Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 26, 2019

پرینکا گاندھی ، بنارس سے الیکشن کیوں نہیں لڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تبصرہ۔

تبصرہ/ صدائے وقت۔
وارانسی پارلیمانی سیٹ سے پرینکا گاندھی کے الیکشن لڑنے کے امکانات اس وقت ختم ہو گئے جب کانگریس نے اجے رائے کو میدان میں اتارنے کا اعلان کردیا۔۔
وارانسی سے ایم پی وزیر اعظم نریندر مودی ہیں اور اس بار دوبارہ وارانسی سے امیدوار ہیں ۔۔اس وقت مودی دو روزہ دورے پر وارانسی میں ہی ہیں اور اپنا پرچہ نامزدگی بھی داخل کرچکے ہیں۔ان کو گزشتہ الیکشن میں چیلنج کیا تھا عاپ قومی صدر اروند کیجری وال نے مگر مودی سے بہت پیچھے تھے۔۔مودی کو پانچ لاکھ اور کیجریوال کو دو لاکھ کے قریب ووٹ ملے تھے باقی کانگریس سمیت سبھی کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔
مودی اپنے کو " گنگا پتر" کہتے ہیں جبکہ پرینکا کو بھی " گنگا کی بیٹی" کے لقب سے نوازا جا چکا ہے۔

کچھ روز قبل تک پرینکا کے الیکشن لڑنے کی افواہ زوروں پر تھی۔پرینکا نے بھی کبھی کھلے لفظوں میں انکار نہیں کیا ۔۔انھوں نے اپنے ہر انتخابی جلسے میں مودی اور بی جے پی کو نشانہ بنا رہی ہیں۔۔۔فعال سیاست کی شروعات کانگریس کی جنرل سکریٹری اور مشرقی یوپی کی انچارج بننے کے بعد انھوں نے وارانسی سے اپنی شروعات بھی کی۔۔۔

ان کے جلسے میں عوام کی بھیڑ بھی قابل ذکر ہوا کرتی تھی۔
کانگریس نے در اصل کوئی رسک لینا نہیں چاہا اور یہ محض ایک الیکشن اسٹنٹ تھا۔پرینکا کانگریس کے مستقبل کی لیڈر ہیں۔اندرا گاندھی سے مشابہت ہے۔کانگریس نہیں چاہے گی کہ ان کی شروعات کسی ہار سے ہو۔۔۔۔
ایک دوسری وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ سماج وادی اور بی ایس پی اتحاد نے شاید سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور اپنا امیدوار شالنی یادو کو میدان میں اتار دیا۔پہلے شاید ان لوگوں نے کوئی امیدوار کھڑا نہ کرنے کی بات کہکر کانگریس کے حوصلے کو بڑھایا اور پھر بغیر انتظار کئیے اپنے امیدوار کا اعلان کردیا۔۔۔اگر اتحاد وارانسی سے پرینکا کو کانگریس کے امیدوار کے طور پر سپورٹ دیتی تو شاید کانگریسی کچھ سوچتے۔۔۔
مودی کے مقابلے میں جیت تو بہت مشکل تھی لیکن اتحاد و کانگریس مل کر مودی کے لئیے چیلنج ثابت ہو سکتے تھے۔۔۔
گزشتہ الیکشن کی بات کی جائے تو کانگریسی امیدوار اجے رائے جو اس بار بھی امیدوار ہیں 75 ہزار ووٹ حاصل کئیے تھے جبکہ چیلنج کے طور پر مودی کے سامنے اروند کیجریوال تھے۔اگر ووٹوں کی بات کریں تو پرینکا کے حق میں اچھے ووٹ پڑتے اور مقابلہ دلچسپ ہوتا۔۔۔آج جو مودی کا الیکشن ایکطرفہ معلوم ہوتا ہے یہ نا ہوتا۔کچھ کانگریسی بھی چاہ رہے تھے کہ پرینکا کو مودی کے خلاف وارانسی سے لڑنا چاہئیے۔۔۔سوشل میڈیا پر سوالات بھی کئیے جارہے تھے۔۔۔پرینکا کے میدان میں آنے سے پڑوسی اضلاع میں بھی کانگریس کی پوزیشن مضبوط ہوتی۔بغل کی سیٹ بھدوہی سے اعظم گڑھ کے سابق ایم پی رماکانت یادو بھی کانگریس کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں ان لوگوں کو بھی ایک دوسرے سے مضبوطی حاصل ہوتی۔
خلاصہ کلام یہ کہ کانگریس نے مودی کو ایک طرفہ جیت حاصل کرنے کے لئیے چھوڑ دیا۔۔کانگریس اور اتحاد دونوں نے عقل و شعور سے کام لیا ہوتا تو مودی کے لئیے ایک بڑا چیلنج ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو حکمت عملی کی کمی کہا جائے یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔