Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 1, 2019

آئیے " قائد" منتخب کرکے مہر ثبت کرتے ہیں!!

توقیر بدر قاسمی

توقیر بدر القاسمی کی قلم سے۔/ صدائے وقت۔نذریعہ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
(ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
+918789554895)
. . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . 
آج جس عنوان کو موضوع بحث بنانا ہے،اسے ہم "قیادت"سے تعبیر کرسکتے ہیں.اس لفظ کی تشریح و تحقیق کے لیے جب دنیا جہاں کے قاموس ولغات، فرہنگ و ڈکشنریز سے ہم رو برو ہوتے ہیں تو مشترکہ طور پر سبھی بیک زبان ایک ہی بات کہتے نظر آتے ہیں،وہ ہے"انسانی جماعت کی مطلوب بہتر عمل و کردار کی طرف راہنمای"چناچہ مشہور و معروف انگلش لغت ویبسٹر میریم میں اسکی مختصر وضاحت "The ability to lead"
’’رہنمائی کرنے کی اہلیت‘‘ہی ہے۔دیکھیے متعلقہ لفظ کی بحث.اسی طرح عربی قاموس میں تفصیلی طور پر جوہری اشتراک کے ساتھ آپ کو یہی باتیں ملیں گی.فارسی اور اردو فرہنگ کا بیانیہ بھی یہی ہے.
دیگر مشہور سماجیات کے ماہرین کے مطابق قیادت و لیڈرشپ دراصل قوت ذہانت،انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان مجموعی صلاحیتوں کا ایسا مرکب ہے،جو ایک'فردِ واحد'کو سماج میں موجود الگ الگ صلاحیت و قوت کے مالک 'افراد کی جماعت'کو درپیش مسائل و مشکلات کا سامنا کرنے نیز کامیابی سے اسے حل کرنے لایق بناتا ہے،یہی نہیں بلکہ یہ انہیں بہت حد تک متاثر کرنے اور بسا اوقات کنٹرول کرنے کے قابل بناتا ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انسانی افراد اور ان کو درپیش چیلنجز مشکلات اور حل سے یہ بھی مترشح ہے کہ قیادت اور انسانیت دونوں لازم وملزوم ہیں.
واضح رہے قیادت وسیاست علم ریاضی پر مبنی جمادات،نباتات اور معدنیات کی حقیقت و بناوٹ پر مشتمل کویی مادی ساینس نہیں جسے سمجھنا اور اسکے نتائج بتانا آسان ہو،بلکہ یہ الگ الگ مزاج وعادات،رسوم و رواج اور کلچر و اطوار کے حامل حساس انسانی افراد پر مشتمل انکے عمل و کردار سے وابستہ ایک ایسا سماجی علم ہے،جسے 'لیڈرشپ یا قیادت'کے عنوان سے سمجھنا اور سمجھانا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔یہی وجہ ہے کہ کوئی لیڈر یا قاید اپنے متعلقہ مفید کام و کردار میں کتنا بھی ماہر و ہوشیار کیوں نہ نظر آئے،اس کی راہ متذکرہ بالا فلسفہ کی بنا پر ہمیشہ چیلنجز اور حیرتوں سے پُر ہوتی ہے۔البتہ یہ اور بات ہے کہ لیڈر یا قاید چیلنج کا مقابلے کبھی بھی تنہا نہیں کرتا،بلکہ اسکے پیچھے یا اسکے ساتھ ایک انسانی گروہ اور سماج ہوتا ہے،جس سے اسکی مشکلات بہت حد تک انفرادی نہ ہوکر اجتماعی بن جاتی ہے اور پھر اسکی حساسیت،مقبولیت و کراہیت قابل تحمل بن جاتی ہے،کیونکہ قیادت کی تعریف میں یہ بھی ہے کہ قائد کے ساتھ ایک گروہ یا تنظیم ضرور ہوتی ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کرنےاور ہر ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہی ہوتی ہے۔لیڈر کا کام بھی ہر مسئلے کو تن تنہا حل کرنا نہیں ہوتا،بلکہ اپنی پیروی کرنے والوں کو ان مسائل کے حل کرنے کے لئے تحریک فراہم کرنا ہوتا ہے۔
چناچہ اچھے لیڈروں کو اچھی طرح سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہے نتیجتاً وہ اپنے کام کے حوالے سے نہ صرف مسلسل سیکھتے رہتے ہیں،بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی آبیاری بھی حالات و واقعات کے تناظر میں کرتے رہتے ہیں۔لہذا کہا یہ جاتا ہے کہ حقیقی لیڈر وہ ہوتے ہیں جن میں کسی معاشرے کے انفرادی ارکان کی اجتماعی خواہشات اور توقعات کا پتہ چلانے کے لئے ضروری انفرادی ذہانت اور دوراندیشی کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں،یہ ہوتی ہیں تبھی وہ انفرادی مفادات کو ازسرنو ترتیب دے کر انہیں اجتماعی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں شامل کرپاتے ہیں.اس کے بعد میڈیا یا دیگر ذرائع تشہیر سے انہیں معاشرے کے مختلف طبقات کے سامنے قابل قبول انداز میں اس طرح پیش کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں،جس سے سماج کے افراد کے جذبات کو تحریک ملتی ہے اور وہ اس کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.
چناچہ آج محسوس کر سکتے ہیں کہ جب ہم میں سے کویی کسی مضبوط لیڈر کا تصور کرتا ہے تو تصور کرتے ہی ہمارے پردہ تخیل پر ایک ایسے فرد کی تصویر ابھرتی ہے،جو لوگوں کو مختلف گروہوں میں نہ منقسم کرتا ہے،نہ ہی وہ زورِ خطابت یا دوسرے جذباتی حربوں سے لوگوں کو اپنے مقام کا قائل کرنے میں کامیاب رہتا ہے،بلکہ اسکی جگہ ایک ایسے مضبوط لیڈر کی شبیہ ابھرتی ہے،جو دیانتداری،باہمی ہمدردی اور کامیاب انسانی حقوق کا قایل اور اس بابت متفکر ہونے کے ساتھ ساتھ ان تمام تر اہلیت وقابلیت کو سامنے لاتا ہے،جن سے وہ مسائل کے ایسے حل نکال لاتا ہے،جو سماج میں بسے انصاف پسند عوام کے لئے قابل قبول ہوتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ ان اوصاف سے لیس کس طرح ہوا جایے،اس بابت ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ایک انسان کے اندر بنیادی طور پر اس قیادت و لیڈر شپ کا آغاز اسکے گھر گھرانے سے ہوتا ہے۔مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے معاشرتی فرائض وسماجی مطالبات قبول کرنے کی عملا ذمہ داری نبھانی پڑتی ہے۔مختلف مذاہب و کلچر والے سماج میں رہنا اور اسکے سرد گرم حالات سے گزرنا یہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا رہتا ہے.انفرادی و اجتماعی پیش آمدہ چیلنجز کا سامنا کرنا،مظلوم و متاثرین کے کام آنا،دبے کچلے کا سہارا بننا،باطل پرست زور آوروں کا حکمت و طاقت سے پنجہ مڑورنا،قانون کے دایرے میں رہتے ہوئے قانون سے کھلواڑ کرنے والے کو قانون کی حکمرانی کا عملا احساس کرانا "جیو اور جینے دو"کو بھرپور طریقے سے نافذ کرنا جیسے آج کے وہ اوصاف وعادات ہیں،جن کو بخوبی برتنے والا قیادت و لیڈر شپ کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے.ایسے اوصاف کے حامل افراد ہی حقیقی قاید اور قوم وسماج کے آج آییڈیل و ہیرو ہوتے ہیں.بھلے وہ معروف و مروج معنوں میں اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر!
البتہ جہاں تک عصر حاضر میں سیاست اور طرزِ حکومت کی نوعیت نیز اسکے پس منظر میں قیادت کو سمجھنے کی بات ہے،تو اس بابت مشہور جرمن ماہر عمرانیات ماکس ویبر کی متعین کردہ درجہ بندی معاصر بیانیے میں بےحد کارآمد معلوم ہوتی ہے۔ویبر نے اس بابت انسانی عادات و رجحانات سے یہ کلیہ اخذ کیا کہ بعض افراد محض عادت کی بناء پر سیاسی قیادت کا اتباع کرتے ہیں،بعض کسی مخصوص شخصیت سے وابستگی کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں اور بعض اس لئے کہ سیاسی قیادت ان کے کسی نجی یا عوامی مفاد کے حصول میں مدد دیتی ہے۔
چناچہ سماجی مطالعہ اور تجزیہ بھی آج یہی بتاتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں یہ تینوں طرزہائے حکومت،مختلف انداز و اوتار میں نظر آتے ہیں.البتہ ویبر کی تشخیص کے مطابق،ان میں سے کوئی ایک، کسی ایک معاشرے میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔
یہاں ویبر کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ہمیں اپنے آس پاس بھی لیڈرشپ کی یہی تین منطقی اور مثالی اقسام نظر آجاتی ہیں۔چناچہ آج ہمارے معاشرے وسماج میں بھی یا تو ایسے افراد ہیں جو محض عادت کی بناء پر کسی روایتی قیادت کو (ووٹ سے انتخاب کر)قانونی حیثیت دیتے ہیں،یا پھر ایسے افراد ہیں جو کسی پُرکشش شخصیت سے وابستگی اور اعتماد کی بناء پر اسے قانونی حیثیت دیتے ہیں، انکے علاوہ جو بچ جاتے ہیں وہ ایسے افراد ہیں،جو اپنے مفادات کی بناء پر کسی قیادت کو منطقی اور قانونی قرار دیتے ہیں۔آج کی ملکی سیاست میں،پہلی درجہ بندی پر پورا اترنے والے قائدین میں راقم کے خیال میں مذہبی لیڈر،اپنی اپنی جات برادری کے سردار،جاگیردار اور اس قبیل کے دوسرے افراد نظرآتے ہیں۔انکو مشترکہ انسانی مفاد سے وابستہ جیسے صاف ستھری آب و ہوا،فضا،پختہ سڑک پُل پُلیا، تعلیم گاہیں اور طبی مراکز بینک و آمد ورفت کے وسایل جیسے مطالبات میں دلچسپی نہ کہ برابر دکھائی دیتی ہیں.یہ اپنے اپنے خول میں بند اپنی اپنی محدود سوچ کو ہی عام کرتے رہتے ہیں،جو بسا اوقات مفید کم البتہ سماج کے لیے مضر ضرور ثابت ہوتا ہے.دوسری درجہ بندی میں آج ان افراد کو لے سکتے ہیں جنکی فین فالوونگ کافی تعداد میں نظر آتی ہے.اس زمرے میں،خاندانی سیاسی پس منظر رکھنے والے ہر میدان میں ناکام اولاد،اسٹیج شو کرنے والے شاعر، گویّے،اداکار،اداکارہ و مخصوص ذہنیت کے فسادی وغیرہ کو رکھا جاسکتا ہے.ان کا کام بھی ملک و معاشرے کو ترقی کی سمت دینا نہیں،بلکہ بے کار و بے روزگار افراد بطور خاص نٹھلے نوجوانوں کو اس طرح بے حس بنانا ہوتا ہے کہ ان میں روزگار و معاش اور ترقی کی کویی حس ہی باقی نہ رہے.جبکہ تیسری درجہ بندی میں بیوروکریسی کی مختلف اشکال کے افراد وعناصر قیادت و اختیار کے مراکز نظر آتے ہیں، انکا کام بھی حسب عادت کچھ کام تو اسکے پیچھے موٹے موٹے دام بشکل رشوت نمایاں ہوتے ہیں.
ان تمام تر بیانیے کے بعد قابل ذکر امر یہ ہے کہ آج عالمی سطح پر دنیا جہاں کے نقشے پر جتنی ریاست ہیں سب اپنے سربراہ سے لیس ہیں.جتنی مملکت اور ممالک ہیں سب کے سربراہانِ مملکت صدور اور وزرائے اعظم کے القاب سے ملقب موجود ہیں.انکے وجود و شہود میں کسی کو شک نہیں،البتہ سوال یہ ہے کہ آیا انکا وجود ہی قیادت سے عبارت ہے؟یا یہ اپنے اپنے عمل و تقاضے کی بنا پر متضاد ہیں؟آیا قیادت اپنے متذکرہ بالا أوصاف کے ساتھ متحرک وفعال ہے یا فقط ایک نمایشی وآرایشی منصب کا استدلال ہے؟ناقدین و ماہرین تو یہی کہتے ہیں کہ حکمرانوں کا وجود تو ہے البتہ قیادت کا فقدان ہے۔قیادت کی حقیقت اور حکمرانوں کی حرکت بھی اسی کی تائید کرتی ہے.نیز مشاہدات میں بھی یہی آتا رہتا ہے کہ آج کا قاید وہی سیاستدان یا حکمران ہوتا ہے جو فقط ناک کی سیدھ میں دیکھتا ہے.یعنی اسے فوری فائدہ مطلوب ہوتا ہے.ملکی واقعات آیے دن اس بات کی شہادت دیتے رہتے ہیں کہ ان قایدوں کا ظرف خالی اور دامانِ خیال تنگ ہوتا ہے.آیے دن انکے بیانات و خیالات اس بات کے غماز ہوتے ہیں کہ اُن جیسے نام نہاد لیڈر سے کسی غیر معمولی انسانی کارنامے، انسانی فلاح و بہبود پر مبنی نظریاتی اور جوہری تبدیلی کی توقع کرنا عبث اور بے کار ہے،کیونکہ قائد تو انکے برعکس سراپا ویژنری visionary ہوتا ہے، وہ وقتی جوش وجذبات سے اوپر اٹھ کر دیرپا نفع انسانیت والے امور کی خاطر سوچنے سمجھنے والا مُدَبِّر ہوتا ہے.وہ ایک بے حس مشین یا جذبات سے مغلوب جانور کی طرح صرف ناک کی سیدھ میں نہیں،بلکہ اپنی چشمِ بصیرت و روشن دماغی سے شش جہات پر نظر رکھتا ہے اور دور تک دیکھتا ہے. اپنی حکمت عملی اور تدبر سے کام واقدام ایسا کرتا ہے کہ وہ صدیوں ذکر خیر کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے. وہ بنا سوچے سمجھے بھیڑ چال کی طرح اندھا دھند چھلانگ نہیں لگاتا، بلکہ ایک فلسفی اور مدبر بن کر'ماضی کے تجربات'سے کشید کردہ کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے کر مستقبل کی پالیسی طے کرتا ہے.ان تمام تر ترجیحات و اقدامات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر امکانات کی ایک دنیا اُس کے سامنے دامن پھیلائے دراز سے دراز تر ہوتی چلی جاتی ہے.اُس کے اقدامات سے نہ صرف اسکے ہم عصر بلکہ آنے والی نسلیں تک مستفید ہوتی ہیں.اسکی سب سے بڑی خوبی اور قابل تعریف وتحسین بلکہ قابل تقلید عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ خوشامدی طبقے اور چشمِ بصیرت سے عاری مصاحبین کی مدح وستائش سے بے نیاز ہوتا ہے۔اُسے شدت سے اس بات کا ہرپل احساس ہوتا رہتا ہے کہ انسان معمولی ہو یا غیر معمولی اسکے جانے کے بعد اسکے کارنامے یا کرتوت پر خوشامد پسند افراد یا نفرت سے آلودہ ذہن متعصب أفراد یا بھگت نہیں‘بلکہ معروضی انداز میں تحقیق وتجزیہ کرنے والے مورخین فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی شخص کا مقامی لیڈروں یا عالمی رہنمائوں میں مقام ومرتبہ کیا تھا.اسے اسکی حساس طبیعت اور اخاذ ذہنیت ہمیشہ یہ یاد دلا کر بیچین کیے ریتی ہے کہ اقتدار میں رہتے ہویے گن گان کرنے والے تو مل ہی جاتے ہیں،آیا بے اقتدار ہونے پر اُس نے اپنی قوم اور عالَم انسانیت کو کیا فیض پہنچا یاہے،اسکا جب جایزہ لیا جایگا تو ہمارا شمار کس قطار میں ہوگا؟اسے یہ سوچ ہمیشہ متفکر کیے رہتی ہے کہ آیا ہماری اقدامات سے ترقی کا پہیہ جام ہوگیا،یا وہ ترقی کی طرف رواں دواں ہے؟آیا ہماری حرکات سے ملک وسماج بہت پیچھے چلا گیا یا ان میں مل جل کر کچھ بہتر کرنے کا جذبہ انگڑائی لینے لگا؟آیا ہمارے لیے گیے فیصلے سے افکار واذہان جمود کا شکار ہوگیے،یا وہ تخلیقی سوچ واپروچ میں عالمی برادری کا ہم پلہ بن رہے ہیں؟آیا ہمارے سماجی رویے سے ہمارا معاشرہ عدمِ استحکام‘انتشار اور تشَتُّت وتفریق کی نذر ہوگیا یا باہمی تعلقات کی بے نظیر مثال بن کر بلندیوں کی ٹاپ پر پہنچا؟یہ سوچ انہیں نہ صرف متفکر کیے رکھتی ہے،بلکہ بہتر نتائج دینے والے اقدامات کی طرف متحرک کیے رہنا اسکی شناخت ہوتی ہے.
ان تمام تر معروضات اور روز مرہ مری و غیر مری ورچوئل ڈیجیٹل سیاسی حادثات و رجحانات کی روشنی میں ملک عزیز کے موجودہ سیاسی چغادریوں بلکہ دھما چوکڑی مچانے والے نام نہاد منتخب یا متوقع قایدین،کا جایزہ لیں،تو ایک بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ انکو 'نتیجہ خیز قیادت'سے نہیں فقط اپنی'پر تعیش زندگی'سے مطلب ہے.انکو ملک کی ترقی سے نہیں،اپنی شہرت و ناموری سے غرض ہے.انہیں سماج و معاشرہ میں باہمی رواداری کے فروغ سے نہیں،اس کی جڑ کاٹ کر افراتفری مچایے رکھنے سے سروکار ہے.اسے تخلیقی اذہان کے مالک کو تحفظ و روزگار فراہم کرکے ملک ومعاشرے کو آگے لیجانے کی نہیں،بلکہ انہیں بے روزگار رکھ کر فساد و بگاڑ کا نرم چارہ بنانے کی فکر ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ ملک ومعاشرے کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اکیسویں صدی میں آگے لیجانے کی فکر کرنے والے علمی، فکری و تحریکی قایدین مہیا کرنے کے بجاے، بے بصیرت مجرمانہ کردار کے حامل فسادی اور نچنیے،گویے و اسٹیج ڈانسروں اور خاندانی سیاسی پس منظر رکھنے والے ہر میدان میں ناکام اولاد
کو بچیثت قاید چننے کا آپشن دیا جارہا ہے.جبکہ دنیا جانتی ہے یہ بیچارے علمی و تحریکی دنیا میں ناکام ہونے کی وجہ سے ہی فساد یا ناچ گانے یا پھر ماں باپ والی پشتینی سیاست کو اپنا پروفیشن بناتے ہیں.ان میں سے بہتوں نے پڑھ لکھ کر کچھ بننے کا خواب دیکھا ہوتا ہے،مگر وہ حالات یا عادات کے مارے اس راہ کو چننے پر مجبور ہوجاتے ہیں.یہ اور بات ہے کہ میڈیای چمک دھمک اور رنگ و نور کی روشنی میں انہیں نہا سجا کر اس طرح صاف ستھرا پیش کیا جاتا ہے کہ پھر یہی ملک ومعاشرے میں بھرے پڑے خالی دماغ و خالی اوقات،نٹھلے نوجوانوں کے آییڈیل بن جاتے ہیں.رہی سہی کسر فنون لطیفہ اور آرٹ کلچر کے عنوان سے بہتر پرفارمنس کے نام پر سرکار انہیں ایوارڈ سے نواز کر پوری کردیتی ہے.پھر انکی فین فالو ونگ کو دیکھتے انہیں پارٹی ٹکٹ تھماتی ہے اور وہ ووٹ سے منتخب ہوکر انکے نمایندہ بن کر پارلیمنٹ پہونچ جاتے ہیں.یہ اور بات ہے کہ انکے یہ محبوب نمایندے جب ضرورت کے وقت ملکی پیمانے پر مناسب نمایندگی نہیں کرتے ہیں تو پھر انہیں ڈھونڈنے کے لیے یہی متبعین "تلاش گمشدہ"کا پوسٹر بھی اپنے علاقے میں چسپاں کرتے دکھائی دیتے ہیں.
دس سالوں قبل ایک فلمی دنیا کے ڈانسر کلاکار گووندا کے لیے ایسے پوسٹرز اخباروں کی سرخیاں بٹور چکے ہیں،اسے مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے.
چناچہ آج جب اس طرح کے رجحانات سامنے آرہے ہیں تو سوشل میڈیا پہ پڑھا لکھا ملک کا بابصیرت نوجوان اپنا غصہ الگ الگ انداز سے ظاہر کر رہا ہے. مثلا ایک نوجوان نے اپنا غصہ اس طرح ظاہر کیا"جنکو صحیح سے لکھنا پڑھنا نہیں آتا انہیں فقط ناچ گا کر یا آتنک وفساد مچاکر شہرت بٹورنے کے بل پر ملک کا بھوش سونپا جارہا ہے.کیا وہ ساینس یا ایجادات کے میدان میں کچھ کرپاییگا؟"
تو دوسرے نے اپنا رد عمل اس طرح ظاہر کیا"سب کو اپنی عیش کی پڑی ہے،ان ناچنے گانے والے، فسادی یا پشتینی سیاست کے خوگر کو یہ معلوم ہے کہ ہمیں نیتا بننے کے بعد کچھ کرنا نہیں البتہ شہرت دولت اور پولس سے بچنے کے بجاے اسے اپنی انگلیوں پر نچانا آسان ہوگا تو اس سے بہتر اور کیا؟"تیسرے نوجوان نے تو یہ لکھا"اچھا ہے ویسے بھی سرکار کیا بلکہ ملک کو پڑھے لکھے سوال اٹھانے والے نوجوان نہیں،بلکہ نٹھلے ناچنے گانے والے خالی از دماغ افراد یا فسادی کے پیچھے ہو ہو ہاہا کرنے والی نٹھلی بھیڑ چاہیے،لہذا اب یہ ٹرینڈ ہی بنایا جارہا ہے کہ ناچو گاو یا فساد مچاو،یا پشتینی سیاست کی سند لیکر آؤ،بعد ازاں ٹکٹ ہم سے پاؤ اور ان خالی از دماغ بھیڑ کے آییڈیل بن کر مزید اگلی نسل کو گمراہ کرو!"
ان سب کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ جرمن ماہر عمرانیات ماکس ویبر نے قیادت کی فقط منطقی تقسیم کی،مالہ وماعلیہ کے ساتھ ان تقسیم کردہ الگ الگ رجحانات کی تحسین و تردید نہیں کر سکے،شاید انکو موقع نہیں مل سکا،اگر ملتا اور گلیمر کے پیچھے بھاگنے والے ووٹرز پر کچھ لکھتے تو ان کو پڑھنے والے کو لکھنے پڑھنے میں مزید آسانی ہوتی.
آخر میں ہم بطور نتیجہ یا اپیل ایک خیر خواہ ہندوستانی کے ناطے یہی کر سکتے ہیں کہ آپ اگر زندہ ہیں تو سوچیے اور سوال اٹھاییے اور مذکورہ بالا اوصاف سے متصف قیادت کے جو مستحق ہیں،انکو آگے لاییے،کیونکہ کسی فلسفی نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ سوال کرنے کی ہمت سوچنے والے،زندہ،متحرک روشن دماغ میں ہی پیدا ہوتی ہے،وہ اپنی زندہ دماغی سے اپنے معاشرے میں سماجی، معاشی بہتری اور انصاف کی برتری برپا کرنے میں کامیاب ہوتے.ہاں احمق وہ ہوتے ہیں جو سوچتے تو نہیں،البتہ بنا سوچے سوال  کرکے اپنی سبکی کا سامان ضرور پیدا کرتے ہیں،البتہ جو غلام ہوتے ہیں وہ نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی سوال اٹھاتے ہیں،بالفاظ دیگر وہ زندہ یا متحرک دماغ کے مالک نہیں ہوتے!
آییے سوچتے ہیں کہ ہم آپ کس زمرے میں آتے ہیں اور اپنا قاید منتخب کرکے اس پر کون سی کیٹگری والا مہر ثبت کرتے ہیں؟