Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 8, 2019

موجودہ دور کی اسلامی تحریکوں کی زبوں حالی۔

تحریر/ محمد فھاد حارث۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
آج دنیا میں اسلامی نظام کے قیام کا نعرہ مسلمانوں کی سیاست کا سب سے بڑا مہرا بن گیا ہے۔ جسکو دیکھیے اسلام کو دنیا میں غالب کرنے، اسلامی ریاست قائم کرنے اور اسلامی نظام برپا کرنے کا دعویدار بنا ہوا ہے لیکن یہ سارے دعوے کھوکھلے اور صرف برائے نام ہیں، کیونکہ اسلامی عقائد اور توحید و سنت کے بارے میں انکے جذبات بالکل ہی سرد ہیں حتیٰ کہ  انکی نجی زندگی میں بھی توحید و سنت کا غلبہ نہیں۔ دعوت اسلامی کے علمبردار کتنے قائدین تو ایسے ہیں جو شرک وبدعت کے داعی اور اولیا ءکے مزارات کے محافظ، قبروں، خانقاہوں اور شرکیہ مقامات کے نگراں اور متولی ہیں، بھلا انکی جدوجہد سے  دنیا میں کون سا اسلام پھیلےگا؟
کتنے ہیں جو شرک و بدعت کی زبانی مذمت تو کرتے ہیں لیکن انکے خلاف صف آرائی، زبان و قلم و عمل سے انکو مٹانے کے لئے متحدہ جدوجہد کو دین میں اختلاف و انتشار سے تعبیر کرتے ہیں، حد یہ  ہے کہ یہ حضرات توحید کی جگہ شرک کو اور سنت کی جگہ بدعت کے طوفان کو نہایت ٹھنڈے پیٹوں گنوارہ کیے ہوئے ہیں۔ انکے نزدیک شرک و بدعت کی تردید دقیانوسیت اور وہابیت ہے۔ اگر ان جیسے مصلحت پسند بازیگروں کو مسلمانوں کا اقتدار اور انکی قیادت حاصل  ہوئی تو یہ اسی اسلام کی سرپرستی کرینگے جس میں قبروں کی تجارت  کی اجازت اور شرکیہ مقامات کی بقا و ترقی کی سہولت اور ہر قسم کی بدعت کی اجازت  ہوگی۔ جیسا کہ اس وقت پھیلی ہوئی موجودہ اسلامی جماعتوں اور دینی جدوجہد کرنے والے حلقوں میں مروجہ شرک و بدعت کے خلاف کوئی بے چینی اور جدوجہد نہیں پائی جاتی اور انکے کارکنوں میں ہر طرح کے مشرک و بدعتی شامل ہیں۔
افسوس ہے کہ آج توحید و سنت کا نام لینا ، شرک و بدعت کی مذمت کرنا اور عقائد کی اصلاح کرنا، ان نام نہاد مسلم قائدین کے نزدیک تنگ نظری اور تفرقہ اندازی ہے اور  یہ حضرات قرآن و حدیث پر کھلم کھلا تنقید کرنے لگے ہیں۔  اب یہ اسی اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے گرد اسی قسم کے مسلمانوں کو جمع کر رہے ہیں جن میں عقائد کی سختی اور سنت  کی پابندی کم سے کم ہو اور جو اس دور میں سب کیلیے قابل قبول ہو۔ ایمان خالص اب انکے نزدیک ناقابل عمل ہو چکا ہے۔
ضرورت ہے کہ مسلمان اسلام کی اولین بنیاد توحید و سنت کو اپنی دینی قیادت کا سب سے بڑا عنصرقرار دیں اور اسی مرکز پر سب کو جمع ہونے کی دعوت دیں، یہی انبیا کی دعوت کا نقطہ آغاز تھا۔ سب سے پہلے انبیا کرام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے باز رہنے کی تلقین کی۔ اسی اصول کو اپنی دعوت کا سب سے بڑا نصب العین قرار دیا۔ اس معاملے میں انہوں نے کسی بھی لمحے نرمی اور مداہنت اختیار نہیں کی، عقیدہ توحید کو ثابت و قائم کرنے کے بعدانہوں نے اپنی قوم کو اپنی یعنی اللہ کے نبی کی اطاعت کا حکم دیا۔ اللہ کے نبیﷺ کی اطاعت کا مطلب اللہ کے نبی کی سنت و شریعت کی پیروی ہے۔آج بھی ضرورت ہے کہ مسلمان دین کے  ان بنیادی اصولولوں پر متحد ہو جائیں اور ان دونوں مرکزی اصولوں کے بارے میں کسی قسم کی سستی، تغافل اور مداہنت اختیار نہ کریں۔