Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 27, 2019

کنہیا کی قابلیت کا معترف،،،فیصلہ پر معترض!!


از/ زین شمسی/ صدائے وقت۔
. . . . . . .  . .  . . . . . . . . .  . . . . . . . . 
میں کنہیا کی مخالفت کیوں کروں گا۔
جو لڑکا  ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوگیا ، جس نے اس وقت احتجاج کی پرزور آواز بلند کی جب ایک خوفناک خاموشی ہندوستان کی فضا میں گردش کر رہی تھی ۔
جے این یو کے ماحول اور اس یونیورسٹی کی ذہن سازی و کردار سازی سے میں بھی اتنا ہی واقف ہوں جتنا کنہیا یا دوسرے جے این یوائٹ۔
میں نے بھی ’سنگھرش کریں گے جیتیں گے ‘،
’اس جور جلم کے ٹکر میں سنگھرش ہمارا نعرہ ہے‘۔
’ آواز دو ہم ایک ہیں ‘ ۔
’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ، بول زباں اب تک تیری ہے‘
’انقلاب زندہ باد‘ اور  لال سلام کی پکار کے درمیان اپنی زندگی کے بہترین سال گزارے ہیں۔ میں کنہیا کی مخالفت کیوں کروں گا۔
اسی جے این یو کے بہترین کامریڈس کو میں نے بعد میں بی جے پی اور کانگریس کے آگے جھکتے ہوئے بھی دیکھا۔ افسوس ہوا ہے اور ہوتا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کے لیے کل بھی اور آج بھی ہندوستان کی مٹی زرخیز ہے۔ جس ملک میں کسان اور مزدوروں کا کوئی یار و مددگار نہ ہو وہاں لال جھنڈا ایک امید کی کرن کی طرح ہے ، لیکن اس تحریک کو ختم کس نے کیا، کیا کانگریس نے اسے دبایا ، کیا علاقائی پارٹیوں نے اس کی دھار کند کی ، کیا عوام نے اسے  پسند نہیں کیا ، کیا مذہبی سیاست نے اسے ناپسند کیا، نہیں  بالکل نہیں۔ اسے ہندوستان کی سیاست سے حاشیہ پر لے جانے میں اعلیٰ ذات کے ہندو لیڈروں کا 
 بہت بڑا ہاتھ ہے۔


جیوتی باسو ، نمودری پاد ، سیتارام یچوری ، سبھاشنی علی ، برندا کرات ، پرکاش کرات ، سدھاکر ریڈی ، آپ نام لیتے رہیے  لیکن آپ کو کوئی پسماندہ ذات یا پسماندہ طبقہ کا نیتا نہیں ملے گا۔ کمیونسٹوں کو دراصل ہندوستان میں برہمنوں اور بہار میں بھومیہاروں نے سبوتاز کیا۔ غریب مزدور کسان کی  سیاست کرنے والوں نے کسی غریب ، کسان اور مزدور کو لیڈر بنانے کی کوشش نہیں کی ، نتیجہ یہ ہوا کہ دلتوں نے خود کی پارٹی بنائی ، کسانوں نے الگ راہ اپنائی ، مزدوروں  بے بسی کی  زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کے لیڈران پولٹ بیورو میں امریکن انگریزی بولتے ہوئے اشتراکی نظریات کا ڈھول پیٹتے رہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ مغربی بنگال میں ہوائی چپل، اور سادہ سوتی ساڑی پہنے ہوئے ممتا بنرجی  انہیں بے دخل کر گئی اورجے این یو میں جہاں لیفٹ بمقابلہ لیفٹ الیکشن ہوا کرتا تھا وہاں لیفٹ کی تمام پارٹیاں ایک ساتھ مل کر اے بی وی پی سے مقابلہ کرتی نظر آتی ہیں۔
میں کنہیا کو اس سیاست سے دور رکھنے  کی کوشش کر رہا ہوں ، مجھے دکھ ہے کہ جس لیڈر میں میں مستقبل کا وزیر اعظم دیکھ رہا تھا وہ اتنا محدودکیوں ہو گیا۔ لوگ مجھے کنہیا کا مخالف سمجھ رہے ہیں ،میں کنہیا کا مخالف نہیں ہوں ، کنہیا کے بچکانہ فیصلے کا مخالف ہوں
کنہیا کو کسی بھی حال میں بیگو سرائے سے الیکشن نہیں لڑنا چاہیے۔ بلکہ اسے ابھی الیکشن ہی نہیں لڑنا چاہیے۔کیوں؟
کیوں کہ برسوں بعد یا یوں کہیں کہ مودی کی مہربانیوں سےبھارت کو ایک ایسا نوجوان لیڈر ملا جو نہ صرف تعلیم یافتہ ہے بلکہ اس کے پاس بھرپور وزن بھی ہے۔ اس کے پاس منطق بھی ہے اور دلیل بھی ۔ لیکن اس کے پاس ابھی سیاست کا کوئی تجربہ نہیں اور اس کی اسی ناتجربہ کاری نے اسے بیگوسرائے میں پھنسا دیا۔
اسے لگا کہ ہندوستان اور خاص کر بہار کی سیاست  بغیر ذات پات کے ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لئے اس نے اپنی ذات والوں پر بھروسہ کیا اور بیگوسرائے کو اپنا میدان عمل بنایا ۔سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ بھومیہار ہونے کے ناطے وہ اپنی ہی ذات کو سمجھ نہیں پائے کہ وہ سب بی جے پی کے فطری ووٹر ہیں۔ بھومیہار ، کائستھ اور راجپوت قومی پارٹیوں کو ہی ووٹ دیتے ہیں ۔ پہلے ان کی پسند کانگریس تھی اب بی جے پی
الیکشن مہم کے دوران کنہیا کو جب اس بات کا احساس ہوا تو انہوں نے مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ الیکشن مہم کو بدلا، اور مسلم علاقوں پر کنسنٹریٹ کرنا شروع کیا۔ اپنی تقریروں میں اخلاق ،  پہلو خان ، نجیب کےذکر کو ترجیح دینی شروع کی ، یہاں تک کہ نجیب کی ماں کو بھی کھلی جیپ میں گھمانا شروع کر دیا۔ ، لیکن  شاید کنہیا یہ بھول گئے کہ بیگوسرائے میں 40سال سے سماج واد کی لڑائی لڑنے والے تنویر حسن کی گرفت وہاں کے مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ یادو اور بھومیہاروں پر بھی مضبوط ہے۔اس لئے کہ وہ ان کے دکھ درد میں شامل رہے اور اپنی اوقات کے حساب سے ہمیشہ ان لوگوں کی مدد کرتے رہے۔ مسلمان ہو ، یا یادو ، ملاح ہو یا ساہنی یہاں تک کہ بھومیہار بھی ان کی عزت کرتے ہیں۔  اس لئے کچھ جذباتی مسلمان تو کنہیا کی جے جے کار کر سکتے ہیں مگر سیاست کی سمجھ رکھنے والے لوگ تنویر حسن کو کسی بھی حال میں چھوڑ نہیں سکتے۔
اب جب کہ الیکشن کے دودن ہی بچے ہیں ، مطلع صاف ہے کہ کنہیا کمار کو ہر طبقہ کا کچھ ووٹ مل سکتا ہے ، لیکن اگر بات سی پی آئی کی کی جائے تو بلک ووٹ اس کے پاس صرف  50سے60ہزار ہے ۔اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ چھٹ پٹ ووٹ سے الیکشن ہرایا جاتا ہے اور بلک ووٹ سے الیکشن جیتا جاتا ہے۔
بلک ووٹ یا تو مہاگٹھ بندھن کے پاس ہے یا این ڈی اے کے پاس۔
سی پی آئی جنرل سکریٹری سدھاکر ریڈی نے پٹنہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تیجسوی یادو سے اپیل کی کہ بیگوسرائے میں وہ اپنے امیدوار کو الیکشن سے ہٹا لیں اور کنہیا کے لئے راستہ صاف کریں۔خنزیر خور جاوید اختر نے واضح طور پر کہا کہ تنویر حسن کو ووٹ دینے سے اچھا ہے کہ گری راج کو ووٹ دے دیا جائے تاکہ وہ مسلمانوں کا احسان مند رہے۔بنگلور میں مسلم امیدوار کو ہرانے کی حکمت عملی بنا کر بیگوسرائے پہنچے پرکاش راج نے کہا کہ کنہیا کمار کو جتانا سیکولرازم کو جتانا ہے۔بیگوسرائے پہنچے کمینوسٹ نما مسلمانوں کی طرف سے بس یہی آواز اٹھ رہی ہے کہ کنہیا کے حق میں تنویر حسن کو بیٹھ جانا چاہئے۔مسلسل ایسی باتیں لکھی جا رہی ہیں کہ ہم گونگے بہرے لوگوں کو پارلیمنٹ کیوں پہنچائیں ۔ کنہیا کے پٹنہ پریس کانفرنس کو یاد کیجئے۔ جس میں وہ پرزور طریقے سے کہہ رہے ہیں کہ میری لڑائی گری راج سے ہے۔ یعنی تنویر حسن ریس میں نہیں ہے۔میڈیا میں بھی تنویر حسن ریس میں نہیں تھے ۔ یہاں تک کہ پوری میڈیا کو گودی میڈیا کہنے والے میرے سب سے پسندیدہ صحافی رویش کمار بھی جب بیگوسرائے جاتے ہیں تو کنہیا کو بھرپور موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی باتیں کہیں اور تنویر حسن کو ایک منٹ بیس سکنڈ میں نمٹا آتے ہیں۔یوگیندر یادو سمیت تمام این جی او باز کنہیا کمار کو مستقبل کا ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس کے پارلیمنٹ نہ پہنچنے کی صورت میں آئین اور سیکولرازم کی بقا پر سوال کھڑا کر دیتے ہیں۔ فیس بک پر ہمارے بہت سارے دوست جنون کی حد تک کنہیا کی حمایت میں کبھی امام صاحب سے بات ہونے کی بات کہتے ہیں کبھی بیگوسرائے کے سبھی طبقے میں کنہیا کی حمایت کی وکالت کرتے ہیں۔جو لوگ بیگوسرائے کو جانتے بھی نہیں ہیں وہ لوگ بھی جذباتیت کی کے گھوڑے پر سوار کنہیا کو دولھا بنا کر پیش کرنے میں پیش پیش ہیں۔ سب کو آزادی ہے کہ وہ اپنے پسند کو سامنے رکھیں اور اظہار رائے کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ جب الیکشن  میں اتر گئے ہو توتنویر حسن  کو بیٹھ جانے کا مشورہ کیوں دے رہے ہو۔ کیا ڈاکٹرتنویر حسن جاہل ہیں ، کیا  وہ بدعنوان ہیں ، کیا وہ بے ایمان ہیں ۔ وہ صرف اس لیے بیٹھ جائیں کہ پارلیمنٹ میں ایک نوجوان لیڈر بیٹھ سکے۔ مسلمانوں کو یہ کہہ کر  ورغلایا جارہا کہ  انہوں نے کیا کیا ہے اب تک ، کل کہیں گے  فاطمی نے کیا کیا ہے ، شکیل احمد نے کیا کیا ہے، عبدالباری نے کیا کیا ہے ، سلمان خورشید نے کیا کیا ، غلام نبی نے کیا کیا ہے ، فخرالدین احمد نے کیا کیا، ابوالکلام آزاد نے کیا کیا اس کے بعد باری آئے گی علما کی اور اس طرح کمیونسٹوں کا وہ خواب پورا ہوگاجو مسلمانوں کے لئے وہ برسوں سے سوچ رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ تو ابھی تک کنہیا نے کیا کیا ہے۔ وہ جس طرح ہیرو بنا وہ معاملہ بھی کنہیا کا نہیں تھا۔ اسے ہیرو بنا دیا گیا۔
سوچنے کا مقام ہے کہ کیاپی ایم سے ٹکر لینے کے لیے سی پی آئی  کاایک ایم پی کافی ہے ، یامودی سرکار سے ٹکر لینے کے لیے راشٹریہ جنتا دل ، کانگریس مہاگٹھ بندھن کے ایم پی ضروری ہیں۔ چلا کر کیا ہوتا
کنہیا دکھ رہا ہے ، کیونکہ اسے دکھایا جارہا ہے۔ دکھایا اس لئے جا رہا ہے کہ الجھایا جاسکے ۔ ورنہ جہاں اس کی بیشتر تقریریں ہیں وہیں اس کی ذہنیت بھی سامنے ہے۔ جس شرد یادو نے جیل میں گئے کنہیا کے لئے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی وہ اس کے خلاف ہے۔ جس اویسی نے  پارلیمنٹ میں اس کے لیے آواز اٹھائی ان کا موازنہ وہ توگڑیا سے کر تے نظر آئیں۔ 
کنہیا جیتنے کے لئے بیگوسرائے نہیں گئے ہیں بلکہ  بیگوسرائے کو مستقبل میں اپنا مستقل حلقہ بنانے گئے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح تنویر حسن کو ہرا کر دوسرے نمبر پر آجائیں تاکہ اگلے الیکشن میں ان کی دعویداری مضبوط ہو سکے۔ اس لئے اس الیکشن کو گری راج کو سونپ کر وہ پانچ سال تک مودی (اگر وہ اقتدار میں آگئے) اور گری راج کو ٹارگیٹ کر کے بیگوسرائے جیت لیں گے۔ 
آج اگر یہی میلہ بنارس میں لگ رہا ہوتا ، ان کی تقریر میں گری راج کی جگہ  براہ راست مودی ہوتے تو کنہیا پورے ہندوستان کے 543سیٹوں کو متاثر کر رہے ہوتے۔ان کا قد اور ان کی قامت میں بےتحاشہ اضافہ ہوتا۔ وہ ہار کر بھی بہت بڑے  رہنما ہوتے اور مستقبل ان کا انتظار کر رہا ہوتا۔ یہاں کیا ہوگا زیادہ سے زیادہ وہ تنویر حسن کو ہرا کر دوسرے نمبر پر آجائیں گے ، لیکن ان کا قد کتنا چھوٹا ہو جائے گا اس کا اندازہ شاید انہیں بھی نہیں ہے ۔ ________
زین شمسی
______________________
یہ مضمون نگارکےاپنےخیالات ہیں۔صدائے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔