Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, April 9, 2019

بی جے پی اور مسلمانوں کا ووٹ !! ایک تجزیہ۔

تحریر/ محمد خالد/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہر الیکشن کے وقت کچھ خاص ملّی دانشور حضرات اپنی ہدایت و رہنمائی کی پوٹلی لے کر میدان میں آ جاتے ہیں اور پریشان حال ملت اسلامیہ کو مزید الجھنوں میں مبتلا کر دیتے ہیں. اس الیکشن کے موقع پر بھی یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے، اب تک تین صفحات پر مشتمل ایک خطبہ جمعہ اور تقریباً 15 منٹ کی ویڈیو اور اس ویڈیو میں کہی گئی بات کو تحریری شکل میں بھی سوشل میڈیا میں پھیلایا جا رہا ہے.
مندرجہ بالا کوشش کے تعلق سے اپنی سمجھ کے مطابق ایک تحریر اس امید کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے کہ "شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات"
ایک لمبی مدت سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو جذبات میں مبتلا کر کے ان کے سوچنے سمجھنے کے اصل طریقے کو ایک غیر فطری و غیر دینی طریقے پر تبدیل کر دیا جائے اور اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان دانشور کی شکل میں نظر آنے والے لوگوں کا اللہ کی ہدایت اور نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے تعلق نہ کے برابر ہی محسوس ہوتا ہے.
مسلمان اس عارضی زندگی میں اللہ کی بھیجی ہوئی آخری خیر امت ہے اور اس کے ذمہ صرف ایک کام ہے کہ اللہ کے دین کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی جدوجہد اور  اللہ کے تمام بندوں تک اللہ کے دین کو پہنچانا.
اللہ نے کسی بھی مسلمان کو یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ انسانوں کے تعلق سے فیصلہ کرے کہ کس کو اللہ کے دین کی دعوت دینا ہے اور کس کو اس نعمت عظیم سے محروم رکھنا ہے.
یہ تو رہا دینی لحاظ سے ایک معاشرتی پہلو، اب ذرا سیاسی اعتبار سے بھی دیکھا جائے کہ کس طرح سے ملک کے آزاد ہونے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ملک کے معاملات سے الگ تھلگ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور برادران وطن میں کچھ لوگوں کو دوست(سیکولر) اور کچھ کو دشمن(فرقہ پرست) کے خانے میں ڈال دیا گیا اور پھر جب اس حکمت عملی کے نتائج سامنے آنے لگے تو پھر "سیکولروں" نے انتہائی عیاری کے ساتھ مسلمانوں سے فاصلہ بنانا شروع کر دیا اور مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ ہم سیکولر لوگ تمہارے ہمدرد ہیں مگر عام ہندو کی ناراضگی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان سے فاصلہ بنا کر سیاست کی جائے. جس کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ملک کی کوئی بھی سیکولر پارٹی اپنے معاملات میں مسلمانوں کو ساتھ رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے اور چونکہ مسلمانوں نے اپنی پوری سیاسی جدوجہد کو سیکولر پارٹیوں کے حوالے کر دیا تھا لہٰذا اب وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں رہے کہ اپنی بنیادوں پر سیاست میں دو قدم بھی چل سکیں.
ضرورت ہے کہ نہ صرف الیکشن کے موقع پر متحرک ہوا جائے بلکہ اپنے ملک کی کم از کم ایک صدی کی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور اس جائزے کی بنیاد پر سیاسی منصوبہ بندی کی جائے تاکہ ملت اسلامیہ ہند اپنی کھوئی ہوئی شناخت اور حیثیت کو دوبارہ حاصل کر سکے.
آج کل سوشل میڈیا میں تقریباً 15 منٹ کی ایک ویڈیو اور اس میں کہی گئی بات کو تحریری شکل میں ملّی حلقوں میں بہت تیزی سے وائرل کیا جا رہا ہے مگر افسوس کہ اس میں کہی گئی بات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جا رہا ہے.
بی جے پی اور مسلمانوں کے ووٹ کی تعداد کو بنیاد بنا کر انتہائی غیر سنجیدہ بات کی گئی ہے.
بی جے پی کے ووٹ کی جو تعداد بتائ گئی ہے اس میں تو کسی دوسری پارٹی کا کوئی حصہ نہیں ہے اور اس کے مقابلے مسلمانوں کے جو کُل ووٹ بتائے گئے ہیں وہ کئی خانوں میں تقسیم ہونے والے ہیں حتی کہ بہت سے داڑھی ٹوپی والے مسلمان بھی بی جے پی کی حمایت کرتے ہوئے دکھتے یا دکھائے جاتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ بی جے پی کے ووٹ سے زیادہ ہو جائیں.
میرے خیال سے اس طرح کی کوشش کرنے والوں سے ذمہ داران ملت اسلامیہ کو بات کرنا چاہئے اور اس طرح کی خام خیالی سے ملت اسلامیہ کو بچانے کی کوشش کی جانا چاہئے.
اللہ رب العزت ہم سب کو شعور عطا فرمائے تاکہ معاملات زندگی میں ہم صحیح اور غلط کی تمیز حاصل کر سکیں.
محمد خالد.