تحریر/ شکیل رشید / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
خبر ہے کہ وارانسی میں وزیر اعظم نریندر مودی پر جو پھول برسائے گئے ان کی قیمت کوئی ۱۲ کروڑ روپئے تھی! ایک ایسے ملک میں جہاں آج بھی ۔۔۔۔جب یہ دعویٰ کیاجارہا ہے کہ ہندوستان امریکہ، برطانیہ اور جاپان وغیرہ کی برابری کررہا ہے یا ان کے مقابلے پر آکھڑا ہوا ہے۔۔۔۔آبادی کی سب سے بڑی تعداد غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارتی ہو، جہاں رات کو روکھی سوکھی کھاکر سونے والوں کو صبح کھانا ملنے کی اُمید اور آس نہ ہو اور جہاں لوگ اس جدید ترین دور میں بھی بھوکے مرتے ہوں، ملک کے وزیر اعظم کو ہار او رپھول پہنانےکےلیے ۱۲ کروڑ روپئے کا خرچ کیاجانا یقیناً سراہے جانے کے بات نہیں ہے۔ ہم نے یہ نہیں دیکھاہےکہ وہ ملک جو واقعی ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، جیسے کہ امریکہ او ربرطانیہ وغیرہ، وہاں کسی لیڈر کے استقبال کے لیے صرف ہار اور پھول پر ایسی کثیر رقم صرف کی جاتی ہو۔۔۔ویسے اگر وہاں صرف بھی کی جاتی تو کوئی مضائقہ نہیں تھاکیو ںکہ وہاں بہرحال رات کو کھاپی کر صبح اُٹھنے والوں کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ انہیں کچھ کھانے کو ملے گا یا نہیں ملے گا! حیرت او رافسوس یہ ہے کہ اس ملک میںجہاں ’گھوٹالوں‘ ، ’گھپلوں‘ اور ’بدعنوانیوں‘کے نام پر ہزاروں کروڑ روپئے کی ہیرا پھیری ہوجاتی ہے اور لوگ بدعنوانی کرکے اپنی کئی نسلوں کی زندگیاں ’سنوار‘ لیتے ہیں عوام، جنتا بے حس بنی رہتی ہے۔ کوئی آواز نہیں اُٹھتی ، کوئی شور نہیں مچاتا۔۔۔یہ وہ ملک ہے جہاں باپو مہاتما گاندھی نے صر ف اس لیے سلے سلائے کپڑے پہننے چھوڑ دئیے تھے کہ انہوں نے لوگوں کو بے لباس دیکھا تھا۔ بے لباس اس لیے کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے اور کپڑے اس لیے نہیں تھے کہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ باپو جی ساری عمر ہلکی سی دھوتی پہنے رہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں شاستری جی نے بھی وزارت عظمیٰ کی گدّی کو رونق بخشی تھی اور گلزاری لال نندہ بھی وزیر اعظم بنے تھے۔ اگرایک کے پاس صرف دو جوڑی کپڑے تھے تو دوسرا ایسا تھا جسے کرایے کے گھر میں رہنا پڑتا تھا اور کرائے کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں جس کا سامان مالک مکان نے نکال باہر پھینک دیا تھا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ایسے ان گنت سیاست داں گزرے ہیں جنہو ں نے سادگی کو اپنی فطرت میں شامل کرلیاتھا، جو سادا کھاتے اور سادا پہنتے تھے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے ارد گرد عوام ،جنتا کو سادا کھاتے اور سادا پہنتے دیکھتے تھے۔
لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ سادگی ’جرم‘ ٹہری ہے۔ آج اگر سیاست داں اپنی دولت کی نمائش نہ کریں تو وہ خود کو سیاست داں ہی نہیں سمجھتے۔ پہلے لمبی کاریں نہیں ہوتی تھیں اب یہ لازمی ہیں ،پہلے تو سیاست دانوں کو جن میں وزراء بھی شامل ہوتے تھے اپنی جانوں کا خطرہ بھی نہیں ہوتا تھا اس لیے وہ ’زیڈ‘ یا ’زیڈ پلس‘ کی سیکوریٹی کیا ہے نہیں جانتے تھے۔۔۔او رہمارے وزیر اعظم تو سب پر بازی لے گئے ہیں وہ ایک ’فیشن آئکن‘ یعنی ’فیشن کی علامت‘ بن چکے ہیں۔ ڈیزانئر سوٹ وہ اس طرح بدلتے ہیں جیسے چھوٹے بچوں کے پوتڑے کہ وہ بار بار پوتڑوں کو خراب کرتے رہتے ہیں۔ ان کے کرتے تو اس قدر فیشن میں ہیں کہ امریکہ کے سابق صدر اوبامہ نے ’مودی کرتا‘ پہننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ملائم سنگھ کہتے ہیںکہ مودی دن میں کئی سو کرتے بدلتے ہیں اور ہر میٹنگ میں نئے نئے کرتے پہن کر آتے ہیں چاہے وہ میٹنگیں ایک ہی دن میں کیوں نہ ہوں۔ اٹلی کی برانڈیڈ کمپنی کے چشمے پہنتے ہیں، برانڈیڈ گھڑیاں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں، وہ اعلیٰ سے اعلیٰ طرز کے ہیٹ پہننے کے شوقین ہیں۔ سوٹ کا یہ معاملہ ہے کہ پلوامہ خودکش حملے کے بعد وہ ہمیشہ الگ الگ سوٹ میں دکھے ہیں۔۔۔سوال یہ ہے کہ غریبوں کے ملک کا وزیر اعظم کیسے شاہانہ زندگی گزارسکتا ہے! اگر وہ خود کے پیسے بھی خرچ کرتا ہوتب بھی سوال ہے کہ کیا ایک وزیر اعظم کے طو رپر اسے ایسی شاہ خرچی اور فیشن پرستی اور نمائش زیب دیتی ہے؟؟؟