Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 29, 2019

نفرت کی سوداگری کرنے والے نیوزی لینڈ سے سبق حاصل کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔مولانا ارشد مدنی

مظفر نگر فساد متاثرین کو جمیعتہ کی جانب سے مکانات کی چابیاں تقسیم۔
مظفر نگر[صداۓوقت]۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
مظفر نگر فساد کو ہوئے طویل عرصہ گزرچکا ہے لیکن متاثرین کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔آج مظفر نگر کے باغونوالی میں بچے ہوئے متاثرین میں سے 85خاندانوں کو جمعیۃ علماء ہندکے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے مکانوں کی چابیاں سپرد کیں۔اس موقع پر کچھ متاثرین سے جب میں نے گفتگو کی تو ان کے اندر کا درد آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں بہہ نکلا۔ وکیلہ نامی ایک عمر رسیدہ خاتون نے کہاکہ اسے ایک چھت مل گئی اب یہاں وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ سکون سے رہے گی۔لیکن اسے اپنے پرانے گھر کی یاد اب بھی آرہی ہے۔ سسولی کے رہنے والے نفیس احمد نے کہا کہ آج میں بہت خوش ہوں اور مولانا سید ارشد مدنی کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ ان کی خصوصی توجہ اور ہمدردی کے نتیجے میں مجھے ایک مکان مل گیا۔اگرچہ وہ خوش تھا مگر اس کے لہجے سے اس کا دکھ صاف چھلک رہا تھا۔شہزاد نامی ایک اور شخص سے جب  ہم نے پوچھا کہ آج وہ کیسا محسوس کررہا ہے تو وہ رو پڑااور غمگین لہجے میں بولا کہ بڑی خوشی کا احساس ہورہا ہے میں اب تک بے گھر رہا  مگر مولانا محترم کی وجہ سے ایک بار پھر مکان والا ہوگیا جس میں اب میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ سکتا ہوں۔  وکیل کا کہنا تھا کہ اسے اس بات کی خوشی ہے کہ آج مکان مل رہا ہے مگر اپنا گھر اور اپنی بستی چھوڑنے کا غم بھی اسے ہے۔ یہ پو چھنے پر کہ اب تو حالات پرامن ہیں اور بہت سے لوگ واپس گھروں کو جاچکے ہیں وہ کیوں نہیں گیا تو اس نے جواب دیا کہ فساد کی ہولناکی یاد کرکے میں آج بھی کانپ اٹھتا ہوں۔ جو کچھ ہوا اس نے ہمارے دلوں میں ایسی دہشت بٹھا دی ہے کہ ہم اپنے گھروں کو واپس جانے کا حوصلہ نہیں کرپائے۔ ایوب نامی ایک متاثر نے کہا کہ سسولی میں اکثریتی فرقے کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ ہم سارے مزدور لوگ ہیں۔ ہمارے پاس لے دے کر ایک گھر ہی تھا جو فساد کے دوران جلادیاگیا۔ اس نے کہا کہ میںنے کئی بار سوچا کی گھر لوٹ جاؤں مگر بال بچوں کے تحفظ کو لے کر خدشات دور نہ ہوسکے اس لئے واپس نہیں گیا۔ اسلام کو جب گھر کی چابی ملی تو اس سے خوشی چھپائی نہیں جارہی تھی۔ پوچھنے پر اس نے کہا کہ آج وہ بہت خوش ہے۔ اس کے بچوں کو رہنے کے لئے ایک چھت کا سایہ مل گیا۔اس کے لیے جمعیۃ علماء ہند اور مولانا مدنی کا جس قدر شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ہم نے متاثرین کے بچوں کو دیکھا وہ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ بچے نوتعمیر شدہ کالونی کے درمیان  کھیل رہے تھے۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہو تو ان کا کہنا تھا کہ ہم جہاں کیمپوں میں رہتے تھے وہاں کوئی اسکول نہیں تھا۔اللہ بھلا کرے مولانا مدنی کا کہ انہوں نے  ایسی جگہ ہمارے لیے کالونی تعمیر کروائی ہے جہاں سے اسکول اور مدرسہ کی دوری 100قدم ہے۔ بلاشبہ متاثرین کے بچوں کے لئے تعلیم بے حد ضروری ہے۔ آج یہاں ہزاروں  لوگوں کی موجودگی سے بہت خوش تھے ۔ اب یہ ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دے تاکہ بڑے ہوکر یہ بچے ملک و ملت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ فساد متاثرین کی  زندگی اب پٹری پر لوٹ آئے گی اور وہ فساد کی دلخراش یادوں سے خود کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اس سے قبل مولانا ارشد مدنی نے مکانوں کی چابیاں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ  اللہ کابے پایاں احسان ہے کہ مظفرنگر فسادکے بے گھر متاثرین کو رہنے کے لئے آشیانہ مل گیا اس میں اصحاب خیر کا تعاون شامل ہے ورنہ ہمارے پاس کیا ہے ہم توایک ہاتھ سے لیتے ہیں دوسرے خرچ کردیتے ہیں انہوں نے کہا کہ جن متاثرین کو ابھی مکان نہیں ملا ہے ان شاء اللہ ان کے لئے بھی رہائش کا انتظام بہت جلد ہوجائے گا مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ لوگ بے گھر کیوں ہوئے اور انہیں نقل مکانی پر کیوں مجبورہونا پڑا؟انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں بھائی چارہ میل میلاپ امن وامان ہوتا اور محبت واخوت کی ہزارہاسال پرانی تہذیب کو ختم نہ کیا جاتا تو شاید لوگوں کو بے گھری پر مجبورنہ ہونا پڑتا یہ وہ لوگ ہیں جو خوف وہشت کی وجہ سے اپنے گھروں کو واپس جانے کا حوصلہ نہیں کرپارہے ہیں مولانا مدنی نے کہا کہ ہماراملک تو ہزاروں سال سے امن واتحاد کا گہوارہ رہا ہے ، مگر کچھ لوگ اپنی نفرت کی سیاست سے اسے تباہ وبرباد کردینے پر آمادہ ہیں انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے والوں کو سوبار اپنے گریباں میں جھانکناچاہئے اور نیوزی لینڈجیسے چھوٹے ملک سے سبق حاصل کرنا چاہئے جس نے انسانیت اور محبت واخوت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔