Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 25, 2019

ہیم وتی نندن بہوگنا ، ایک سیکولر رہنما۔۔۔۔۔۔یوم پیدائش 25 اپریل کے موقع پر اجلاس کا انعقاد۔

ایچ ۔این ب
ہوگنا۔۔(25/4/1919۔۔۔17/3/1989)۔
ہیم وتی نندن بہوگنا۔ ایک سیکولر رہنما کے عنوان کے تحت جلسے / میٹنگ کا انعقاد۔
نئی دہلی/ صدائے وقت/ رپورٹ ڈاکٹر ادریس قریشی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج اگر بہوگنا صاحب حیات ہوتے تو پورے سو سال کے ہوگئے ہوتے۔ 17 مارچ 1989کو انہوں نے اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔ ایک ایسا نیک دل انسان جو تاحیات کمزور اور مظلوموں کی طرفداری کرتا رہا۔ آج انکی یوم پیدائش کے موقع پر وہ تمام لوگ پریس کلب آف انڈیا دہلی میں اکٹھے ہوئے اور پرانی یادوں اور انکے ساتھ بتاے وقت کو یاد کیا۔ وقت بدل گیا۔ اب اسطرح کے قومی رہنماؤں کا پیدا ہونا بند ہوگیا۔ جو اپنی ذاتی زندگی سے زیادہ انسانیت پرست تھے۔ انکا ماننا تھا کہ کوئی ہو کسی مذہب یا ذات سے تعلق رکھتا ہو اسکی ترقی سے ملک ایک خوشحال ملک بن سکتا ہے۔ انکا ماننا تھا کہ ملک کی کچھ آبادی غیر ترقی یافتہ رہتی ہے تو ملک کا گراف نیچا ہی رہے گا۔ وہ سچے معنی میں ایک انسان پرست تھے۔ 1971 میں جب سینٹرل گورمنٹ میں وزیر مراسلات کا قلمدان انہیں ملا تو بمبی میں MTNL کے دفتر کا رسم افتتاح ہونا تھا۔ ملازمین ناریل وغیرہ لے آئے ۔ بہوگنا صاحب جب وہاں پہنچے اور یہ سب دیکھا۔تو انہوں نے ان ملازمین سے سوال کیا کہ یہ بلڈنگ سرکاری ہے اور اس میں سارا پیسہ گورنمنٹ کا لگا ہے جو ملک کے ہر باشندہ سے ٹیکس کے ذریعہ وصولہ
گیا ہے یا صرف ہندؤں نے اس میں پیشہ لگایا ہے۔ تمام ملازمین نے احساس کیا اور فیتا کاٹ کر اس کی رسم ادایگی ہوی یہ تھے بہوگنا جی۔
انہوں نے تاحیات اپنے اصولوں سے سمجھوتا نہیں کیا اسکے لئے چاہے انہیں کتنی ہی قربانی کیوں نا دینا پڑی ہو۔ حالانکہ انکی انہی وجہ سے لوگوں نے انہیں موقع پرست بھی کہا مگر تاریخ گواہ ہے کہ  اندرا جی کو انہوں نے دو بار تب چھوڑا جب وہ پوری طاقت سے حکومت میں تھیں۔ ١٩٧٧ اور ١٩٨٠ میں۔ اگر سمجھوتاوادی ۔مصالحت پسند ہوتے تو نہ ہی انکو وزیر اعلی کے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑتا اور نہ ہی ١٩٨٠ میں پارلیمنٹ سے۔ یہ انکے اصول ہی تھے جس کی وجہ  وہ اندرا گاندھی جیسی طاقتور شخصیت سے بھی ٹکرا گئے۔
یہ بہوگنا جی تھے جنہوں نے ١٩٨٠ میں ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی پارٹی بناتے وقت "سب کا ساتھ سب کا وکاس" نارا دیا تھا۔ وہ سہی معنیٰ میں اس میں یقین رکھتے تھے مگر ہماری بدقسمتی کہ آج اس نارے کو ہتھیانے والے کا رتی برابر اس پر عمل نہی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ جو فرقہ پرستی کی بات کرے اس کو وزارت کی کرسی سے نوازا جاتا ہے اور جن کے بزرگوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا اس سے وطن پرستی کا سرٹیفکیٹ مانگا جا رہاہے۔ اور مانگنے والے کون ہیں جو جنگ آزادی میں انگریزوں کے ساتھ کھڑے تھے اور جیلوں سے معافی نامہ دیکر واپس آے۔
بہوگنا جی اگر آج حیات ہوتے تو شاید برداشت نہیں کر پاتے۔ انہوں نے اپنی ساری  زندگی کمزورں ۔ مزدورں اور اقلیتوں کی لے وقف کر دی تھی۔ کیونکہ وہ خود انہیں حالات میں زندگی جی کر آگے بڑھے تھے۔
اس میٹنگ میں دو اہم مانگیں سینٹرل گورنمنٹ رکھی گئی ۔پہلی بہوگنا جی کو بھارت رتن سے نوازا جائے اور دوسرا پارلیمنٹ کے کیمپس میں ایک آدم قد مجسمہ لگایا جاے۔ اس میں شامل ہونے والوں میں جناب دھیرندر پرتاپ سابق وزیر اتراکھنڈ سرکار۔ ڈاکٹر ادریس قریشی۔‌نایب صدر آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی۔ مسٹر سنیل نیگی صدر اتراکھنڈ جرنلسٹ فورم۔ ڈاکٹر اجیت سنگھ۔ سریس نوٹیال صدر گرین پارٹی۔ ونود نوٹیال۔ ڈاکٹر افتخار اور بہت سے اہم شخصیات۔شریک رہے۔