Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 12, 2019

شکریہ۔ ۔۔جگنیش میوانی۔ ۔۔لیکن " 2019 کا سیاسی دنگل۔

از / سمیع اللہ خان۔ / صدائے وقت۔
۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج تک میں نے عوامی سطح پر نوجوان دلت لیڈر  جگنیش میوانی جسے لیڈر بھی  ہم مسلمانوں نے ہی بنایا، اس سے اپنے تعلق کا اظہار کبھی  نہیں کیا، لیکن تعلق بہرحال تھا، البتّہ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں جگنیش میوانی نے اپنا اصلی چہرہ دکھا کر ہمیں ایک بڑی غلط فہمی سے باہر نکال دیا، اور وہ غلط فہمی یہ تھی کہ ہندوستان میں ہزاروں برسوں سے غلامی میں جکڑے ہوئے لوگ جنہیں کبھی دلت، تو کبھی شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کہا جاتاہے یہ طبقات مسلمانوں کے ساتھ خلوص یا وفاداری کرسکتےہیں، یہ صرف اور صرف ایک غبارہ ہے جس کا استعمال یہ غلام قومیں کرتی رہتی ہیں اور ہمارے سہارے اپنی زمین مضبوط کرکے ہمیں آنکھیں دکھانے لگتی ہیں، ویسے ان غلاموں کی تاریخ اسی سے بھری پڑی ہے اور یہی وجہ ہیکہ ہزاروں سال کی مظلومیت اور بدترین سماجی استحصال نے بھی انہیں آج بھی غلام بنائے رکھاہے، غلاموں کی نفسیات میں اکڑنا، غداری کرنا اور بدترین چالیں چلنا ہوتاہے جس کا ظہور ہمیشہ سے ہوتا رہاہے، جب کبھی مسلمانوں نے ان دلت غلاموں کو سہارا دے کر آگے لانے کی کوشش کی یا اوپر اٹھانے کی کوشش کی ہر بار انہوں نے ایسا ہی نتیجہ پیش کیا جسے دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی اپنے مزاج کے برخلاف ان سطور کا سہارا لینا پڑرہا ہے… ؎

کتنے کم ظرف ہوتے ہیں یہ غبارے، چند سانسوں میں ہی پھول جاتےہیں
جب یہ  عروج پاتے ہیں ،
  اپنی اوقات بھول جاتے ہیں

۲۰۱۹ کے لوک سبھا الیکشن میں ہم لوگوں نے کھل کر بیگو سرائے کی سیٹ سے کمیونسٹ نوجوان کنہیا کمار کی تائید کی، ان کی حمایت کا اعلان کیا، گرچہ ان کا مدمقابل وہاں ایک مسلمان بھی ہے، لیکن قابلیت اور جذبات کی بنیاد پر ہم نے مذہب کو آڑے نہیں آنے دیا اور کنہیا کمار کے لیے اپیل بھی کی، اس کے بعد گجرات کے ایم ۔ ایل ۔ اے، جگنیش میوانی بھی بہار پہنچے اور کنہیا کمار کے لیے الیکشن مہم کا حصہ بنے، بہت اچھی بات ہے، لیکن اس کے بعد جگنیش میوانی بہار کے ضلع سیوان جاپہنچے، اور وہاں سے مضبوط و مؤثر مسلم لابی کے خلاف الیکشن مہم چلانے لگے، سیوان مشہور سیاستدان اور دبنگ لیڈر شہاب الدین کا علاقہ ہے جنہیں سیاست نے اپنا شکار بنا رکھا ہے لیکن ان کا دبدبہ آج بھی قائم ہے اور باوجود سیاسی کارروائیوں کے اس بار ان کی بیوی حنا شہاب یہاں سے الیکشن لڑ رہی ہیں اور وہ کامیاب بھی ہوں گی، لیکن جگنیش میوانی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ایک امیدوار کی حمایت میں سیوان ضلع میں حنا شہاب کے خلاف ماحول بنا رہےہیں، اس صورتحال سے بشمول ہمارے،  کئی ایک مسلمان سماجی کارکنوں کو تکلیف ہوئی، جب جگنیش سے پوچھا گیا تو پہلے یہ کہا کہ میں سیوان چناؤ پرچار کے لیے نہیں بلکہ کسی کی تعزیت کے لیے آیا ہوں، جب یہ کہا گیا کہ یہی ٹائمنگ تھی کیا تعزیت کے لیے تو، فیسبوک پر پوسٹ کرکے سوال کرنے والوں کو گدھا اور بے وقوف کہا، پھر کچھ گھنٹوں بعد پوسٹ کرکے خود سے اختلاف کرنے والوں کو ذہنی مریض اور جانے کیا کیا کہا، ظاہر سی بات ہے سوال کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ان کی بنیاد میں شامل ان کے محسنین تھے، ان سے سوال کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہر برے وقت میں ان کا ساتھ دے کر انہیں ایم۔ایل۔اے بنوانے والے مسلمان تھے، جن میں یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کے بانیان، اور ملک کے مظلوم مسلمانوں کے مشہور لیڈران، ندیم خان اور خالد سیفی سرفہرست ہیں، جگنیش کے لیے ان کی قربانیاں اور جدوجہد کا ایک زمانہ گواہ ہے، لیکن سچ ہی ہیکہ کم ظرف انسان  طاقت اور منصب ملنے کے بعد  اپنے اصل خمیر کی طرف لوٹ جاتاہے، چنانچہ اس بدبخت نے بھی وہی کیا اور اپنے محسنوں اور مخلصوں سے کسی عام چپراسی کا سا برتاؤ کیا_

*میں بھی اسے نظرانداز کرسکتا تھا لیکن جگنیش کے موجودہ رویے سے ایک بات چھلک چھلک کر باہر آرہی ہے، وہ یہ کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ نظریاتی اختلاف ہی نہیں بلکہ انتقامی دشمنی کا جذبہ بھی ان کے دل میں ہے، جس شخص کی حمایت میں حنا شہاب کے خلاف یہ بندہ سیوان میں کام کررہاہے اس کے پس منظر میں بھی ایسی ہی قتل و خون کی ایک داستان ہے، اور جس حقارت آمیز انداز میں مسلم قوم کو اس نے متکبرانہ انداز میں مخاطب کیا ہے اس سے یہ بھی واضح ہورہاہے کہ جناب کے بگڑے دماغ میں یہ بات سمائی ہوئی ہیکہ مسلمان ان کے آگے مجبور و لاچار ہیں، یہ شخص شاید بھول گیا ہےکہ ہم لوگ بد سے بدتر حالت میں بھی مال و متاع اور جان و زیست سے زیادہ قومیت کو ترجیح دیتےہیں، اگر تم اپنی کوئی پرانی رنجش کے چلتے دلت قومیت اور انتقامی کمیونزم کے بینر تلے ہم پر تیر و نشتر برسا سکتے ہو تو،  اس کے لیے تمہیں بھی تیار رہنا ہوگاکہ ہم بھی قوم پرستی اور اپنی اسلامی کمیونٹی کے بےدام غلام ہیں، جگنیش میوانی تم ضرور جاتے اپنے موقف پر کام کرنے کے لیے، لیکن سیدھے منہ دو بول کہہ کر چلے جاتے، تم اپنے آپ میں یقینًا خودمختار ہو لیکن ہم مسلمان جسے اپنا بناتے ہیں اس سے دماغی رشتے کم اور دلی تعلق زیادہ بناتے ہیں کم از کم اس کا خیال کرلیتے، لیکن تم پر طاقت اور منصب کے نشے نے صدیوں پرانی تاریخ کا انتقام سوار کردیا ہے، خیر کوئی بات نہیں، ایسے بہت سارے ہماری تاریخ میں آئے اور چلے گئے،سب ہمارے ٹکڑوں اور کندھوں پر سوار ہوئے ہیں اگر تمہیں احسانات کی جگہ نظریاتی انتقام یاد آرہے ہیں تو یاد رکھو تاریخ کے معاملے میں ہم لوگ مزید حساس واقع ہوئے ہیں، ہم کچھ بھی نہیں بھولے ہیں، تمہارے گاندھی اور امبیڈکر بھی انہی کاندھوں پر سوار ہوکر آئے اور چلے گئے، سبھی  ہم سے اپنا اپنا وجود لے کر چلے گئے لیکن ہم لوگوں نے آج تک کسی سے  کچھ نہیں لیا، ہم لوگ آخری سانس اور آخری قطرۂ خون تک غیور خوددار اور تم سب سے بڑھ کر قوم پرست ہیں، ایک بار پھر  ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے شکریہ، لیکن آئندہ کبھی غلطی سے بھی ہمارے پاس دلت مسلم تحریک کا جھنجھنا لیکر نہیں آنا،ویسے بھی آپ لوگوں کے ساتھ خواہ کتنی ہی ہمدردی کرلی جائے آپ لوگ عین وقت پر مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے میں دیر نہیں کرتے ویسے بھی پسماندہ لوگوں کا مصرف فسادات میں ہمارے خلاف استعمال ہونا اور پھر مندروں سے بھی دھتکارا جانا لکھا ہوا ہے، دلتوں کی ہر بڑی لیڈرشپ نے اسی مزاج کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیشہ قومی دلت تحریکات کو فروخت کیا ہے، مسلمانوں کو علی سہراب کی اس بات سے سبق لینا چاہیے کہ اگر سانپ مودی کی مخالفت کرے تو اس کا زہر کبھی کم نہیں ہوجاتا، یہ سبق اب گجرات کے مسلمانوں کو ازبر کرلینا چاہیے کیونکہ جگنیش بھی گجراتی ہیں، اسی طرح آجکل بہت سارے غلام بیک گراؤنڈ والے ملک بھر میں مسلم کاندھوں کی تلاش میں ہیں ان سے بھی ہوشیار رہیں، بہت ہوا ذلت یافتہ دلتوں کو سہلانا، اب ہم اپنا لیڈر خود ہی میں تلاش کرلیں گے_*

*سمیع اللّٰہ خان*