Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 25, 2019

ڈاکٹر شکیل احمد سے اچانک اظہار بیزاری کیوں ؟؟


غفران ساجد قاسمی / صدائے وقت۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
سیاست بھی عجیب چیز ہے، کب کیا موڑ لے لے کوئی نہیں جانتا، اس وقت عام انتخابات 2019 کا زمانہ ہے، حالانکہ انتخابات تو عام ہیں یعنی لوک سبھا کا ہے، جسے پورے ملک میں منعقد ہونا ہے اور پورے ملک کی عوام کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں، ہمارے بعض احباب نے پورے انتخابات کو تین چار سیٹوں پر ہی محدود کردیا ہے، ایسا باور کرایا جارہا ہے کہ اگر یہ تین چار سیٹیں نہیں جیتی جا سکیں تو شاید پورا انتخاب ہی بیکار ہے، ان سیٹوں میں سرفہرست کشن گنج کی سیٹ ہے جہاں نوجوان دلوں کی دھڑکن اخترالایمان صاحب امیدوار ہیں، اخترالایمان صاحب جیسے بیباک، جرآت مند اور حق کی آواز بلند کرنے والے شخص کو پارلیمنٹ ضرور پہونچنا چاہیے یہ ان کا حق بھی ہے اور ہم سب ان کے لیے دل سے دعا گو بھی ہیں لیکن جس انداز میں تشہیر کی گئی وہ انداز حکمت و مصلحت اور دور اندیشی کے خلاف تھا، بہرحال کشن گنج کا الیکشن ختم ہوتے ہی وہاں کا شور تھم چکا ہے اور اب قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے، اللہ کرے کہ نوجوان دلوں کی امید بر آئے اور بھائی اخترالایمان صاحب پارلیمنٹ پہونچنے میں کامیاب ہو جائیں، اسی طرح دوسری سیٹ بیگوسرائے کی ہے جہاں سے جے این یو کے سابق طلبہ لیڈر کنہیا کمار میدان میں ہے، یہ شخص بھی اس لائق ہے کہ اسے پارلیمنٹ پہونچنا چاہیے تاکہ وہاں مظلوموں کی آواز بن سکے، ان دونوں سیٹوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر جو سب سے زیادہ ہنگامہ جس آخری سیٹ کے سلسلے میں ہے وہ متھلانچل کا دل کہا جانے والا مدھوبنی، مدھوبنی پارلیمانی سیٹ کی تاریخ رہی ہے کہ وہاں سب سے زیادہ مرتبہ کانگریس نے جیت درج کی ہے اس کے بعد کمیونسٹ اور بی جے پی نے، اس وقت بھی وہ سیٹ بی جے پی کے قبضے میں ہے، 2019 کے الیکشن میں مہا گٹھ بندھن نے عجیب کھیل کھیلا اور مدھوبنی سیٹ کو ایک ایسی پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا جس نے ابھی مدت رضاعت بھی پوری نہیں کی ہے، ایسے میں وہاں کے پرانے لیڈر کو ٹھیس پہونچنا یقینی تھا، اور بالآخر انہوں نے وہی کیا جو ایسے وقت میں ایک زخم خوردہ انسان کرتا ہے.
جو لوگ ڈاکٹر شکیل احمد سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر شکیل صاحب کبھی بھی پارٹی لائن سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اٹھاتے، پھر اتنا بڑا قدم اٹھانا جس میں خطرہ ہے کہ ان کا پورا سیاسی کیریئر ہی داؤ پر لگ جائے، بغیر کسی منصوبے اور بغیر کسی اشارے کے ڈاکٹر صاحب سے امید نہیں ہے، یقیناً ڈاکٹر صاحب نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے قبل اپنے حامیوں، اپنی پارٹی کے سینئر لیڈروں اور سیاست کے چانکیہ لوگوں سے ضرور مشاورت کی ہوگی، بغیر مشاورت کے اور بغیر کسی مضبوط منصوبہ بندی کے ڈاکٹر شکیل احمد ایسا نہیں کر سکتے ہیں، ڈاکٹر شکیل احمد تین پشتوں سے کانگریسی ہیں، دادا، باپ اور اب خود، وہ ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ میں کانگریسی تھا، کانگریسی ہوں اور کانگریسی ہی رہوں گا، کانگریس جیسی ملک کی سب سے قدیم پارٹی اور ملک پر سب سے زیادہ دنوں تک حکومت کرنے والی پارٹی کے برے دن بھی آئے اور اتنے برے دن آئے کہ بہت سارے کانگریسی لیڈران نے وفاداری بدلنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی، لیکن ڈاکٹر شکیل احمد نے ان برے دنوں میں بھی کانگریس کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا، انہیں زیادہ دنوں تک ایم پی بنے رہنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن بسفی اسمبلی حلقہ سے وہ تین بار ایم ایل اے رہے، بہار حکومت میں وزیر بھی رہے، ایک دور میں بہار کانگریس کے صدر بھی رہے، ایم پی رہتے ہوئے کئی وزارت سنبھالی اور وزارت داخلہ کی ذمہ داری بھی سنبھالنے کا موقع ملا جب کہ عموماً اس وزارت کی کرسی سے مسلمان کو دور ہی رکھا جاتا ہے، 2009 اور 2014 کا الیکشن ہارنے کے باوجود بھی پارٹی میں بڑے عہدوں پر فائز رہے، پارٹی کے ترجمان رہے، جنرل سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا، اور کئی ریاستوں کے انچارج کی ذمہ داری بھی بہتر طریقے سے سنبھالی.
اب جبکہ 2019 کا الیکشن جاری ہے، اپوزیشن پارٹیوں نے فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے لیے پورے ملک میں اتحاد کی شکل پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے، عظیم اتحاد کی عدم تشکیل میں بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں، یہاں وجوہات شمار کرانا میرا مقصد نہیں ہے، ہر سیاسی پارٹی کی اپنی سیاسی مجبوری ہوتی ہے،موجودہ الیکشن کو دیکھتے ہوئے البتہ اتنی بات تو اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ اب سیکولرازم کے نام پر کوئی اتحاد نہیں ہوتا ہے اگر کوئی اس کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے، اب صرف اور صرف ذاتی مفادات کی بنیادوں پر اتحاد کیا جاتا ہے، اس کی واضح مثال مدھوبنی کی پارلیمانی سیٹ ہے، کہ اگر سیکولرازم کو بچانے کی خاطر اتحاد کیا جاتا تو اس میں کانگریس کو نظر انداز کرکے ایسی پارٹی کو وہ سیٹ نہیں دی جاتی جس نے ابھی چلنا پھرنا تو دور کی بات رینگنا بھی نہیں