Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 13, 2019

نئی بزم نئی محفل۔


___________صداۓوقت_____
حمزہ فضل اصلاحی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
وہ دن لد گئےجب شاعرکسی کو اپنی غزلیں سنانے پر مجبورکرتاتھا، چائے پلاتا تھا ،طرح طرح سے اس کی   منت سماجت کرتا تھا۔ شاعر اپنے سامع کو کچھ اس طرح مناتا: ’’ارے بھائی کہاں جا رہے ہو ، زیادہ نہیں سناؤںگا۔ ‘‘ اس کے جواب میں سامع (جھیلر پڑھئے) کہتا: ’’نہیں میں کچھ نہیں سنوں گا، بہت بور کرتے ہو ، جب دیکھو غزل سناتے رہتے ہو ... کوئی اور نہیں ملتا ’بھیجا ‘کھانے کیلئے...‘‘ تو شاعر مسکراکر کہتا’’ اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟ زیادہ نہیں صرف مطلع سن لیں ۔‘‘
شاید اب اس طرح کے دلچسپ مکالمے کم کم سنائی دیںگے یا ماضی کاقصہ بن جائیں گے۔افسانہ نگار اور نقادکو بھی فلسفہ بگھارنےکیلئےہوٹلوں کے چکر نہیں کاٹنے ہوں گے۔ غزل شائع کروانے کیلئے اپنے وجود کی جنگ لڑنے والے کسی رسالے کا سالانہ خرید ار بھی نہیں بننا ہوگا۔
’’ قلم کا کوئی کام نہیں، اب انگلیاں لکھتی ہیں۔‘‘کا مفہوم سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گےکہ آخر قصہ کیا ہے ؟ اس عہد میں آپ کے ذہن میں کوئی خیال آتا ہے ، غزل وار د ہوتی ہے ، یا کوئی کہانی سوجھتی ہے تو آپ کو کسی اخبار یا رسالے کے مدیر سے تعلقات بڑھانےیا خوشامد کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، موبائل اٹھا ئیں ، ٹائپ کریں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیں ، پل بھر میں ردعمل سامنے آسکتا ہے ، دادمل سکتی ہے ، تنقید کی بھی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر افسانہ اور شاعری فورمز کا سیلاب آیا ہے۔ آپ رکنیت حاصل کرنے کے بعدکسی بھی گروپ میں اپنی تخلیق پوسٹ کرسکتے ہیں لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک ہی تخلیق دس گروپس میں پوسٹ کی جاتی ہے۔ اکثر گروپس میںکچھ لوگ پابندی سے پوسٹ کرتے ہیں تو کچھ ان پر تبصرے کرتے ہیں۔ یعنی دیکھتے ہی دیکھتے کوئی نقاد بن گیا ہے تو کوئی خو دکو عظیم افسانہ نگار سمجھنے لگا ہے۔ فورمز پر کبھی کبھی بحثیں ایسی ہوتی ہیں کہ مذہبی مناظرے یاد آتے ہیں۔ زیادہ صاف لفظوں میں ادبی پوسٹ پر غیر ادبی تبصرے کئے جاتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ’ لائک ‘اور تعریفی تبصرے سننے کے عادت روز کچھ نہ کچھ لکھواتی ہے ، کیا ایسے میں پڑھنے کا موقع ملتا ہوگا؟ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا ۔ ظاہر ہے کہ جب پڑھنےسے زیادہ لکھنے پر زور دیا جائے گا تو مکڑی کے جالے کی طرح کمزور تخلیقات وجو دمیں آئیں گی۔ رسائل اور اخبارات میں شائع ہونے والی تخلیقات کئی مراحل سے گزرتی ہیں۔ اولا ً تو قلمکار ایسا لکھنے کی کوشش کرتا ہےکہ اس کی تحریر ہر حال میں شائع ہوجائے، نتیجتاً وہ محنت کرتا ہے ، اس پر نظر ثانی کرتا ہے ، وقتاً فوقتاً اساتذہ سے مشورے کرتاہے۔پھراخبار یا رسالے کا مدیرحسب ضرورت اصلاح کرتا ہے ، نتیجتاً فن میں پختگی اور خیالات میں وسعت آتی ہے ، غلطیوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ ادبی فورمزکےذمہ داروں کو اس پر غور کرنا چاہئے۔