Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 12, 2019

کنھییا کمار اور الیکشن 2019۔

*کنہیا کمار کی حمایت کیجئے لیکن مسلمانوں کا یہ جذباتی لگاﺅبرہمنواد کی نمایاں کامیابی ہے*
✍ *شمس تبریز قاسمی*/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کنہیا کمار نوجوان ،بیباک اور متعدد طرح کی صلاحیتوں کے پیکر ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کا پارلیمنٹ میں پہونچناجمہوری ملک میں ضروری ہے ۔ ملک کی سول سوسائٹی کنہیا کمار کے ساتھ ہے ۔ہندوستان کی مسلمانوں کی بھی کنہیا رکما ر کوغیر مشروط اور بھر پور حمایت حاصل ہے ۔امید یہی ہے کہ کنہیار کمار بیگوسرائے کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور نوجوان ممبران پارلمینٹ کی تعداد میں ایک اور اضافہ ہوگا ۔
جے این یو طلبہ یونین کی تحریک سے کنہیا کمار نکل کر آئے ہیں ۔ان کے ساتھ عمر خالد اور شہلا رشید کا نام بھی سرفہرست تھا جس میں کنہیار کمارکو ملک کے چینلوں سے سب سے زیادہ آگے بڑھایا۔ سول سوسائٹی کے دیگر افراد کی طرف انہوں نے بی جے پی اور مودی حکومت کی پرزور مخالفت کی ، آرایس ایس کی تنقید کی اور یہیں سے ہندوستان کے مسلمانوں میں اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی ۔آج جب وہ بیگوسرائے سے الیکشن لڑرہے ہیں تو فیس بک سے لیکر حقیقی بول چال میں عام مسلمانوں سے لیکر تعلیم یافتہ طبقہ سبھی کا مانناہے کہ کنہیار کمار کا جیتنا ضروری ہے کیوں کہ وہ بیباک ہے ۔ مسلمانوں کاہمدرد اور خیر خواہ ہے ۔و ہ آر ایس ایس کے خلاف بولتاہے۔ بی جے پی کی پالیسی پر کھل کر تنقید کرتاہے۔بی جے پی ترجمان سمبت پاتر کو منہ توڑ جواب دیتاہے۔ ایم پی بننے کے بعد وہ ایوان میں مسلمانوں کی آواز بلند کرے گا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑے گا ۔معاملہ صرف یہاں تک نہیں ہے کہ بلکہ ملک کے متعدد علاقوں سے مسلم نوجوان وہاں جاکر کنہیا کمار کیلئے انتخابی مہم چلارہے ہیں ۔ آر جے ڈی کے امیدوار تنویر حسین سے پرچہ نامزدگی واپس لئے جانے کا مطالبہ کیا جارہاہے ۔علماءدعاﺅں کا اہتمام کررہے ہیں۔ وہاٹس ایپ پر ایک بڑے مدرسہ کے ایک استاذ کا خط بھی گردش کررہاجس میں انہوں نے تنویر حسن سے مطالبہ کیا ہے کہ آ پ براہ کرام پرچہ نامزدگی واپس لے لیں ۔

مسلمانوں کی اس جذباتیت اور لگاﺅ کو دیکھ کر لگتاہے کہ ہندوستان میں اب مسلمانوں کا مسیحا صرف کنہیا کمار ہے ۔2019 عام انتخابات میں مسلمانوں کی اولین ترجیح کنہیا کمار کی جیت ہے۔ وہی ان کے مسائل حل کرسکتاہے ۔ متعدد لیڈروں سے دھوکہ کھانے کے بعد اب مسلمانوں نے اپنا لیڈر کنہیار کما رکو بنالیاہے۔اب یہی نوجوان ہندوستان میں مسلمانوں کا آخری سہاراہے ۔
کسی کے ساتھ جذباتی لگاﺅ اور اسے اپنا مسیحا تسلم کرنے کا یہ کوئی پہلامعاملہ نہیں ہے ۔ماضی میں بھی مسلمانوں نے یہی کیاہے ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک چلارہے تھے اس وقت انہوں نے اپنا لیڈر موہن داس کرم چندر کو بنایا اور مہاتماگاندھی کا لقب دیا ۔ آزادی کے بعد انہوں نے پنڈٹ جواہر لال نہرو پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کیا ۔1980 کی دہائی کے بعد جب ذات اور علاقہ کی بنیاد پر ریجنل پارٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہواتو مسلمانوںنے یہاں بھی خود اپنی لیڈر شپ پیداکرنے اور اس پر توجہ دینے کے بجائے ریجنل پارٹیوں کے سربراہوں کو ہی اپنا لیڈر تسلیم کیا ۔ کہیں ملائم سنگھ یادو ،کہیں لالوپرساد یادو ۔کبھی مایاوتی ،کبھی چودھری چرن سنگھ ۔کبھی رام ولاس پاسوا ن ،کبھی ایچ ڈیو گوڑا ۔کبھی نتیش کمار جیسوں کو اپنا لیڈر مانا ،انہیں اقتدار کی کرسی تک پہونچایا ۔ آج مسلمانوں کو ان تمام سے شکوہ ہے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کا جذباتی استحصال کیا ۔ ووٹ لیکر مسلمانوں کو مکھی کی طر ح سیاست باہر کردیا۔دھوکہ اور فریب دیا ۔مسلمانوں کی ترقی اور فلاح وبہبود کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ آج ملائم سنگھ بی جے پی کی قصیدہ خوانی کررہے ہیں ۔ اڈوانی کی راتھ یاترا کو روک کر مسلمانوں کے سب سے بڑ ے خیر خواہ سمجھے جانے والے لالو پرساد یادو نے کچھ کئے بغیر ہی مسلمانوں کے ووٹ پر پندرہ سالوں تک حکومت کی ۔آج ان کی پارٹی کے انتخابی منشور میں لفظ مسلم تک کا تذکرہ نہیں کیاگیا ہے ۔ دلتوں سے وعدہ کیاگیا ہے مسلمانوں سے گریز کیاگیاہے ۔ ان کے بیٹے نے سینئر مسلم رہنماﺅں کو کنارے لگادیاہے ۔مایاوتی کب بی جے پی کا ہاتھ تھام لے اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے ۔
یہ تمام حقائق اور تاریخ کے صفحات میں درج واقعات کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کا شعور بیدار نہیں ہوسکاہے ۔ اپنی لڑائی خود لڑنے کی فکر پیدا نہیں ہوسکی ہے ۔دوسروں کی قیادت کی جگہ اپنی قیادت پیداکرنے کامزاج نہیں بن سکا ہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان برہمنواد کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں ۔ برہمنواد کے مشن اور ایجنڈہ کے وہ ایسے شکار ہوچکے ہیں کہ ان کا ذہن اس سے آگے نکل کر سوچنے اور سمجھے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی ذہنیت اب یہ بنادی گئی ہے کہ ٹی وی چینل پر آر ایس ایس کے خلاف دو لفظ بول دینے والے کووہ اپنا قائد،رہنما اور لیڈر ماننے لگے ہیں اور جو مسلمان رہنما برسوں سے سڑک سے لیکر سنسد تک ہماری آواز اٹھارہے ہیں ۔ مسلمانوں کے وقار اور حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ۔تعلیم ،صحت،پسماندگی ،جہالت ،روزگا اور دیگر میدانوں میں نمایاں کارنامہ انجام دے رہے ہیںان کو آج بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ بی جے پی ایجنٹ مانتاہے ۔ ان کی پارٹی کے بڑھتے قدم کو روکنے کی کوشش میں شب روز کام ہورہاہے ۔سوچ وفکر کا یہ تضاد سمجھ سے بالاتر ہے ؟
کنہیا کمار کی حمایت کیجئے ،ان کیلئے زوروشور کے ساتھ انتخابی مہم چلائیے لیکن ان یہ سوال بھی پوچھیئے کہ انہوں نے پرچہ نامزدگی کے موقع پر سبھی کو بلایا لیکن عمر خالد کو آنے سے کیوں روک دیا ؟ تنویر حسن کو آپ دعویداری واپس لینے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ وہ باآسانی جیت جائیں لیکن آپ کنہیا کمار سے یہ سوال کیوں نہیں کررہے ہیں کہ ان کی پارٹی نے سیوان سے حناب شہاب کے مقابلے میں اپنا امیدوا ر کھڑا کررکھا ہے جس کا اولین مقصد سیوان سے مسلم نمائندگی کو ختم کرنا او رشہاب الدین کے نام ونشان کو مٹاناہے ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے تین نمائندے میدان انتخاب میں ہیں ۔ اورنگ آباد اور کشن گنج کی سیٹ پر کانگریس امیدوار کی وجہ سے ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ ہے لیکن آپ نے کبھی ان دونوں جگہوں کے کانگریسی امیدواروں سے بیٹھ جانے کا مطالبہ نہیں کیا ۔ دہلی میںعام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں اور سیکولر افراد میں بے چینی ہے لیکن اسی کانگریس نے ہر ممکن کوشش کے باوجو د آسا میں یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد نہیں کیا تو آپ کے بدن پر جوں تک نہیں رینگی ۔ کسی نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔بنگال کی جنگی پورہ سیٹ پر مسلمانوں کے موقر رہنما ڈاکٹر قاسم رسول الیا س ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن لڑرہے ہیں لیکن ان کیلئے مسلمانوں نے کوئی جذبہ خیر سگالی نہیں دیکھا یا ۔ کوئی ان کی حمایت میں انتخابی مہم چلانے وہاں نہیں پہونچا ۔ایس ڈی پی آئی نے پندرہ امیدواروں کو میدان میں اتاراہے جس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں سول سوسائٹی اور متعدد این جی اوز سے وابستہ تقریبا ہمارے دس دوستوں نے فو ن کرکے کہا شمس بھائی ہم بیگوسرائے میں ہیں ۔ کنہیا کیلئے انتخابی مہم چلارہے ہیں ۔ ذرا ایک اسٹوری چلا دیجئے لیکن کسی نے اپنوں کی حمایت میں کوئی مہم چلانے کی فکر نہیں کی ۔
ایک ہندوستانی شہری ہونے کے ناطے ہمارا احساس ہے کہ کنہیا کمار کو ملک کی پارلیمنٹ میں جانا چاہیئے لیکن دوسری طرف ہمیں اس با ت پر حیرت اور افسوس بھی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت آج تک اپنی لیڈر شپ پیدا نہیں کرسکی ہے ۔اپنی لڑائی خود لڑنے کی جرات اور ہمیت پیدا نہیں ہوسکی ہے ۔چند ایک لوگ جو اس طرح کی کوششیں کررہے ہیں انہیں بھی ہماری ہی قوم بی جے پی ایجنٹ کہہ کر مسترد کردیتی ہے ۔بیرسٹر اسدالدین اویسی ہمارے سامنے ایک واضح مثال ہیں جن کی پارلیمنٹ میں کارکردگی ہمیشہ بہت اچھی رہی ہے ۔ وہ بیباکی کے ساتھ مسلمانوں ،دلتوں ،کمزوروں اور آدی واسیوں کے مسائل اٹھاتے ہیں ۔ ہمیشہ بی جے پی کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ہندوستان کے سوا سو کڑور لوگ انہیں سنتے ہیں لیکن ابھی تک ان کے بارے میں ایک طبقہ کی ذہنیت ہے کہ وہ بی جے پی ایجنٹ ہیں ،مسلمانوں کو سیاسی طور پر بیدا کرنے کی کوششیں بی جے پی کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں دوسر ی طرف کنہیا کمار چند ایک تقریروں اور ٹی و ی چینل پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف بولنے کی وجہ سے مسلمانو ں کے مسیحا بن گئے ہیں۔یہ وہی کنہیا کمار ہیں جن کو اویسی کی سیاست پسند نہیں ہے ۔کانگریس کی ریلی میں حید رآباد کی سرزمین پر وہ مجلس کی تنقید کرتے ہیں ۔
کنہیا کمار کی حمایت کیجئئے ۔اسے کامیاب بنائییے لیکن اپنی لڑائی خود لڑنے کی فکر کیجئے ۔ اپنی قیادت پر بھروسہ اور اعتماد جتائیے ۔70 سالوں سے آپ دوسروں کو لیڈر بناتے آرہے ہیں اب کچھ اپنی لیڈر شپ پیداکرنے کا بھی تجربہ کرکے دیکھیئے ۔خدانہ کرے کہ کل ہوکر کنہیا کمار بھی ملائم سنگھ ، مایاوتی اور لالو پرساد کی نظیر بن جائیں لیکن اگر وہ بد ل جاتے ہیں تو اس وقت آپ کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتے ہیں ۔ممکن ہے اس وقت کوئی اور ماحول ہوگا اور ایک نیا لیڈر آپ کو مل جائے گا جس کے تئیں بھی اس وقت آپ کا یہی گمان ہوگا یہ ہمارے حقوق کی جنگ لڑے گا ۔