Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 8, 2019

آسیہ بی بی نے توہینِ مذہب کے مقدمے میں بری ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ دیا

پاکستانی حکام کے مطابق توہین مذہب کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے باعزت بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ نورین پاکستان سے چلی گئی ہیں۔
صدائے وقت اردو آن لائن نیوز سروس/ ذرائع/ نمائندہ۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  

.  .  .  .  .  .  .  .  .  
پاکستانی دفترِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات کے ذرائع نے  آسیہ بی بی کی روانگی کی تصدیق کی تاہم یہ نہیں بتایا کہ ان کی منزل کیا ہے اور وہ کب ملک سے روانہ ہوئیں
آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کے مطابق وہ کینیڈا پہنچ چکی ہیں جہاں ان کی دونوں بیٹیاں پہلے سے موجود ہیں۔
توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی حقدار ٹھہرائے جانے والی آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن گزشتہ برس اکتوبر میں عدالتِ عظمیٰ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔
بعدازاں رواں برس کے آغاز میں ان کی بریت کے خلاف دائر اپیل بھی خارج کردی گئی تھی۔
آسیہ بی بی کو رہائی کے بعد پاکستان میں ایک نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کی رہائی کے فیصلے پر ملک میں مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 10 اپریل کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ آسیہ بی بی 'بہت جلد پاکستان چھوڑ دیں گی۔
 اس موقع پر عمران خان نے یقین دہانی کرائی کہ آسیہ بی بی محفوظ ہیں اور وہ  جلد ہی  پاکستان چھوڑ کر چلیجائیں ۔گی
آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف اپیل کی سماعت کے بعد ان کے وکیل سیف الملوک نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ توہین مذہب کے مقدمے میں عدالت عظمی سے رہائی پانے کے باوجود ان کی موکلہ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق تھے۔
اُنھوں نے کہا تھا کہ ملک کے متعدد علمائے کرام نے آسیہ بی بی کے قتل کے فتوے جاری کر رکھے ہیں اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ بیرون ملک چلی جائیں۔
اپنے ایک بیان میں سیف الملوک نے یہ بھی بتایا تھا کہ آسیہ بی بی کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ اس خاندان کے ترجمان جوزف ندیم کے اور ان کے اہلخانہ بھی کینیڈا منتقل ہو چکے ہیں۔
سیف الملوک کے مطابق یورپی ممالک نے جوزف ندیم اور ان کے اہلخانہ کو ویزہ دینے یا اُنھیں مستقل سکونت دینے سے انکار کر دیا تھا تاہم کینیڈا کی حکومت نے آسیہ بی بی کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ جوزف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی سکونت اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔
آسیہ بی بی کیس کیا تھا۔
آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی تھیں جو لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔
2009 میں اسی گاؤں میں فالسے کے ایک باغ میں آسیہ بی بی کا گاؤں کی چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے دوران مبینہ طور پر انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف 'تین توہین آمیز' کلمات کہے تھے۔
استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے معافی طلب کی۔
الزام لگنے کے چند روز بعد آسیہ کو اِٹاں والی میں ان کے گھر سے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں۔
جون 2009 میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس میں توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے تحت الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف 'تین توہین آمیز' کلمات کہے تھے۔
اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام قاری محمد سالم تھے تاہم آسیہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کروا دیا گیا۔
2010 میں ضلع ننکانہ صاحب کی سیشن عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئیں۔
آسیہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014 میں عدالت نے سزا کی توثیق کر دی۔
آسیہ بی بی نے جنوری 2015 میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس نے اکتوبر 2018 میں انھیں بری کر دیا۔اور اب وہ پاکستان چھوڑ کر کنیڈا جا چکی ہیں۔