Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 27, 2019

ایمان لائے بغیر کوئی جنت میں جا سکتا یے کیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دلچسپ و سبق آموز تحریر۔

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل،
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا ۔
ڈاکٹر سلیم خان/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
میرا دوست انٹونی  مجھے امریکہ کی سیر پر جانے کی ترغیب دیتے ہوئےکہتا سلیم جس نے زندگی میں ایک بار امریکہ نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا گویا اس کا دنیا میں آکر جانا اکارت ہوگیا۔ انٹونی   کے بار بار اصرار سے  زچ ہوکر میں نے   ویزا کی درخواست دی اور کامیاب ہوگیا ۔ میں چاہتا تھا کہ  امریکہ کا سفر اپنے عزیز دوست کے ساتھ کروں اس لیے دریافت کیا کہ کب کا ٹکٹ بنایا جائے؟  وہ بولا افی الحال اس کو امریکہ جانے میں دلچسپی نہیں ہے۔ اب میں نے اصرار کیا تو اس نے کہاایک بار وہ امریکہ کی سیر کرچکا ہے اس لیے دوبارہ جانا نہیں چاہتا ۔ وہ تو دبئی دیکھنے کا خواہشمند ہے۔  میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود انٹونی امریکہ چلنے کے لیے تیار نہیں ہوا ۔ میں نے اس کو بتایا کہ دیکھو انٹونی میں  زندگی کا بڑا حصہ متحدہ عرب  امارات  میں گزار چکا ہوں ۔ وہاں  کوئی خاص بات نہیں  لیکن وہ دبئی کے فراق میں پڑا  رہا حالانکہ اس کا امریکی ویزا لگا ہوا تھا اور وہاں  رشتے دار بھی تھے ۔میرےزور دینے  پر بولا یار میں  جہاں جانا نہیں چاہتا وہاں مجھے زبردستی  لے جانے پر تو تم کیوں تلے ہوے ہو۔ ایسی زبردستی تو خدا بھی نہیں کرتا۔
انٹونی کی دلیل کے آخری حصے نے مجھے چونکا دیا ۔انسان جہاں جانا نہیں چاہتا  خدا زبردستی اس کو وہاں  لے کر  نہیں جاتا۔ اب وہ امریکہ ہو یا جنت ؟ دنیا میں بھلائی کا  کام کرنے والےبہت سارے لوگ  جنت اور دوزخ میں سرے سے  یقین ہی  نہیں رکھتے اور نہ وہاں جانا چاہتے ہیں لیکن مجھ  جیسےمداح  انہیں زبردستی اپنے ساتھ بہشت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کی کوشش ہے کہ   جیسے میں  انٹونی کو اپنے ساتھ امریکہ لے کر جانا چاہتا ہوں اور ناکام ہوجاتا ہوں ۔جہاں تک خدائے بزرگ و برتر کا سوال ہے وہ بے نیاز ہستی اپنے بندوں پر زور زبردستی نہیں کرتی ۔انٹونی سے مایوس ہوکر میں  نے تنہا  امریکہ کے سفر کی تیاری  کا آغاز کیا ۔
امریکی سفر سے قبل  وہاں موجود دوستوں کے مشورے سے تاریخیں طے کیں اور انٹرنیٹ پر ہوائی ٹکٹ بنانے لگا۔  ائیر لائن کا انتخاب کرنے کے بعد میں نے اپنی ساری تفصیلات  مثلاًنام ، پتہ ، فون نمبر ، پاسپورٹ نمبر اور نہ جانے کیا کیا  اندراج کردیں  اور پھر ا ٓگے بڑھنے کے لیے ادائیگی  کا بٹن دبایا تو وہ پھر سے ویب سائٹ نے مجھے پچھلے صفحہ پر  لوٹا دیا۔ یہ معاملہ اگر ائیر انڈیا کے ساتھ ہوتا میں سوچتا کہ مہاراجہ اقتدار کے نشے  میں جھوم رہا ہے یا چوکیدار کا بھیس بدل کر سو رہا ہےلیکن یہ تو برطانوی ائیر لائن تھی ۔ برطانیہ کی ملکہ بھلا اس طرح کی غلطی کیسے کرسکتی تھی ۔ میں نے اپنی درج شدہ تفصیلات کو پھر سے جانچ کردیکھا ۔سب کچھ درست تھا لیکن پھر وہی مسئلہ درپیش ہوا۔ اب میں نے انٹونی کو مدد کے لیے آواز دی اس لیے کہ اسی کی سفارش پر اس ہوائی کمپنی کا انتخاب کیا گیا ۔ 
انٹونی مسکراتا ہوا میرے قریب آیا ۔  اس نے بڑے غور سے  تمام تفصیلات  دیکھنے کے بعد کہا عجیب احمق آدمی ہو۔اس آخری بکس کو تم  نے کلک کیوں نہیں کیا؟ میں نے کہا اس پر ساری شرائط کے تسلیم کرنے کی توثیق مانگی گئی ہے۔  یہاں جن شرائط کو قبول کرنے کی بات کی گئی ہے ان کو جانے بغیر  میں اپنی منظوری کیسے دے سکتا ہوں ؟    انٹونی نے قہقہہ لگا کر کہا تم چاہو تو ان شرائط کو پڑھنے میں اپنا وقت صرف کرسکتے ہو لیکن اکثر لوگ ایسا نہیں کرتے بلکہ بغیر پڑھے بٹن دبا دیتے ہیں لیکن  انہیں تسلیم  کیے بغیر تمہارا ٹکٹ نہیں بنےگا۔  میں بولا یہ شرائط میں  کیوں مانوں  ؟ ٹکٹ کی پوری  قیمت تو میں ادا کر ہی رہا ہوں ۔ وہ ہنس کر  بولا یار ایمان لائے بغیر کوئی جنت میں بھی  نہیں جاسکتا ۔  انٹونی کی بات میری سمجھ میں آگئی لوگ بلاوجہ    ایمان کے بغیر  محض  اعمال کی بنیاد پر جنت میں جانے کی بات کرتے ہیں ؟ اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں  منکر حق اتنے اچھے کاموں  کے باوجود جنت سے کیوں  محروم رہے گا؟  تسلیم و رضا کے بغیر محض ٹکٹ خرید کر  انسان معمولی  ہوائی جہاز میں بھی قدم نہیں رکھ سکتا ، منزلِ مقصود یا  جنت تو خیر بہت بڑی چیز ہے۔