Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 6, 2019

مسلم اکثریتی پارلیمانی حلقے اور مسلمانوں کی نمائندگی۔اعداد وشمار کی روشنی میں۔

از / امام الدین علیگ/ صدائے وقت۔/ ڈاکٹر شرف الدین اعظمی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ملک میں سبھی 543 پارلیمانی سیٹوں میں 74 سے زیادہ سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹر فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے ۔57 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد سے بھی  زیادہ ہے کل ملاکر تقریباً 220 پارلیمانی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کا ووٹ شئیر 10 فیصد سے زیادہ ہے۔تقسیم آبادی کی آمیزش اس طرح سے کسی اور قوم کی ہوتی تو وہ اقتدار سے کبھی ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔یہاں تو 7/8 فیصد آبادی والے بھی اقتدار کے مزے لے رہے ہیں اور اوسطاً 14/15 فیصد آبادی والے مسلمان غیروں کے در پہ ہاتھ پھیلائے بے یار و مددگار کھڑے ہیں۔قوم کی یہ حالت افسوسناک اور باعث تشویش ہے۔
ملک کی سب سے زیادہ آبادی (40 سے 97 فیصد) والی  28 سیٹیں ہیں ۔۔تفصیل یہ ہے۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . 
بارہمولا / جمو کشمیر۔۔97 فیصد۔
آننت ناگ۔جمو کشمیر 95.5 فیصد، لکشدیپ 95.47 فیصد۔۔۔سرینگر جمو کشمیر 90 فیصد، ۔۔کشن گنج بہار 67 فیصد، بیرہم پور۔۔مغربی بنگال۔64 فیصد، پوننانی ۔۔۔کیرل۔64 فیصد۔۔۔جنگی پور بنگال 60 فیصد، مرشدآباد بنگال 59 فیصد, وائناڈ کیرل 57 فیصد، رائے گنج بنگال 56 فیصد، دھوبری آسام 56 فیصد، ملپپورم کیرل 69 فیصد، سنبھل یوپی 47 فیصد۔رام پور یو ہی 50 فیصد۔لداخ جمو کشمیر 46 فیصد۔مراد آباد یوپی 46 فیصد، کریم گنج آسام 45 فیصد، بشیر ہٹ بنگال 44 فیصد، کٹیہار بہار 42.53 فیصد، بھوپال نارتھ ایم پی 42 فیصد ، نگینہ یو پی 42 فیصد، حیدر آباد تلنگانہ 41.17 فیصد۔
سکندر آباد تلنگانہ 41.17 فیصد،ارریا بہار 41.14 فیصد، مالدہ شمالی بنگال 50 فیصد، مالدہ جنوبی بنگال 53.46 فیصد، اور بھیوندی مہاراشٹر 40 فیصد۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
.وہ 29 سیٹیں جہاں مسلم آبادی 30 فیصد سے زیادہ اور 40 فیصد سے کم ہے۔
سہارنپور۔۔یوپی 39 %، بجنور یوپی 39% ۔برپیٹا آسام 39 % ۔امروہا یو پی 38%،،گڑگاوں ہریانہ 38 %،، پورنیا بہار 37%،،کوجی کوڈ کیرل 37%، ویربھوم بنگال 36%، واٹکرا کیرل 35 %، بہرائچ یو پی 35 %،، بریلی یو پی 34%، جادو پور بنگال 33%،متھرا پور بنگال 33%، کرشنا نگر بنگال 33%، نوگاوں آسام 33%، ڈائمنڈ ہربر بنگال 33%،کاسروڈ کیرل 33%، شراوستی یو پی 32%، اودھم پور جمو کشمیر 31%، میرٹھ یو پی 31 % ، جے نگر بنگال 30 %، کالیوبور آسام 30 %، بیتل ایم پی 30%، مندسور ایم پی 30%، فرید آباد ہریانہ 30%۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
28 سیٹیں جہاں مسلم آبادی 20 فیصد سے زیادہ اور 30 فیصد سے کم ہیں۔
ارریًا بہار 29%، جمو 28% ، ڈمریا گنج یو پی 27%، گڈڈا جھارکھنڈ 25%، راج محل جھارکھنڈ 25%، بولپور بنگال 24%، گوہاٹی آسام 25%، مدھو بنی بہار 24%، منگل دیئی آسام 24%، قیصرگنج یوپی 23%، لکھنئو یو پی 23%، کوچ بہار بنگال 23%، دربھنگا بہار 22%، شاہجہانپور یوپی 21%, بارہ بنکی یوپی 21%، سیتا مڑھی بہار 21%، مغربی چمپارن بہار 21%، الوبیریا بنگال 22%، نارتھ ایسٹ دہلی 21%، مشرقی چمپارن بہار 20%، جمشید پور جھارکھنڈ 20%، جادو پور بنگال 20%، ممبئی نارتھ ویسٹ 20%، ممبئی ساوتھ 20%، گلبرگ کرناٹک 20%۔
2011 مردم شماری  کے مطابق مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے ۔اس آبادی کے تناسب سے تقریباً 77 مسلم ایم پی ہونے چاہئیے ۔16 ویں / موجودہ لوک سبھا میں 23 مسلم ایم پی رہے جو کہ 14 فیصد آبادی کا 4.2 فیصد ہی بنتا یے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر وہ کون سا اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے جس سے مسلمان اقتدار میں اپنی حصے داری کو یقینی بنا سکے ۔اس کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان دلتوں کی طرح اپنی سیاسی قیادت کھڑی کرے اور اپنی پارٹی کے بینر تلے ثابت قدم ہو جائیں، تبھی جاکر اپنی حقیقی نمائندگی حاصل کر سکتے ہیں۔در اصل ہندوستانی جمہوریت میں اصل نمائندگی پارٹیاں کرتی ہیں ایم پی یا ایم ایل اے نہیں۔ایم پی ایم ایل اے تو اپنی پارٹی لائن سے ہٹ کر ایک لائن بھی بول نہیں سکتے۔اس لئیے دوسروں کی پارٹیوں سے آپ چاہے جتنا ایم پی، ایم ایل اے ، جتا کر بھیج دیں وہ نہطتو مسلمانوں کی وکالت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے حقیقی مسائل کو حل کر سکتے ہیں، یہ سب تبھی ممکن ہے جب ملک کے مسلمان آنکھ بند کرکے اپنی پارٹیوں کے پیچھے ثابت قدم ہوجائیں ورنہ یوں ہی در در کی ٹھو کریں کھاتے رہیں گے ، دوسروں کے در کی خاک چھانتے رہیں گے اور گزرتے وقت کے ساتھ مسلمانوں کا مستقبل اور ان کا وجود تاریکی  میں  ڈوبتا چلا جائے گا۔
وقت آ گیا ہے کہ اب مسلم قوم اور مسلم تنظیمیں بی جے پی کے خوف میں اپنے مستقبل سے سمجھوتہ کرنا بند کردے۔ ورنہ آنیوالا کل کبھی معاف نہیں کرے گا۔کوئی غیر ہمارے درد کا مداوا نہیں کرسکتا ۔ہمیں خود اپنی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے شروعات کرنی ہوگی ۔۔ان پر دلالی کی تہمت (جو کہ عظیم گناہ ہے )اور انکے متعلق مختلف قسم کے حیلوں اور حوالوں سے باز آکر ان کے پیچھے مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا ۔۔۔پھر ان میں جو برتر اور اہل ہوگا وہ خود ہی بڑھ کر پرچم اٹھائے گا۔آخر اپنوں کے انتشار کا رونا کب تک روئیں گے؟ اپنوں کا انتشار ، غیروں کی اتباع کا جواز نہیں بن سکتا۔
دوسری ہارٹیوں سے امید لگانا بے سود ہے ۔وہ تو آپ کو آپ کی آبادی کے تناسب سے ٹکٹ دینے کو بھی راضی نہیں۔اور اگر دے بھی دیں تو وہ مسلم ایم پی، ایم ایل اے آپ کے کام کے نہیں۔ان سے اگر کچھ مانگنا ہی ہے تو اپنی پارٹیوں سے اتحاد و حصے داری مانگیے ۔ہاتھ پھیلائیں تو ان کے حق کے لئیے اپنی غلامی کے لئیے نہیں ۔ کاش !!  مسلمان دلتوں سے کچھ سبق سیکھ لیں۔
*References:*حوالہ جات۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
1-https://www.indiatoday.in/india/muslim-representation/story/fact-sheet-muslim-representation-in-parliament-184338-2014-03-10
2-https://www.indiatoday.in/magazine/cover-story/story/20130923-power-and-reach-of-muslim-vote-assembly-elections-lok-sabha-polls-767654-2013-09-12
3-https://m.timesofindia.com/india/Muslim-representation-on-decline/articleshow/48737293.cms
4-http://citizensamvad.com/72-सीटें-ऐसी-जहां-मुस्लिम-मत/
5-https://www.google.com/amp/s/hindi.oneindia.com/amphtml/news/india/profile-of-sambhal-lok-sabha-constituency-489661.html
6-https://www.dnaindia.com/analysis/standpoint-lok-sabha-elections-muslim-voters-appear-divided-hindus-voting-en-bloc-in-uttar-pradesh-1980291