Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 15, 2019

افغان طالبان کا بڑا اعلان۔۔۔طالبان کی آمد کے بعد ملک میں امن آئے گا۔۔۔اور مخالفین کو عام معافی دی جائے گی !!

   از/  نوید مسعود ہاشمی— روزنامہ اوصاف*/ صدائے وقت
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ *’’افغانستان کے شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ طالبان کی آمد کے بعد ملک میں امن واپس آئے گا اور مخالفین کو عام معافی دی جائے گی* ... طالبان کی جانب سے شہریوں کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔‘‘
طالبان(فائل فوٹو)۔

اب جبکہ افغانستان سے امریکی فوج کا فرار نما انخلا ٹھہر گیا ہے۔ ’’بہادر‘‘ امریکہ خود ہی طالبان قیدیوں کو رہا کروا کر ان سے مذاکرات کی داغ بیل ڈال کر معاہدہ بھی کر چکا ہے... تو افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر کچھ تجزیہ کار اور کالم نگار یہ واویلا کر رہے ہیں کہ امریکہ کو اپنے کٹھ پتلی ڈاکٹر اشرف غنی اینڈ کمپنی کو یوں اچانک تنہا چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا۔ کرزئی اور اشرف غنی کے دستر خوان کے بعض راتب خور تو یہاں تک پیشین گوئیاں کر رہے ہیں کہ امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں لامحدود خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ یہ وہی راتب خور ہیں کہ جو امریکہ کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد بغلیں بجاتے ہوئے جارج ڈبلیو بش کو سلامیاں پیش کیا کرتے تھے۔
جاوید غامدی اس کے شاگرد اور امریکی پٹاری کے دانش فروش امریکہ اور نیٹو کی طاقت پر توکل کرکے بار‘ بار یہ کہہ رہے تھے کہ ’’اب دنیا میں طالبان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔‘‘
مگر ملا محمد عمر کے طالبان کو چونکہ رب کی طاقت پہ بھروسہ تھا اس لئے آج 17سال بعد دنیا یہ نظارہ دیکھ رہی ہے کہ بھاری پگڑیوں اور گھنی ڈاڑھی والے طالبان کے ساتھ نہ صرف یہ کہ امریکہ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا‘ بلکہ امریکی رسہ تڑوا کر افغانستان سے نکل بھاگنے کے لئے بھی تیار بیٹھے ہیں۔‘
ممتاز ادیب‘ مصنف‘ عالم دین اور جہادی قائد مولانا محمد مسعود ازہر لکھتے ہیں کہ *ان 17 سالوں میں کون سا اسلحہ ہے کہ جو امریکہ نے طالبان کے خلاف استعمال نہ کیا ہو؟ اور کون سی سازش ہے کہ جو ان کے خلاف نہیں اٹھائی گئی؟ دنیا بھر کے جنگی ماہرین اور بڑے بڑے جرنیل ہر آئے دن پینترے بدل بدل کر طالبان کے خلاف جنگ بھڑکاتے ہوئے تدبیریں رچاتے رہے اور سر کھپاتے رہے‘ سمندروں میں پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے بحری بیڑے‘ پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے تاک‘ تاک کر نشانہ لگانے والے جنگی جہاز‘ لمحوں اور ذروں کو شمار کرکے اپنے ہدف کو تہس‘ نہس کرنے والے کروز میزائل‘ میلوں تک ہر چیز کو بھسم کر دینے والے ڈیزی کٹر بم... خلائوں میں راج کرنے والے نگران مصنوعی سیارچے‘ ہزاروں میٹر کی بلندی پر قائم پٹرول اسٹیشن طیارے‘ اپنی بے پناہ مہارت پر ناز کرنے والے امریکی خفیہ ادارے... ملکوں کی بساطیں لپیٹنے والے جاسوسی ماہرین اور وحشی جسم رکھنے والے کمانڈوز یہ سب استعمال ہوئے‘ مگر نصرت خدا وندی کی برکت سے ناکام رہے۔*
’’کرزئی‘‘ جیسے یتیم سے ڈالر بٹورنے والے جو راتب خور‘ امریکہ کے نکل بھاگنے کے بعد افغانستان میں لامحدود جنگ چھڑنے کی دہائیاں دے رہے ہیں... وہ ذرا اس قوم کو بتائیں کہ 17سالوں سے امریکہ اپنے حواریوں سمیت افغانستان میں موجود ہے... کیا نیٹو یا امریکہ کی موجودگی سے افغانستان میں ایک دن کے لئے بھی امن قائم ہوا؟

بلکہ اصل صورتحال تو یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو ممالک کی موجودگی کے باوجود تقریباً ساٹھ‘ ستر فیصد علاقوں پر حکومت آج بھی طالبان کی ہے اور اندرونی صورتحال تو یہ ہے کہ ملا محمد عمر کے طالبان کابل پر یلغار کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں۔
جب 17سالوں سے امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی‘ افغانستان میں ایک دن بھی امن قائم نہیں کر سکی... *اگر امریکہ مزید بھی سو سال افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کرلیتا تو اس سے سوائے مزید تباہی کے اور کیا حاصل ہوتا؟*
امریکی پٹاری کے وہ دانش چور کہ جن کے ’’قلم‘‘ ٹرمپ کے افغانستان چھوڑنے کے فیصلے کے بعد خون کے آنسو بہانا شروع کرچکے ہیں‘ میری ان سے گزارش ہے کہ وہ اگر امریکہ کو افغانستان چھوڑنے کے فیصلے سے روکنا چاہتے ہیں تو ضرور روک لیں‘ لیکن برائے مہربانی بزدلانہ درقطنیاں چھوڑ کر طالبان کی عظیم الشان فتح کو گہنانے کی کوشش مت کریں‘ جن کو امریکہ اور نیٹو سے ’’وفا‘‘ کی امید تھیں اب آنسو بہانا یقیناً ان کا حق ہے‘ جو اللہ کی مقدس عبادت جہاد کو ایجنسیوں کا کمال قرار دیا کرتے تھے...
امریکہ کی واپسی کے فیصلے کے بعد اب وہ مگرمچھ کے آنسو بہانا بند کرکے توبہ تائب ہو جائیں تو ممکن ہے کہ ان کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو جائے‘ وگرنہ ہمارا تو روز اول سے یہ موقف تھا کہ امریکہ مسلمانوں کا نہ کبھی غمخوار ہوسکتا ہے اور نہ کبھی وفادار !
ہمیں بش کے مقابلے میں قندھار کے بوریانشین کے لہجے پر زیادہ اعتماد تھا کہ جس نے افغانستان کی کسی پہاڑی غار سے بش جیسے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ *’’جنگ تم نے اپنی مرضی سے شروع کی... لیکن جنگ ختم طالبان کی مرضی سے ہوگی‘‘*      وقت نے ثابت کر دیا کہ ملا عمر اور اس کے طالبان سچے تھے جبکہ بش اور اس کے حواری جھوٹے‘ آج جس طرح امریکہ طالبان کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے دوچار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے...
تقریباً 3 دہائیاں قبل اسی طرح مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین تباہ و برباد ہوا تھا‘ تب ’’یار‘‘ لوگوں نے مجاہدین کی فتح کو ’’امریکہ‘‘ سے نتھی کر دیا تھا... اور اب مجاہد طالبان کی فتح مبین کو ’’یاروں‘‘ کا ڈالر خور گروہ کس کے کھاتے میں ڈالنے کی تیاری کر رہا ہے‘ یہ آنے والا وقت بتا دے گا؟ بے شک اللہ کے وعدے سچے ہیں ۔
1995-96-1997میں اس خاکسار کی طالبان کے امیرالمومنین ملا محمد عمر سے قندھار میں کئی ملاقاتیں ہوئیں‘ میں نے انہیں مشکل سے مشکل حالات میں بھی انتہائی مطمئن پایا۔
جس افغانستان میں 17سالوں میں امریکہ اور نیٹو ممالک مل کر ایک دن کے لئے بھی امن قائم نہ کر سکے...
ملا محمد عمر نے تنہا اس افغانستان میں *اسلامی نظام* کے نفاذ کی برکت سے 6سال سے زائد عرصے تک نہ صرف یہ کہ امن قائم کئے رکھا‘ بلکہ اپنے زیرنگیں علاقوں سے پوست کی کاشت کا بھی مکمل خاتمہ کر دیا۔
ملا محمد عمر ‘اللہ والا تھا‘  یہی وجہ ہے کہ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور نیٹو والے ہار گئے‘ جن کے ساتھ ایف بی آئی‘ سی آئی اے ‘ بلیک واٹر اور نجانے دنیا کی کتنی طاقتور خفیہ ایجنسیاں تھیں وہ سب کے سب *سچے جہادیوں* کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوئے‘ بھاری پگڑیوں اور گھنی ڈاڑھی والے طالبان آج ایک دفعہ پھر کابل حکومت سنبھالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں‘ میں ہر قسم کے خدشات اور تحفظات کو دماغ سے جھٹک کر افغان طالبان کے ترجمان کے اس بیان سے لطف لینے کی کوشش کر رہا ہوں کہ طالبان کی آمد کے بعد ملک میں امن واپس آئے گا اور مخالفین کو عام معافی دی جائے گی۔
واہ‘ میرے مولیٰ تیری قدرت پہ قربان!  تو نے جدید دور میں بھی *’’جہاد و قتال‘‘* والوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی والوں پہ غالب کرکے یہود و نصاریٰ اور ان کے حامی منافقین کو ہمیشہ‘ ہمیشہ کے لئے رسوا کر دیا۔
وماتوفیقی الاباللہ
*اللہ کو پامردی مومن پر بھروسہ۔۔۔۔۔ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا*