آفتاب اظہرؔ صدیقی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج سوشل میڈیا پر کنہیا کمار کے خلاف ایک تحریر گردش کر رہی ہے، جس کا عنوان ہے "کنہیا اور ہندوستانی مسلمان" جو مکمل ذاتی اختلاف اور عداوت یا اپنی سطحی سوچ پر مشتمل ہے۔ کنہیا کے خلاف کچھ شرپسند ہندو اور کچھ کم عقل مسلمان ہی یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے اندرونی طور پر محبت نہیں رکھتا، ایسا کہنے والوں نے اگر کنہیا کے دل کو چیر کر نہیں دیکھا ہے تو پھر انہیں کیا حق ہے کہ وہ کنہیا کو مسلم مخالف بناکر پیش کریں، پڑھنے والے تو کچھ بھی پڑھ کر اپنا ذہن فوری طور پر بدل لیتے ہیں، لیکن کچھ لکھنے والے بھی بہت جلد سازشوں کا اثر قبول کر لیتے ہیں، آدمی کے پرقصد اور پختہ ہمت ہونے کے لیے ذہنی استقلال اور دور اندیشی ضروری علامت ہے۔ میں نے جو تحریر پڑھی وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ہی کسی فارغ التحصیل کی ہے جس نے اپنے ہندو دوستوں کے کہنے پر کنہیا کو مطلب پرست اپرکاسٹ کا بندہ تسلیم کرلیا، نیز یہ کہ یونیورسٹی میں جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ اسے ہیرو بنانے کے لیے تھا، محرر نے کس قدر جھوٹ اور ناانصافی سے کام لیا ہے۔ جب کنہیا پر دیش دروہی کے الزامات لگائے گئے، جب اس کے پیچھے غنڈے چھوڑے گئے، جب پولیس نے بھی اس پر ظلم کیا، جب اس کے حامیین میں کوئی بااثر نام سامنے نہیں آیا تب بھی اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے ساتھ ساتھ اس نے ہر مظلوم کی طرف سے آواز اٹھائی، لوگ اسے مظلوم بنا چکے تھے، الزام لگاکر مجبور بھی کرنا چاہ رہے تھے، لیکن اس نے تمام مظلوموں کا یکے بعد دیگرے نام لے لے کر درد بیان کیا، ہر مظلوم کے لیے آواز بلند کی۔
یاد کیجیے! اس وقت کنہیا نے مسلمانوں کے پرامن ہونے کے تعلق سے کتنی مدلل تقریریں کیں، مجھے آج بھی یاد ہے کنہیا کی وہ تفصیلی گفتگو جس میں اس نے بتایا تھا کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگاکر اسلام کو بدنام کرنے کی عالمی سازشیں رچی گئی ہیں، ہر ان ہونی کے بعد، ہر دھماکے کے بعد عالمی میڈیا نے پروپیگنڈہ کے طور پر کسی نہ کسی مسلمان کی شکل کا مظاہرہ کیا، ہر آتنکی حملے کے بعد کسی نہ کسی داڑھی ٹوپی والے کا فوٹو پوری دنیا میں عام کیا گیا تاکہ مسلمانوں کے تعلق سے لوگوں کے ذہن میں غلط فہمی بیٹھ جائے، دہشت اور آتنک کا نام سنتے ہی کسی داڑھی ٹوپی والے کا تصور ہونے لگے۔ کنہیا کمار نے بجنور کے نجیب کے لیے آواز اٹھائی، روہت ویملا کے لیے کھل کر بولا، اخلاق اور پہلو خان کے قتل پر مودی سرکار کو ظالم کی صف میں کھڑا کیا۔ آج تک وہ بے باکی کے ساتھ اپنے مشن پر گامزن ہے، اس نے لوگوں کو دیش بھکتی کا صحیح مطلب بتایا اور برسر عام کہا کہ مودی دیش نہیں ہے اور نہ بھاجپا کے خلاف بولنا دیش دروہی والا عمل ہے، اس نے بھاجپا کے نیشنلزم کے مصنوعی معنیٰ کو غلط کرکے رکھ دیا۔ اس نے بی جے پی کے کتنے ہی پروپیگنڈوں کو عوام کے سامنے لاکر خاک میں ملا دیا۔ اس سب کے باوجود وہ مٹی کے گھر میں رہنے والا غریب کا بیٹا اگر بھاجپا اور کانگریس کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہا ہے تو یہ اسی کی شان دلیری ہے۔
ہم کنہیا کو ذاتی مفاد کی آنکھوں سے یا مذہبی عینک سے نہ دیکھ کر ملکی مفاد اور مظلوموں کی آس بھری نگاہوں سے دیکھیں تو ہمارا دل یہی کہے گا کہ کنہیا کو کامیابی ملنی ہی چاہیے۔
متفرق
Sunday, April 28, 2019
کنہیا اور کچھ کم عقل مسلمان۔
Tags
افکار و نظریات#
Share This
About Sadaewaqt
افکار و نظریات
Labels:
افکار و نظریات
Author Details
www.sadaewaqt.com