تحریر/ عمر فراہی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہمارے ایک ساتھی اعظم خان صاحب نے فیس بک پر تبصرہ پوسٹ کیا ہے کہ اگر اس بار بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت سے جیت کر آجاتی ہے تو کیا پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کی عوام کمیونل نہیں ہے ؟؟؟
یہ ممکن بھی ہے کہ کمزور اپوزیشن کی وجہ سے بی جے پی پھر اقتدار میں آجائے لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ اسی طرح کی دھاندھلی ہوگی جیسا کہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک میں ہندوؤں کی اکثریت کمیونل ہے ۔
چند فیصد ووٹ,جوڑ توڑ کی سیاست, چالبازی اور سرمائے ک، طاقت سے اگر کوئی پارٹی الیکشن جیت جاتی ہے جیسا کہ پارلیمانی طرز سیاست میں اکثر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو اس کا الزام عوام پر نہیں دیا جاسکتا کہ اکثریت کمیونل ہے ۔ہندوستان بنگلہ دیش سے کئی گنا بڑا ملک ہے اور اکثریت ابھی بھی کمیونل نہیں ہے ۔ہاں وہ مسلمانوں کے تئیں ایک انجانے خوف میں ضرور مبتلا ہیں جس کی وجہ سے کوئی مسلمان خالص ہندو علاقوں سے الیکشن میں کامیاب نہیں ہو پاتا یا عام سیکولر ہندو بھی کسی مسلمان امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا تو اس کا احتساب خود مسلمانوں کو ہی کرنا چاہیے کہ کیا ہندو مسلمانوں سے خوف زدہ ہے ؟
یا وہ نہیں چاہتا کہ مسلمان اقتدار تک پہنچے لیکن یہ پتہ لگانے کیلئے نہ تو ہمارے پاس کوئی میڈیا ہے اور نہ ہی ہماری تنظیموں نے کبھی اس پر سنجیدگی سے غور کیا ۔صرف الزام دینے سے کچھ نہیں ہوگا ۔
ہمارے ایک ہندو دوست جو عمر میں ہمارے والد کے برابر تھے ابھی آٹھ مہینہ پہلے انتقال کر گئے وہ جب پاکستان سے ہندوستان ہجرت کر کے آئے تو کچھ چودہ برس کے تھے ۔جن کے ذریعے ہمارا ان کا رابطہ ہوا انہوں نے ان سے ہمارا رابطہ یہ کہہ کر کروایا کہ یہ ٹھاکر صاحب ہیں یہ بھی انجینئر ہیں ان کا مشین پارٹس کا کچھ کام ہے آپ کجھ کر سکتے ہیں تو آپس میں بات کر لیں ۔بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ٹھاکر صاحب نے سن پینسٹھ میں وی جے ٹی آئی سے میکینکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے اور اس کے بعد لارسن ٹوبرو میں ملازمت اختیار کرلی اور اب ہماچل پردیش کے شہر سولن میں ان کی پلاسٹک مولڈنک کی فیکٹری ہے ۔اس ملاقات کے بعد میں نے ٹھاکر صاحب کا جو کام کیا اپنی جگہ ٹھاکر صاحب اکٹر سولن سے بھی فون پہ رابطے میں رہے اور اپنے کام کی علاوہ مجھے بھی بہت ہی خلوص کے ساتھ کاروباری مشورہ دیتے رہے۔ چوںکہ کافی ضعیف ہو چکے تھے اس لیے جب وہ اپنے لڑکے کو ممبئی بھیجتے تو کہتے کہ کچھ ضرورت پڑے تو عمر بھائی سے مشورہ ضرور لے لینا ۔ان کا لڑکا جو مجھ سے تھوڑا ہی عمر میں کم تھا میری اکثر اس سے ملک کے حالات پر بحث ہو جاتی تھی ۔میں جب کبھی یہ کہتا کہ ملک میں نہ صرف سیاستدانوں کی اکثریت چور اور کرپٹ ہے عدلیہ بھی کرپٹ ہو چکی ہے تو وہ کہتا کہ عمر بھائی میں آپ سے متفق نہیں ہوں ۔ایک بار ایک کمپنی نے ان کے کاروبار کے کئی لاکھ روپے روک لیے اور انہیں پہلی بار کورٹ جانا بڑا اور جب انہوں نے یہاں سارا ڈرامہ دیکھا کہ کس طرح جج بھی سیٹ کیے جاتے ہیں تو دوسری ملاقات میں کہنے لگے کہ آپ کی کچھ باتیں درست ہیں ملک کا ماحول بدل چکا ہے ۔یہاں اس ہندو فیملی کا زکر کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ ایک بہت ہی اچھے شریف خاندان سے تعلق رکھنے تھے پھر بھی ووٹ بی جے بی کو ہی دیتے تھے ۔اس کی کئی جائز وجوہات ہیں جس پر تبصرہ بھر کبھی لیکن یہ لوگ متعصب نہیں تھے ۔میرے علاوہ وہ ممبئی میں کسی اور پر آنکھ بند کرکے اعتبار کرتے تھے تو وہ بھی ایک ہمارے مسلمان دوست تھے جن کے والد سے ان کے گہرے تعلقات تھے ۔ہمارے یہ دوست والد کے انتقال اور بھائیوں کے بٹوارے کے بعد اکثر کاروبار میں پریشان رہتے تھے ۔ٹھاکر صاحب اکثر مجھ سے ان کی بھی غائبانہ خیریت لیٹے رہتے تھے ۔میں نے ایک بار کہا کہ ان کی پریشانی دیکھ کر میں بھی وہ جو میرے یہاں مشین کا کام کرواتے ہیں کبھی پیسے کا تقاضا نہیں کرتا ۔کہنے لگے کئی بار میں نے بھی مدد کی تاکہ ان کی کاروباری پریشانی دور ہو جائے مگر جب اس کا نصیب ہی ساتھ نہ دے تو کوئی کیا کر سکتا ہے ۔میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہندوؤں میں اگر کچھ لوگ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں یا متعصب ہیں ۔یا مسلمانوں میں کوئی خلافت کی بات کرتا ہے تو وہ شدت پسند ہے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا غیروں سے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ہم ان کی نفسیات سے لاعلم ہیں ۔ہم نے ان کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کر رکھی ہیں ۔ہم یا تو انہیں اپنی بات سمجھا نہیں پارہے ہیں یا وہ ابھی تک ہمیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔یہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان ایک فرقہ وارانہ خلیج آزادی سے پہلے ہی سے موجود ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کیلیے دونوں قوموں میں ایک مشترکہ دشمن کے خلاف وقتی مفاہمت قائم ہو چکی تھی جو آزادی کے بعد کھل کر بٹوارے کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ جب آزادی کے بعد پہلی بار پارلیمنٹ کا الیکشن ہونا طئے پایا تو جواہر لال نہرو نے مولانا آزاد سے کہا کہ اب آپ کسی مسلم اکثریتی علاقے کا انتخاب کر لیں تاکہ لوک سبھا کا الیکشن جیت سکیں ۔قومی یکجھتی کی علمبردار مولانا کو یہ بات ناگوار سی لگی ۔مولانا نے کہا نہیں میں تو کسی ہندو علاقے سے ہی الیکشن لڑوں گا ۔مولانا کی ضد پر پنڈت جواہر لال نہرو نے انہیں ایک ہندو علاقے سے جتانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔یہ بحث بھی تفصیل چاہتی ہے کہ مولانا کو کئی موقع پر کانگریسی ہندوؤں کی فرقہ وارانہ ذہنیت سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب انڈیا ونس دی فریڈم میں کھل کر کیا بھی ہے ۔آخری وقت میں حالات سے اتنا مایوس ہو چکے تھے کہ انہوں نے لوگوں سے ملنا بھی چھوڑ دیا تھا۔یہ مایوسی صرف بٹوارے کی نہیں بلکہ یاروں کے اچانک بدل جانے کا بھی غم تھا اور مولانا نے ایک تھکے ہارے ہویے شیر کی طرح آرام کرنے کو ترجیح دی ۔ہندوؤں کی فرقہ وارانہ ذہنیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن آزادی کے بعد فرقہ پرست تنظیموں نے حالات کو جس تیزی سے خراب کرنے کی کوشش کی تھی اب تک حالات بہت ہی خراب ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں ۔مسلمانوں کے پاس ابھی بھی وقت ہے ۔ہندوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندو فرقہ پرستی کے خلاف بھی ہے اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھا رہی ہے ۔مسلمان برادران وطن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے میں آکر اپنے اخلاق اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں شاید آپ اپنا کھویا ہوا وقار پھر بحال کرلیں ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہمارے ایک ساتھی اعظم خان صاحب نے فیس بک پر تبصرہ پوسٹ کیا ہے کہ اگر اس بار بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت سے جیت کر آجاتی ہے تو کیا پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کی عوام کمیونل نہیں ہے ؟؟؟
یہ ممکن بھی ہے کہ کمزور اپوزیشن کی وجہ سے بی جے پی پھر اقتدار میں آجائے لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ اسی طرح کی دھاندھلی ہوگی جیسا کہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک میں ہندوؤں کی اکثریت کمیونل ہے ۔
چند فیصد ووٹ,جوڑ توڑ کی سیاست, چالبازی اور سرمائے ک، طاقت سے اگر کوئی پارٹی الیکشن جیت جاتی ہے جیسا کہ پارلیمانی طرز سیاست میں اکثر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو اس کا الزام عوام پر نہیں دیا جاسکتا کہ اکثریت کمیونل ہے ۔ہندوستان بنگلہ دیش سے کئی گنا بڑا ملک ہے اور اکثریت ابھی بھی کمیونل نہیں ہے ۔ہاں وہ مسلمانوں کے تئیں ایک انجانے خوف میں ضرور مبتلا ہیں جس کی وجہ سے کوئی مسلمان خالص ہندو علاقوں سے الیکشن میں کامیاب نہیں ہو پاتا یا عام سیکولر ہندو بھی کسی مسلمان امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا تو اس کا احتساب خود مسلمانوں کو ہی کرنا چاہیے کہ کیا ہندو مسلمانوں سے خوف زدہ ہے ؟
یا وہ نہیں چاہتا کہ مسلمان اقتدار تک پہنچے لیکن یہ پتہ لگانے کیلئے نہ تو ہمارے پاس کوئی میڈیا ہے اور نہ ہی ہماری تنظیموں نے کبھی اس پر سنجیدگی سے غور کیا ۔صرف الزام دینے سے کچھ نہیں ہوگا ۔
ہمارے ایک ہندو دوست جو عمر میں ہمارے والد کے برابر تھے ابھی آٹھ مہینہ پہلے انتقال کر گئے وہ جب پاکستان سے ہندوستان ہجرت کر کے آئے تو کچھ چودہ برس کے تھے ۔جن کے ذریعے ہمارا ان کا رابطہ ہوا انہوں نے ان سے ہمارا رابطہ یہ کہہ کر کروایا کہ یہ ٹھاکر صاحب ہیں یہ بھی انجینئر ہیں ان کا مشین پارٹس کا کچھ کام ہے آپ کجھ کر سکتے ہیں تو آپس میں بات کر لیں ۔بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ٹھاکر صاحب نے سن پینسٹھ میں وی جے ٹی آئی سے میکینکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے اور اس کے بعد لارسن ٹوبرو میں ملازمت اختیار کرلی اور اب ہماچل پردیش کے شہر سولن میں ان کی پلاسٹک مولڈنک کی فیکٹری ہے ۔اس ملاقات کے بعد میں نے ٹھاکر صاحب کا جو کام کیا اپنی جگہ ٹھاکر صاحب اکٹر سولن سے بھی فون پہ رابطے میں رہے اور اپنے کام کی علاوہ مجھے بھی بہت ہی خلوص کے ساتھ کاروباری مشورہ دیتے رہے۔ چوںکہ کافی ضعیف ہو چکے تھے اس لیے جب وہ اپنے لڑکے کو ممبئی بھیجتے تو کہتے کہ کچھ ضرورت پڑے تو عمر بھائی سے مشورہ ضرور لے لینا ۔ان کا لڑکا جو مجھ سے تھوڑا ہی عمر میں کم تھا میری اکثر اس سے ملک کے حالات پر بحث ہو جاتی تھی ۔میں جب کبھی یہ کہتا کہ ملک میں نہ صرف سیاستدانوں کی اکثریت چور اور کرپٹ ہے عدلیہ بھی کرپٹ ہو چکی ہے تو وہ کہتا کہ عمر بھائی میں آپ سے متفق نہیں ہوں ۔ایک بار ایک کمپنی نے ان کے کاروبار کے کئی لاکھ روپے روک لیے اور انہیں پہلی بار کورٹ جانا بڑا اور جب انہوں نے یہاں سارا ڈرامہ دیکھا کہ کس طرح جج بھی سیٹ کیے جاتے ہیں تو دوسری ملاقات میں کہنے لگے کہ آپ کی کچھ باتیں درست ہیں ملک کا ماحول بدل چکا ہے ۔یہاں اس ہندو فیملی کا زکر کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ ایک بہت ہی اچھے شریف خاندان سے تعلق رکھنے تھے پھر بھی ووٹ بی جے بی کو ہی دیتے تھے ۔اس کی کئی جائز وجوہات ہیں جس پر تبصرہ بھر کبھی لیکن یہ لوگ متعصب نہیں تھے ۔میرے علاوہ وہ ممبئی میں کسی اور پر آنکھ بند کرکے اعتبار کرتے تھے تو وہ بھی ایک ہمارے مسلمان دوست تھے جن کے والد سے ان کے گہرے تعلقات تھے ۔ہمارے یہ دوست والد کے انتقال اور بھائیوں کے بٹوارے کے بعد اکثر کاروبار میں پریشان رہتے تھے ۔ٹھاکر صاحب اکثر مجھ سے ان کی بھی غائبانہ خیریت لیٹے رہتے تھے ۔میں نے ایک بار کہا کہ ان کی پریشانی دیکھ کر میں بھی وہ جو میرے یہاں مشین کا کام کرواتے ہیں کبھی پیسے کا تقاضا نہیں کرتا ۔کہنے لگے کئی بار میں نے بھی مدد کی تاکہ ان کی کاروباری پریشانی دور ہو جائے مگر جب اس کا نصیب ہی ساتھ نہ دے تو کوئی کیا کر سکتا ہے ۔میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہندوؤں میں اگر کچھ لوگ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں یا متعصب ہیں ۔یا مسلمانوں میں کوئی خلافت کی بات کرتا ہے تو وہ شدت پسند ہے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا غیروں سے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ہم ان کی نفسیات سے لاعلم ہیں ۔ہم نے ان کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کر رکھی ہیں ۔ہم یا تو انہیں اپنی بات سمجھا نہیں پارہے ہیں یا وہ ابھی تک ہمیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔یہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان ایک فرقہ وارانہ خلیج آزادی سے پہلے ہی سے موجود ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کیلیے دونوں قوموں میں ایک مشترکہ دشمن کے خلاف وقتی مفاہمت قائم ہو چکی تھی جو آزادی کے بعد کھل کر بٹوارے کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ جب آزادی کے بعد پہلی بار پارلیمنٹ کا الیکشن ہونا طئے پایا تو جواہر لال نہرو نے مولانا آزاد سے کہا کہ اب آپ کسی مسلم اکثریتی علاقے کا انتخاب کر لیں تاکہ لوک سبھا کا الیکشن جیت سکیں ۔قومی یکجھتی کی علمبردار مولانا کو یہ بات ناگوار سی لگی ۔مولانا نے کہا نہیں میں تو کسی ہندو علاقے سے ہی الیکشن لڑوں گا ۔مولانا کی ضد پر پنڈت جواہر لال نہرو نے انہیں ایک ہندو علاقے سے جتانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔یہ بحث بھی تفصیل چاہتی ہے کہ مولانا کو کئی موقع پر کانگریسی ہندوؤں کی فرقہ وارانہ ذہنیت سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب انڈیا ونس دی فریڈم میں کھل کر کیا بھی ہے ۔آخری وقت میں حالات سے اتنا مایوس ہو چکے تھے کہ انہوں نے لوگوں سے ملنا بھی چھوڑ دیا تھا۔یہ مایوسی صرف بٹوارے کی نہیں بلکہ یاروں کے اچانک بدل جانے کا بھی غم تھا اور مولانا نے ایک تھکے ہارے ہویے شیر کی طرح آرام کرنے کو ترجیح دی ۔ہندوؤں کی فرقہ وارانہ ذہنیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن آزادی کے بعد فرقہ پرست تنظیموں نے حالات کو جس تیزی سے خراب کرنے کی کوشش کی تھی اب تک حالات بہت ہی خراب ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں ۔مسلمانوں کے پاس ابھی بھی وقت ہے ۔ہندوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندو فرقہ پرستی کے خلاف بھی ہے اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھا رہی ہے ۔مسلمان برادران وطن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے میں آکر اپنے اخلاق اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں شاید آپ اپنا کھویا ہوا وقار پھر بحال کرلیں ۔
عمر فراہی۔۔۔۔