Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 22, 2019

آسام شہریت معاملہ میں ایک سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے رٹ کو خارج کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھیں پوری رپورٹ!!

مولانا محمود مدنی اور مولانا بدر الدین اجمل نے عدالت کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا
نئی دہلی۔۲۲؍اپریل (صداۓوقت) ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج آسام میں شہریت سے متعق ایک معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے آسام سنمیلیٹا سنگھما نامی تنظیم کے ذریعہ دائر کردہ اس عرضی کو خارج کر دیا جس میں اپیل کی گئی تھی کہ آسام اکورڈ کو چیلنج کرنے والے مقدمہ کے لئے پانچ رکنی آئینی بنچ تشکیل دیکر اس کی سماعت جلد از جلد کی جائے اور اس کو این آر سی کے کام مکمل ہونے سے پہلے کر لیا جائے۔
 مگر چیف جسٹس کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ اس مقدمہ کے لئے جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اسلئے اس سلسلہ میں کسی اپیل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔واضح رہے کہ ۱۹۸۵ میں ہوئے آسام اکورڈ کے مطابق آسام میں شہریت کے لئے ۲۵، مارچ ۱۹۷۱ کو بنیاد مانا گیا ہے یعنی اس تاریخ سے پہلے یہاں آکر بس جانے والوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کیا جائے اور اس کے بعد آنے والوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے،اور ابھی این آر سی کا کام آسام ا کورڈ کے مطابق ہی ہو رہا ہے۔ مگر آسام پبلک ورک اور آسام سنمیلیٹا سنگھما نامی تنظیم نے سپریم کورٹ میں ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۲ میں مقدمہ دائر کر کے آسام اکورڈ کو چیلنج کرتے ہوئے آسام میں شہریت کے لئے ۱۹۵۱ کے این آر سی کو بنیاد بنانے کی اپیل کی ہوئی ہے۔اگر ان تنظیموں کی بات مان لی جائے تو لاکھوں لوگوں کی شہریت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ چونکہ یہ معاملہ لاکھوں لوگوں کی شہریت سے متعلق تھا اسلئے مولانا بد رالدین اجمل صاحب کی سربراہی میں جمعیۃ علماء صوبہ آسام نے ان دونوں مقدمہ میں فریق بنکر ان تنظیموں کے موقف کی مخالفت کی اور آسام اکورڈ کو برقرار رکھتے ہوئے ۲۵، مارچ ۱۹۷۱ کو ہی کٹ آف ڈیٹ قرار دینے کی پر زور وکالت کی ہے۔ یہ سب مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں اور فی الحال عدالت این آر سی کی تیاری پر زور دئے ہوئے ہے جس کا کام آخری مر حلہ میں ہے۔ آسام میں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی اور غیر ملکی کے نام پر پریشان کیا جا تا رہاہے اور ان تنظیموں کو امید تھی کہ این آر سی کی تیاری میں مسلمانوں کا نام نہیں آپائے گا تو ہمیں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کا مزید موقع ملے گا مگر جب این آر سی کا کام شروع ہوا تو مسلمانوں کی اکثریت نے اس کے لئے اپلائی کر دیا تو ان کے پروپیگنڈۃ کی ہوا نکل گئی جس سے ان کو پریشانی ہونے لگی۔ پھر ان لوگوں نے حکومت کی مدد سے یا آفیسر وںکے ذریعہ طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنانے شروع کئے اور این آر سی مین اندراج کو مشکل بنانے کی کوشش کی۔ اسی اثناء میں کچھ دنوں پہلے ان تنظیموں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے اپیل کی کہ ان لوگوں کے ذریعہ دائر کردہ آسام اکورڈ کو چیلنج کرنے والے مقدمہ کی سماعت جلد از جلد بلکہ این آر سی کی تکمیل سے پہلے کی جائے ۔ در اصل ان کی خواہش یہ تھی کہ اگر فیصلہ ان کے مطابق آجاتا ہے تو ابھی چل رہے این آر سی کی تیاری کا کام ۱۹۵۱ کے این آر سی کے مطابق ہوگا جو کہ ان کا مقصد ہے مگر عدالت نے اس عرضی کو خارج کر دیا اور کہا کہ اس میں جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،عدالت مقدمات کو اپنے طور پر دیکھ رہی ہے اسلئے اس سلسلہ میں کوئی حکم یا ہدایت دینے کی فی الحال کوئی وجہ نہیں ہے۔آج کی سماعت کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر ورکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل نے عدالت کے اقدام کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ تنظیمیں آسام میں شہریت کے معاملہ کو بہانہ بناکر لوگوں کو پریشان کرنا چاہتی ہے جبکہ جمعیۃ کا موقف بالکل واضح ہے کہ آسام میں شہریت کا فیصلہ آسام اکورڈ کے مطابق ہو۔ مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی کسی بھی غیر ملکی کی حمایت نہیں کی لیکن ہماری لڑائی صرف ہندوستان کے حقیقی شہریوں کو پریشان کئے جانے کے خلاف ہے اور اس کے لئے ہم ہر سطح پر لڑائی لڑ رہے ہیں۔آج کی سماعت میں جمعیۃ علماء صوبہ آسام کی جانب سے سینئر اڈووکیٹ بی ایچ مالا پلے،اڈووکیٹ سنجے ہیگڑے ،اڈووکیٹ ابولقاسم تعلقدار اور اڈووکیٹ اے ایس تپادر وغیرہ حاضر تھے جبکہ جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے سکریٹری مولانا فضل الکریم اور مولانا منظر بلال قاسمی وغیرہ بھی موجود تھے۔