Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 19, 2019

زکوٰة ، ایک مالی عبادت۔


عاصم طاہر اعظمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آپ دنیا کی کسی بھی تحریک کو دیکھ لیں کسی بھی مذہب کا مطالعہ کر لیں روٹی کا مسئلہ نہ کسی نے نظر انداز کیا نہ کیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ غریبوں بیواؤں، یتیموں اور معذوروں کی مدد کرنے کا حکم ہر جگہ ہر ایک نے دیا اور دے رہے ہیں مگر جس طریقے سے اس مسئلے کو اسلام نے اپنایا اور جس حکمت عملی سے حل کیا ہے وہ صرف اسلام ہی کا خاصہ ہے عام طور پر دوسرے مذاہب میں ایک دوسرے کی مدد ایک اخلاقی ہدایت تک محدود رکھی گئی ہے کہ مدد کرنا چاہیے دوسرے کی مدد کرنا اچھی بات ہے، مگر یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے جو نظام حیات دیا ہے اس میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کے بعد زکوٰۃ کی صورت میں غربت کے مسئلے کو حل کیا ہے زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا جا سکتا ہے کہ اسلام کی سب سے مقدم عبادت نماز کے بعد اسی کا نمبر ہے شب معراج کو فرض ہوئی یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے جب کہ زکوٰۃ 2ہجری میں فرض ہوئی قرآن کریم میں نماز اور زکوٰۃ کو 82 مقامات پر ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے جس کی نظیر کسی اور حکم میں نہیں ملتی، زکوٰۃ ادا کرنے کے چند مقاصد اور آداب ہیں جو ملحوظ رکھنے چاہئیےاور اگر ان آداب کا خیال نہ رکھا جائے تو زکوٰۃ کی ادائیگی مشکوک بن جاتی ہے، زکوٰۃ دہندہ کا دل دنیا کی حرص و ہوا سے پاک ہو جائے یہ زکوٰۃ کا حقیقی اور بنیادی مقصد ہے اور وہ تقوی کے کاموں کے لیے تیار رہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے، اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیزگار شخص کو بچا لیا جائے گا جو اپنا مال (الله کی راہ میں) دیتا ہے کہ اس سے اپنے جان ومال کی پاکیزگی حاصل کرتا ہے، زکوٰۃ کا دوسرا مقصد رضائے الٰہی ہے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا :ہم تم کو صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے کسی بدلے کے خواہاں ہیں نہ شکریے کے، (سورہ الدھر :9)زکوٰۃ ادا کرنے سے رب کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے لہذا کسی اور مقصد کو رضائے الٰہی پر فوقیت نہیں دینی چاہیے لینے والا اپنا حق لے رہا ہے اور دینے والا اپنا فرض ادا کر رہا ہے لینے والا سوائے پروردگار کے کسی اور کا احسان نہیں اٹھائے گا اور دینے والا سوائے رضائے الٰہی کے کسی صلہ و ستائش کا طالب نہیں ہوگا، زکوٰۃ کی اس غیر معمولی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے اس کا حکم اگلے پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ہی ساتھ برابر رہا ہے، سورۂ انبیاء میں حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسحق اور پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:۔ ’’اور ہم نے ان کو حکم بھیجا نیکیوں کے کرنے کا (خاص کر) نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے کا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے‘‘ (سورۃ انبیاء۵) اور سورۂ مریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے:۔ ’’ اور وہ اپنے گھروالوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے‘‘ اور اسرائیلی سلسلے کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ ابن مریم کے متعلق ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا:۔ ’’میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور نبی بنایا ہے اور جہاں کہیں میں ہوں مجھے اس نے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوۃ کی وصیت فرمائی ہے‘‘ (سورۃ مریم۲) سورۂ بقرہ میں جہاں بنی اسرائیل کے ایمانی میثاق اور ان بنیادی احکام کا ذکر کیا گیا ہے جن کی ادائیگی کا ان سے عہد لیا گیا تھا ان میں ایک حکم یہ بھی بیان کیا گیا ہے:۔ ’’اور نماز قائم کرتے رہنا اور زکوۃ ادا کیا کرنا‘‘ (سورۃ بقرہ۱۰) اسی طرح جہاں سورہ مائدہ میں بنی اسرائیل کے اس عہد ومیثاق کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں بھی فرمایا گیا ہے:۔ ’’اوراللہ نے فرمایا میں (اپنی مدد کے ساتھ) تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہے‘‘ (سورہ مائدہ۳) قرآن مجید کی ان آیات سے ظاہر ہے کہ نماز اور زکوٰۃ ہمیشہ سے آسمانی شریعتوں کے خاص ارکان اور شعائر رہے ہیں، ہاں ان کے حدود اور تفصیلی احکام وتعینات میں فرق رہا ہے اور یہ فرق تو خود ہماری شریعت کے بھی ابتدائی اور آخری تکمیلی دورمیں رہا ہے، مثلاً یہ کہ پہلے نماز تین وقت کی تھی پھر پانچ وقت کی ہوگئی، اور یہ کہ پہلے ہر فرض نماز صرف دو رکعت پڑھی جاتی تھی پھر فجر کے علاوہ باقی چار وقتوں میں رکعتیں بڑھ گئیں، اور ابتدائی دور میں نماز پڑھتے ہوئے سلام وکلام کی اجازت تھی اس کے بعد اس کی ممانعت ہوگئی، اسی طرح ہجرت سے پہلے مکہ کے زمانۂ قیام میں زکوٰۃ کا حکم تھا، (چنانچہ سورۂ مؤمنون،سورۂ نمل اور سورۂ لقمان کی بالکل ابتدائی آیتوں میں اہل ایمان کی لازمی صفات کے طور اقامتِ صلوۃ اور ایتاء زکوۃ کا ذکر موجود ہے، حالانکہ یہ تینوں سورتیں مکی دور کی ہیں) لیکن اس دور میں زکوٰۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ اللہ کے حاجت مند بندوں پر اور خیر کی اپنی کمائی صرف کی جائے، نظامِ زکوۃ کے تفصیلی احکام اس وقت نہیں آئے تھے، وہ ہجرت کے 
عاصم طاہر اعظمی

بعد مدینہ منورہ میں آئے، جو صاحبان ثروت اور صاحبان استطاعت زکوٰۃ کی ادائیگی کے احکامات کو پس پشت رکھتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں زکوٰۃ نہ ادا کرنے پر لوگوں کو روز محشر ان کے اموال کے ساتھ سخت حشر کرنے کی وعید سنائی ہے :جس دن اس سونے چاندی اور مال سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا یہ وہی مال ہے جو تم نے اپنی جانوں کے مفاد کے لیے جمع کیا تھا سو اب تم اس کا مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے (التوبہ 35:9)
انسان فطرة بڑا حریص اور مادیت پرست ہے۔ وہ مال و دولت جاہ و منصب سے محبت کرتا ہے اور دنیا کی حرص و طمع اس کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے، ہابیل نے قابیل کا قتل بھی نفسانی خواہش کی تسکین کے لیے کیا تھا کثرت مال کی وجہ سے یہی لوگ اپنا اصل مقصد بھول جاتے ہیں اگر معیشت کو اسلام کے نظام زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کی کما حقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظام زکوٰۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کو ختم کیا جا سکتا ہے، آج کے دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام زکوٰۃ کو منظم طریقے سے فعال کیا جائے تا کہ اس کے فوائد سے حقدار لوگ صحیح معنوں میں مستفید ہو سکیں، اور یہ زکوٰۃ کی ادائیگی ہر سال ہر صاحب نصاب کی جانب سے ہونی چاہئے تاکہ سب لوگوں کو ہمیشہ ذریعہ معاش مہیا کیا جا سکے، الله تعالٰی ہر صاحب نصاب کو اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمیــــن