Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, April 2, 2019

منفرد لب و لہجہ کے مشہور و معروف شاعر " طارق نعیم " کے یوم ولادت 2 اپریل کے موقع پر۔

طارق نعیم
تاریخ ولادت- ۲ ؍ اپریل ۱۹۵۷ء/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
طارق نعیم۔*۲؍اپریل۱۹۵۷ء* کو پیدا ہوئے۔میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول،سے کیا۔ انٹر سے بی اے تک کی تعلیم ایس ای کالج سے کیا۔ ایم اے (اردو ادب) پنجاب یونیورسٹی ، سے پاس کیا۔ اس وقت نیشنل بک فاؤنڈیشن ،  میں پبلک ریلیشنز افسر ہیں اور بک فاؤنڈیشن کے جریدے *’’ کتاب‘‘* کے معاون ایڈیٹر ہیں۔  ان کا شعری مجموعہ *’’دیے میں جلتی رات‘‘* کے عنوان سے شائع ہوگیا ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ *’’رکی ہوئی شاموں کی راہ داریاں‘‘* ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:419*۔
. . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*طارقؔ نعیم کےمنتخب اشعار ...*
اب آسمان بھی کم پڑ رہے ہیں اس کے لیے
قدم زمین پر رکھا تھا جس نے ڈرتے ہوئے
---
*پوشیدہ کسی ذات میں پہلے بھی کہیں تھا*
*میں ارض و سماوات میں پہلے بھی کہیں تھا*
---
ابھی پھر رہا ہوں میں آپ اپنی تلاش میں
ابھی مجھ سے میرا مزاج ہی نہیں مل رہا
---
*ابھی تو منصبِ ہستی سے میں ہٹا ہی نہیں*
*بدل گئے ہیں مرے دوستوں کے لہجے بھی*
---
اٹھا اٹھا کے ترے ناز اے غمِ دنیا
خود آپ ہی تری عادت خراب کی ہم نے
---
بے وجہ نہ بدلے تھے مصور نے ارادے
میں اس کے خیالات میں پہلے بھی کہیں تھا
---
ترے خیال کی لو ہی سفر میں کام آئی
مرے چراغ تو لگتا تھا روئے اب روئے
---
جمال مجھ پہ یہ اک دن میں تو نہیں آیا
ہزار آئینے ٹوٹے مرے سنورتے ہوئے
---
*خوش ارزانی ہوئی ہے اس قدر بازارِ ہستی میں*
*گراں جس کو سمجھتا ہوں وہ کم قیمت نکلتا ہے*
---
زمین اتنی نہیں ہے کہ پاؤں رکھ پائیں
دل خراب کی ضد ہے کہ گھر بنایا جائے
---
*رات رو رو کے گزاری ہے چراغوں کی طرح*
*تب کہیں حرف میں تاثیر نظر آئی ہے*
---
عجب نہیں در و دیوار جیسے ہو جائیں
ہم ایسے لوگ جو خود سے کلام کرتے ہیں
---
*عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے*
*شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے*
---
*وہ آئینہ ہے تو حیرت کسی جمال کی ہو*
*جو سنگ ہے تو کہیں رہ گزر میں رکھا جائے*
---
کنارہ کر نہ اے دنیا مری ہست زبونی سے
کوئی دن میں مرا روشن ستارہ ہونے والا ہے
---
کوئی کب دیوار بنا ہے میرے سفر میں
خود ہی اپنے رستے کی دیوار رہا ہوں
---
کھول دیتے ہیں پلٹ آنے پہ دروازۂ دل
آنے والے کا ارادہ نہیں دیکھا جاتا
---
*یہ خیال تھا کبھی خواب میں تجھے دیکھتے*
*کبھی زندگی کی کتاب میں تجھے دیکھتے*
---
یہ ویرانی سی یوں ہی تو نہیں رہتی ہے آنکھوں میں
مرے دل ہی سے کوئی جادۂ وحشت نکلتا ہے
---
*کچھ اپنا درد ہی طارقؔ نعیم ایسا تھا*
*بغیر موسم گریہ بھی ہم غضب روئے*