر بھی ایک بڑا سا توپ تھا جہاں پر ہم لوگوں نے سیلفی لی اور آرام کرنے لگے اسی درمیان ہم لوگوں کی ملاقات ایک فرانسیسی سے ہوئی ان سے بات چیت لگ بھگ ہم لوگوں نے بیس پچیس منٹ تک کیا ۔ہم لوگ اوپر تو دیکھنے کے جذبہ کو لیکر چڑھ گئے لیکن اب تھکان کافی بڑھ رہی تھی اور چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔پیاس بھی لگ رہی تھی اور اوپر سے دھوپ بھی ہمے پریشان کر رہی تھی ۔خیر ہم لوگ ہمت باندھ کر دھیرے دھیرے نیچے اترے اور قلعہ سے باہر آگئے ۔باہر آنے کے بعد ہم لوگوں نے بریانی اور انگور پر اپنی پیاس اور بھوک کا غصہ نکالا پھر گاڑی لے کر لگ بھگ پانچ بجے اورنگ آباد تشریف لے آئے ۔
     ذیشان الہی منیر تیمی
      مانو کالج اورنگ آباد
        مہاراشٹرا