Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 8, 2019

بھاگل پور فسادات ، 30 سال بعد بھی متاثرین انصاف کے منتظر۔اعداد وشمار پر مبنی حقیقی تحریر۔۔۔۔۔ضرور پڑھیں۔


فائل فوٹو۔بھاگل پور فسادات 1989۔

فسادات میں 2300 لوگوں کو موت کےگھاٹ اتار دیا گیا ، اور 68 مساجد اور 20 مزاروں کو منہدم کیا گیا اور 600 پاور لوم اور 1700 ہینڈ لوم جلاکر خاک کر دیے گئے تھے ۔
بھاگلپور ۔ 07 نومبر 2018 / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ریاست بہار کے بھاگلپور شہر میں 25 اکتوبر 1989 کو مسلم کش فسادات میں 2300 لوگوں کو موت کےگھاٹ اتار دیا گیا ۔ پیش ہے اس پر خصوصی رپورٹ۔
بھاگلپور شہر یا تو ریشمی کپڑے کے لیے جانا جاتا ہے یا پھر سنہ 1989 میں ہوئے بھیانک فسادات کے لیے بدنام ہے۔
آج سے 30 سال قبل یعنی 25 اکتوبر 1989 کو بھاگلپور میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تھے اور کئی دنوں تک شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ اس فساد میں 2300 لوگوں کو موت کےگھاٹ اتار دیا گیا لیکن 30 سال گزرجانے کے باوجود فساد متاثرین کو اب بھی انصاف کا انتظار ہے۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق بھاگلپور میں تقریباً دو ماہ تک فساد جاری رہا اور ایک سو پچانوے گاؤں اس کی زد میں آئے۔
فسادات میں ایک ہزار بہتر لوگ ہلاک ہوئے، گیارہ ہزار پانچ سو گھر تباہ کیے گئے اور 48 ہزار لوگ بے گھر ہوگئے۔
اس کے علاوہ 68 مساجد اور 20 مزاروں کو منہدم کیا گیا اور 600 پاور لوم اور 1700 ہینڈ لوم جلاکر خاک کر دیے گئے۔
فسادات کے بعد آٹھ سو اٹھاسی کیسز درج کئے گئے لیکن ناکافی ثبوت کی بنیاد پر زیادہ تر کو داخل دفتر کر دیا گیا اور صرف ایک سو بیالیس ایف آئی آر زیر تفتیش آئیں۔
ان میں کل بارہ سو تراسی لوگوں کو ملزم بنایا گیا لیکن ابھی تک صرف دوسو لوگوں کو سزا سنائی گئی ہیں۔
بھاگلپور کی تنگ گلی کے ایک چھوٹے سےمکان میں رہ رہی ہیں فیروزہ خاتون، جو بھاگلپور فسادات کے متاثرین میں سے ایک ہیں۔
اس ہولناک فسادات کو تیس برس گزرچکے ہیں لیکن فیروزہ بی بی کو آج بھی وہ ہولناک منظر یاد ہے
جب شرپسندوں نے ان کے 13 سالہ معصوم بیٹے کو موت کےگھاٹ اتار دیا تھا۔ فیروزہ خاتون اب بھی اس صدمہ سے ابر نہیں پائی ہیں۔
فیروزہ کا خاندان ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے طویل عرصے تک مقدمہ لڑا اور گواہی دی اور بیٹے کے قاتل کو سزا دلونے میں انہیں کامیابی بھی ملی۔
لیکن تیس سال بعد اب بھی ان کا خاندان خوف کے سائے میں زندگی گزار رہا ہے، اس پر طرہ یہ کہ انہیں مرکزی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ تین لاکھ روپئے کا معاوضہ آج تک نہیں ملا، نوادہ بلاک کے ثمر خان بھی فساد متاثرین میں سے ہیں جنہیں تیس سال بعد بھی انصاف کا انتظار ہے۔
فساد متاثرین کی باز آبادکاری کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن محمد محمود کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف دینے والی بات یہ ہے کہ درجنوں لوگوں کو اب تک معاوضے کا انتظار ہے، اور یہ سب حکومت کے علم میں ہے اور افسران کی لاپرواہی کی وجہ سے ہورہا ہے۔
مسلم دانشور ڈاکٹر شاہد رزمی کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہے لیکن ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہمارے ساتھ ایسا سوتیلا برتاؤ کیوں کیا جاتا ہے۔
سنہ 1989 میں ہوئے بھیانک فسادات کی وجہ سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1100 کے قریب لوگوں کا قتل عام ہوا تھا جب کہ حقیقی اعداد و شمار 2300 سے زائد بتائے جاتے ہیں۔
بھاگلپور فسادات کے بعد جتنی بھی حکومتیں ریاست میں اقتدار پر قابض ہویں سب نے اقلیتوں کا ہمدرد ہونے کا دعوی کیا
لیکن سچائی یہ ہے کہ درجنوں لوگ ایسے ہیں جنہیں 30 سال بعد بھی نہ ہی انصاف ملا اور نہ ہی معاوضہ۔
بھاگلپور فسادات کی تحقیقاتی کمیشن نے یکم مارچ سنہ 2015 اپنی رپورٹ اس وقت کے وزیراعلی نتیش کمار کو پیش کی تھی۔ تحقیقاتی پینل کے صدر جسٹس (ریٹائرڈ ) این این سنگھ نے یہ رپورٹ پیش کی تھی۔ پرنسپل سکریٹری داخلہ عامرسبحانی نے اس رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے اس وقت کہا تھا کہ حکومت رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ضروری اقدامات کرے گی ۔
بھاگلپور کے لوگائیں نام کے علاقے میں مسلمانوں کا قتل اس لیے بھی لوگوں کے ذہن میں تازہ ہے کیونکہ وہاں مقتولین کی لاشیں ایک کھیت میں دفن کر کے وہاں سبزیاں لگا دی گئی تھیں۔ لیکن درختوں پر گِدھوں کے ہجوم نے اس کی قلعی کھول دی۔ کنویں کی تلاشی اور زمین کی کھدائی شروع کرائی گئی اور پھر گوبھی کے کھیت سے ایک سو آٹھ لاشیں نکلیں۔