Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 8, 2019

جماعت اسلامی ہند کے نئیے امیر کا انتخاب اور سوشل میڈیا کے ہنگامے۔


از: *سید أحمد اُنیس ندوی*صدائے وقت۔/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
دو دن قبل جماعت اسلامی ہند کے نئے امیر کا انتخاب عمل میں آیا .... اور بطور امیرِ جماعت معروف مصنف جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کو معزز ارکان نے ووٹنگ کے ذریعے منتخب کیا ....
سید سعادت اللہ حسینی صاحب ایک علمی اور صاحب تصنیفات شخصیت ہیں ... جماعت کے لئے اُن کی خدمات کا دائرہ یقینا وسیع ہوگا تبھی جماعت کے کارکنان نے اس منصب کے لئے اُن کا نام پیش کیا ....
*سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے منتخب ہوتے ہی سوشل میڈیا پر بعض اہل قلم دو الگ الگ قسم کی انتہاء پسندی کی ذہنیت کے ساتھ میدان میں آ گئے اور فضول مباحثہ کا ایک دور شروع ہو گیا.... اور بحث کا خاص موضوع تھا  " داڑھی" ...*
*مفکرین کی ایک جماعت نے سعادت اللہ حسینی صاحب کے منتخب ہونے کے بعد فوراً اُن کے ظاہری حلیے پر سخت تنقید شروع کر دی ... اور بجائے اس کے کہ جماعت اسلامی کی شفاف انتخابی پالیسی کو سراہا جائے اور ملی تنظیموں اور تحریکوں میں جاری اجارہ داری اور اقرباء پروری کے مقابلے اس قسم کی شورائ طاقت کو فروغ دینے کی بات کی جائے وہ حضرات سعادت اللہ حسینی صاحب کی داڑھی پر سخت ریمارکس دینے لگے .. اور بات پھر بانئ جماعت مولانا سید ابو الأعلی مودودی مرحوم تک جا پہنچی* ....
*جب اس طرح کی باتیں عام ہوئیں تو دوسری انتہاء پسند ذہنیت کار فرما ہوئ اور انہوں نے اس شورائ نظام کی تعریف و توصیف سے بہت آگے بڑھ کر " داڑھی " اور " صالحین کی وضع قطع" کو ہی نشانہ بنا لیا  ... اور جبہ و دستار کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا .... اور بالکل عجیب و غریب انداز میں پہلے طبقے والوں سے " رجب طیب اردوغان" اور " ڈاکٹر مرسی" کے تعلق سے سوالات قائم کر دئیے* ....
  میں حیران ہوں کہ دور حاضر کی خطرناکی کو نظر انداز کر کے ہمارے یہ طبقے آخر کن بحثوں میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ...
*صحیح صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور بانئ جماعت کے بعض افکار و نظریات سے علماء کرام کو شدید اختلافات اور تحفظات رہے ہیں .. بالخصوص دین کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے نیز متقدمین پر سخت ریمارکس کے حوالے سے مولانا مودودی مرحوم طبقہ علماء کے درمیان سخت تنقید کا نشانہ بنے رہے ہیں* ... *یہاں تک کہ اُن کے بہت سے رفقاءِ جماعت مثلا مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا علی میاں ندوی رحمھما الله نے بھی علامہ مودودی کے اُن نظریات پر صاف تنقید کی ہے*... 
*اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ علامہ مودودی مرحوم کی بہت سی تصانیف اور اُن کے سینکڑوں مضامین اپنے موضوع پر کمیاب بلکہ نایاب ہی ہیں ... مغربی افکار پر بے خطر اور مدلل تنقید اور اُس کے مقابلے میں اسلامی نظام کی برتری ثابت کرنے میں مولانا مودودی اپنی مثال آپ ہیں اور اُن کی کئ تصنیفات اس پر شاہد ہیں ... اس کے علاوہ تاریخ عزیمت میں بھی اُن کا نام بہت نمایاں ہے ... عالمِ اسلام کی ایک بڑی تعداد انہی سب وجوہات سے مولانا مودودی کی ہمیشہ قدردان رہی ہے ... اب اس قدردانی کا مطلب اُن کے بعض غلط اور منحرف افکار کو قبول کرنا نہیں ہے بلکہ اُن کی خدمات حسنہ اور دینی جذبے کو سراہتے ہوئے صحیح باتوں سے استفادہ ہے .... اور جو باتیں راہ اعتدال سے متجاوز ہوں اُن پر صحت مند تنقید کرتے ہوئے اُن سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہے* ....
*دوسری طرف جماعت اسلامی کے اس مضبوط شورائ نظام کی تعریف و توصیف کے علاوہ مزید حد درجے مبالغے کے ساتھ بات کرتے ہوئے جبہ و دستار کو کٹہرے میں کھڑا کر دینا اور داڑھی جیسی سنت کے استخفاف کا شائبہ بھی پیدا کرنا فکری کجی اور دینی شناختوں کے اہتمام کے تعلق سے کمزوری کے مترادف ہے* ...
*داڑھی کا مسئلہ بھلے ہی اس دور میں مختلف فیہ بنا دیا گیا ہو لیکن کم از کم اس بات میں تو کسی کو شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام رضي اللہ عنھم اجمعین سب کے سب لمبی داڑھی رکھتے تھے ...... اور متقدمین علماء، ائمہ مجتہدین، محدثین، صوفیاء و صالحین سب کے ہی یہاں یہ مسئلہ تقریبا طے ہے کہ داڑھی ایک مشت رکھنی چاہئے اور تسلسل کے ساتھ سب کا اس پر عمل بھی رہا ہے ... اب اس کے بعد بھی داڑھی کی اہمیت کو نظر انداز کرنا یقینا درست راستہ نہی‍ں ہے* ....
*لباس کا مسئلہ اگرچہ تشریعی نہیں ہے (بعض حدود و قیود ہیں بس، باقی کوئ لباس طے نہیں کیا گیا)  مگر ہر دور میں نیک لوگوں کی یہ علامت رہی ہے وہ اپنے علاقے کے علماء و صلحاء کے لباس کو اپنی پسند بناتے رہے ہیں ... اور حکم باری تعالی " و اتبع سبیل من اناب الي " کے عموم سے بھی بہت کچھ اشارے ملتے ہیں ..... اس لئے داڑھی اور ظاہری حلیے کی بہرحال اپنی حیثیت ہے* .... 
*اور اسی طرح یہ کہنا کہ کچھ داڑھی اور کرتے پاجامہ والے تو ایسا ویسا کر رہے ہیں ... اس کا جواب بالکل یہی ہے جو کسی طالب علم کے چوری کر لینے پر غالباً علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے دیا تھا کہ طالب علم چور نہیں ہے بلکہ چور طالب علم بن کر آ گیا ہے .. اب اگر داڑھی ٹوپی والے کوئ غلطی کریں تو قصور داڑھی ٹوپی کا نہیں اُس شخص کا ہے.... ورنہ اگر اسی نظر سے ہم دیکھیں گے تو پھر بغیر داڑھی ٹوپی والے بھی تو بہت کچھ کر رہے ہیں ... پھر تو کہیں ٹھیراؤ نہیں ملے گا*...
*رہی بات " طیب اردوغان صاحب" یا " ڈاکٹر مرسی صاحب" کی تو ذہن نشیں رہے کہ ان دونوں حضرات سے مسلمانوں کا تعلق بحیثیت " اسلامی مفکر" یا کسی اسلامی تحریک کے قائد کے طور پر نہیں ہے ... اردوغان صاحب وغیرہ تو نیچے سے اوپر کی طرف سفر طے کر رہے ہیں اور وہ جتنے اسلام پر بھی عمل پیرا ہیں اور اُن کی جو بھی خدمات ہیں وہ بہت قابل قدر اور لائق رشک ہیں ... اور اس حیثیت سے مسلمانوں نے ہمیشہ بہت سی شخصیات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ... ماضی قریب میں سلطان ٹیپو شہید، علامہ اقبال و غیرھما اُس کی مثالیں ہیں*...
*اس کے برعکس جماعت اسلامی اپنے دعوے کے مطابق ایک "مکمل اسلامی تحریک" ہے ... جس کا مرجع و منشور کتاب اللہ ہے ... جس کا مقصد اقامت دین ہے ... جو احیاء اسلام کے لئے کوشاں رہنے پر زور دیتی ہے ... اب ظاہر ہے اس قسم کی تحریک سے ہماری وابستگی جس نوعیت کی ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس تحریک سے وابستہ حضرات بالخصوص اس کے ذمہ داران جہاں ایک طرف اپنے ان عظیم مقاصد کے لئے کوشاں رہیں وہیں یہ حضرات شریعت و سنت کے اہتمام میں، تعلق مع اللہ اور ذکر و دعاء کی پابندی و تلقین میں بھی جماعت صحابہ کے نقش قدم پر ہوں* .. تبھی اُن کے ان مقاصد کے حوالے سے لوگ اُن پر پوری طرح متفق ہوں گے ....مزید ہر طبقے میں قبولیت حاصل ہوگی اور منجانب اللہ برکتوں کا ظہور ہوگا .... 
*آج کے دور میں خلط مبحث، قیاس مع الفارق اور باتوں کو گڈمڈ کر دینے کا رواج عام ہے .... مکمل پس منظر، موجودہ حالات، اپنے نقائص پر نگاہ، دوسروں کی خوبیوں کے اعتراف ان ساری باتوں پر نگاہ کئے بغیر ہر ایک کسی نہ کسی قسم کے تعصب کا شکار ہو کر ہر مسئلے پر کود پڑتا ہے اور اپنی رائے ہیش کر دیتا ہے*... ضرورت ہے کہ حد اعتدال سے متجاوز ہوئے بغیر سب کی خوبیوں کے اعتراف اور غلطیوں پر تعمیری تنقید کے ساتھ ہم اپنی بات پیش کرنے کی عادت بنائیں اور عند اللہ جوابدہی کا استحضار ہمیشہ قائم رکھیں ..
*سید أحمد اُنیس ندوی*