Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 15, 2019

دسواں روزہ۔۔۔۔۔دسواں سبق۔۔۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلے وار تحریر۔۔

دسواں سبق:/ آنکھ کا روزہ
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
صدائے وقت/ ماخوذ / عاصم طاہر اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔. . . .  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزہ آنکھوں کا بھی ہوتاہے، لیکن آنکھ کے روزے کا مطلب کیا ہے؟
تو آنکھ کا روزہ، آنکھ کو پست رکھنے، حرام اور منہیات سے اس کو محفوظ رکھنے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُمْ، إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ، وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ‘‘۔ (النور: ۱۳، ۳۰)
ترجمہ: آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے بیشک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔  (بیان القرآن، ج: ۲/ ۵۶۸)
آنکھ دل کا راستہ اور روح کا دروازہ ہے، شاعر آنکھ کو گویا بنا کر کہتاہے!
ترجمہ: میںموت کی داعی ہوں، کوئی ہے جس کو موت کی تمنا ہو اور کون ہے جو مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو۔
•  ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علیؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا: اپنی نگاہ کی حفاظت کرو، جو شخص نگاہ کی حفاظت نہیں کرے گا وہ چار مصیبتوں میں مبتلا ہوجائے گا۔
(۱) دلی اضطراب: دل انتشار اور بے چینی کا شکار رہتا ہے، سکون میسر نہیں ہوتا، نتیجتًا انسان اپنی نگاہوں کے انتشار کی شکایت کرتا ہے۔
(۲) نفسانی تھکاوٹ: جب انسان اپنی آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیز کو حاصل نہیں کرپاتا تو حسرت وافسوس اور غم میں مبتلا ہوجاتاہے۔ شاعر کہتا ہے:
جب تم اپنی نگاہ کو آزاد چھوڑتے ہو تو نظر آنے والی چیزیں تمہیں تھکادیتی ہیں، مزید برآں تم اس دیکھی ہوئی چیز کو مکمل طورپرنہ تو حاصل کرسکتے ہو، نہ اُس پر قادر ہو اور نہ ہی بعض پر تمہیں صبر ہونے والا ہے۔
(۳) عبادت کی حلاوت کا ختم ہوجانا: نگاہ کو آزاد چھوڑدینے سے عبادت اور اطاعت کی حلاوت ولذت ختم ہوجاتی ہے، ایسے لوگ ایمان کے ذوق سے محروم ہوجاتے ہیں، ایمان ویقین کا ذوق تو بس انھیں لوگوں کو حاصل ہوپاتا ہے جو اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کو پست رکھتے ہیں۔
(۴) دوسرے گناہوں میں مبتلا ہونا: نظر بازی کی بسا اوقات سزا ہی یہ ملتی ہے کہ انسان اس سے بڑے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ لاحول ولا قوۃ إلا باللّٰہ العلي العظیم۔
اسلاف میں سے کسی کا قول ہے کہ: میں نے ایک مرتبہ اپنی  نگاہ کا غلط استعمال کیا تو چالیس سال بعد میں قرآنِ کریم ہی بھول گیا، پس جو شخص اپنی نگاہ کو پست رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو ایمان کی ایسی حلاوت عطا فرماتے ہیں کہ وہ اپنے سینے میں اُس کا لطف محسوس کرتا ہے۔
حکماء کہتے ہیں: آنکھ کو اگر چھوڑ دیا جائے تو شکار کرتی ہے اور اگر مقید کردیا جائے تو مطیع رہتی ہے اور اگر بالکل آزاد ہی کردیا جائے تو دل کو فاسد کردیتی ہے، اگر اس کی رسی کو چھوڑ دیا جائے تو ہلاک کردیتی ہے۔
علامہ کرمانیؒ کہتے ہیں: جو شخص اپنی نگاہ کو پست رکھتا ہے، اپنے باطن کو تقویٰ سے اور ظاہر کو اتباعِ سنت سے آراستہ کرتا ہے تو اُس کی ایمانی فراست عطا کردی جاتی ہے، اور پھر انھوں نے یہ آیت تلاوت کی: ’’إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَآیَاتٌ لِلْمُتَوَسِّمِیْنَ‘‘۔
نگاہوں کو پست رکھنے کے پانچ فائدے ہیں:
(۱) اللہ رب العزت کی اطاعت کی دولت نصیب ہوتی ہے اور یہ چیز ایک مسلمان کے لیے دنیا اور آخرت کی سب سے بڑی سعادت ہے۔
(۲) دل کا اطمینان نصیب ہوتاہے، فرحت ومسرت سے بہرہ ور ہوتاہے۔
(۳) اللہ کی جانب سے بندے کے اوپر علم ومعرفت اور تقویٰ کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
(۴) انسان غلطیوں، گناہوں اور فتنوں سے محفوظ ومامون ہوکر اللہ کی امان میں چلا جاتاہے۔
(۵) اللہ کی جانب سے خصوصی توجہ کے طور پر نور ایمان عطا کیا جاتاہے۔
ماہِ رمضان جب بھی آتا ہے تو آنکھ سے بھی روزے کا مطالبہ کرتا ہے۔
•  بھوک آنکھ کی سرکشی کو ختم کرکے اس کو کوئی بھی اقدام کرنے سے روک دیتاہے۔
• بھوک نظر کی شہوت کو کمزور کرکے اس کی حرارت کو بجھا دیتی ہے۔
کچھ لوگ بھوکے تو رہتے ہیں؛ لیکن نظر بازی کی وجہ سے حرام کا ارتکاب کرتے ہیں اور روزے کی حقیقت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
لہٰذا ہم سب کو چاہئے کہ جس طرح بھوک کی شدت کو برداشت کرتے ہیں اسی طرح اپنی آنکھ کی بھی حفاظت کریں ، تاکہ ہماری روحیں صحیح سالم رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَجَزَاہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَحَرِیْرًا، مُتَّکِئِیْنَ فِیْہَا عَلٰی الْأَرَائِکِ، لاَ یَرَوْنَ فِیْہَا شَمْسًا وَلاَ زَمْہَرِیْرًا‘‘۔ ((الدہر: ۱۳، ۱۴)
ترجمہ: اور اُن کی پختگی کے بدلے میں اُن کو جنت اور ریشمی لباس دے گا اس حالت میں کہ وہ مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوں گے، نہ وہاں تپش پاویں گے اور نہ جاڑا۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۶۰۶)