Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 15, 2019

یہ دور اپنے ابن تیمیہ کی تلاش میں ہے۔!!

صدائے وقت/ منقول / پرویز احمد خان / گجرات۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
گھوڑے جب زمین پر ٹاپیں مارتے تو گردوغبار کا ایک بادل سا اٹھتا ، نعروں کی گونج سے آسمان کا سینہ چیرا جارھا تھا ،سخت کوش ،تنومند تاتاری کمانیں کھینچے ھوئے تھے عربی گھوڑوں پر ان کے کسے ھوئے بدن ایک عجب منظر پیش کرتے جس کو دیکھنے سے ہی دلوں پر ھیبت طاری ھوجاتی ،کثرت تعداد ، جنگی مہارت ، دلیری و شجاعت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا!
شامی و مصری مسلمان لشکریوں کے دلوں میں ایک وحشت کا عالم تھا یہ لشکر جو کہ تاتار کے جم غفیر کا سامنا کرنے کہ لیے بڑی مشکل سے جمع کیا گیا تھا اس کو اپنی جیت کا یقین نہ تھا !
مگر ایک پینتیس چالیس سال کا نحیف سا شخص جس کہ چہرے پر ایک عجب سی چمک تھی بجلی کی کوندے کی طرح لپک رھا تھا !
اس پر نظر پڑتے ہی لشکریوں کا اضطراب جیسے دور سا ھوجاتا !
وہ ہر دستے کے سامنے سے گھوڑا دوڑاتا ھوا گزرتا اور قسما و حلفا کہتا " کہ آج فتح تمھاری ھوگی"۔ اس قید یافتہ ،نحیف نراز شخص کے وجود سے ایک عجب وقار جھلکتا ،اس کے الفاظ میں عجب جادو تھا ، جنگ کہ لیے تیار ہر دستہ اس کے قریب آکر درخواست کرتا
اے شیخ ابن تیمیہ آئیے ھمارے ساتھ کھڑے ھوں ، دیکھیں ہم جانثار ھیں آپ کی حفاظت بخوبی کریں گے ، مگر اس پر ایک عجب حال طاری تھا اتباع سنت کا امام کہتا نہیں ، رسول اللہ کی سنت ھے کہ بندہ اپنے قبیلے کہ ساتھ ہی کھڑا ھو !
اس کو ہر بات کی فکر تھی ، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ آج شقحب کے میدان میں شکست کا مطلب ،مسلمانوں کی عظیم بربادی ھے ، وہ اس لشکر کا امیر نہ تھا ،مگر لشکر کا عسکری جذبہ اسی کا مرھون منت تھا ،رات کی خاموش تنہائیوں میں یہ اللہ کہ سامنے گڑگڑاتا رھا تھا کہ "مالک لاج رکھنا" ۔ یہ لشکر جو کہ تاتاریوں کی ھیبت سے لرزاں تھا اسی کی مساعی کی وجہ سے اکھٹا ھوا تھا
جنگ کا مرحلہ قریب آرھا تھا ، تاتاریوں کا لشکر صف بندی کرچکا تھا ،

رمضان کا مہنیہ بھی کفر و اسلام کی اس جنگ کو دم سادھے دیکھ رھا تھا ، ابن تیمیہ نے اپنے گھوڑے کو لشکر کا چکر مکمل کرنے کے لیے پھر ایڑ لگائی اس دفعہ ان کے ہاتھ میں کجھوریں تھیں جن کو وہ اہل لشکر کے سامنے کھاتے جاتے اور سنت یاد دلواتے جاتے کہ دشمن کہ مقابلے میں اگر کمزوری کا خدشہ ھے تو روزہ کھول لو ! آج اگر کسی بھی جسمانی کمزوری کی وجہ سے کفر غالب آگیا تو روزے کا فائدہ نہ ھوگا!
معرکہ شروع ھوگیا ،تاتاری پے در پے آگے بڑھے ،ان کے پہلے حملے نے ہی مسلمانوں کی صفوں کو چیر کر رکھ دیا ، بزدل پیٹھ دکھا کر بھاگے ، یہ حالت دیکھ کر مصر کہ حکمران ناصر بن قلاوون نے حکم دیا کہ اس کے گھوڑے کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے ۔ اور اللہ کہ ساتھ میدان جنگ میں موت تک لڑنے کا عہد کیا ۔
امیر حسام الدین دیوانہ وار آگے بڑھے اور تاتاریوں کی صف چیرتے ھوئے شہید ھوگئے ،استاد دارالسلطان نے آٹھ امراءسمیت موت پر بیعت کی اور اور اپنا وعدہ پورا کردیا ،صلاح الدین بن ملک کی شان ہی نرالی تھی امیر ھونے کہ باوجود سپاہیوں سے بھی آگے جا کر لڑ رھے تھے !
شامی لشکر میں ابن تیمیہ کی شان ہی نرالی تھی ،یہ قلم و تقریر کا مجاہد آج تلوار ہاتھ میں تھامے شہادت کی تلاش میں سرگرداں تھا ! بار بار اپنے شامی ھمسازوں کو کہتا کہ مجھے اس جگہ لے چلو "جہاں پر موت ناچ رھی ھو"
شامی جانباز اس کو دیکھ کر ھمت پکڑتے شاھینوں کی طرح جھپٹتے اور چیتوں کی طرح دشمن کہ اجسام میں اپنی تلواریں پیوست کردیتے ،معلوم نہیں کہ ابن تیمیہ نے اس دن کیا نعرے لگائے ھوں گے مگر اس کا اندازہ ضرور ھے کہ جب یہ مرد حق نعرہ لگا کر حملہ آور ھوتا ھوگا تو ایک جم غفیر لبیک کہتا ھوا شیر کی طرح حملہ کرتا ھوگا!
علماء و امرائے اسلام کی یہ بہادری دیکھ کر فوجیوں کے دل ٹہر گئے ،شیر کی طرح پلٹے اور مناجیق کے پتھروں کی طرح تاتار کہ اوپر برس گئے ، شام سے پہلے جنگ کا فیصلہ ھوگیا ،
تاتار کہ خاقان ، قازان کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کی دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ بھی واصل جھنم ھوا !!!
میرے دور کے ابن تیمیہ کہاں ہیں؟