Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 11, 2019

چھٹا روزہ۔۔۔۔۔چھٹا سبق۔۔۔۔۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلے وار تحریر۔

چھٹا سبق:
رمضان عبادت کا مہینہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صدائے وقت۔
ارشادِ خداوندی ہے: یَا أَیُّہَا المُزَّمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ إِلاَّ قَلِیْلاً نِصْفَہُ أوِانْقُص مِنْہُ قَلِیْلاً، أَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً‘‘۔ (المزمل: ۱، ۴)
ترجمہ: اے کپڑوں میں لپٹنے والے رات کو کھڑے رہا کرو، مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات یا اس سے نصف سے کسی قدر کم کردو، یا نصف سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۵۹۳)

یہ اللہ کا حکم تھا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بس کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری میں لگ گئے اور بہت طویل شب بیداری کی، آہ وزاری بھی کی اور خشوع وخضوع کے ساتھ کی۔
ایک اور موقع پر فرمایا:’’وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہ نَافِلَۃً لَکَ عَسٰی أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُوْدًا‘‘۔ (بنی إسرائیل: ۷۹)
ترجمہ: اور کسی قدر رات کے حصہ میں بھی، سو تہجد پڑھا کیجئے جو کہ آپ کے لیے زائد چیز ہے، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود میں جگہ دے گا۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۳۸۸)
یعنی اگر دنیا میں قیام کرو گے تو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت مقامِ محمود عطا فرمائیں گے۔

ماہِ رمضان، روزہ، عبادت اور شب بیداری کا مہینہ ہے، اس مہینہ کی راتیں بہت پُرلطف اور ساعتیں بہت ہی قیمتی ہوتی ہیں اور اس وقت تو کچھ اور بھی لطف ملتا ہے جب روزہ دار رات کی تاریکی میں عبادت کے لیے کھڑا ہوتاہے، شاعر کہتا ہے:
میں نے رات سے پوچھا، کیا رات کے سناٹے میں کوئی ایسا وقت ہوتا ہے جب گفتگو ہوتی ہو اور رازہائے سر بستہ جیسی باتیں ہوتی ہوں، تو رات نے کہا ، میں نے اپنی پوری زندگی میں ، سحر کے وقت جیسی گفتگو کبھی نہیں سنی۔
روزہ داروں کی رات مختصر ہوتی ہے، کیونکہ وہ پُر لطف ہوتی ہے، اور بیکار لوگوں کی رات طویل ہوتی ہے، کیونکہ مشقتوں سے پُر ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ‘‘۔ (الذاریات: ۱۷)
ترجمہ: وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۴۵۳)
یعنی ان لوگوں کی راتیں بہت اچھی ہوتی ہیں، اور وقتِ سحر کے متعلق ان کی صفت بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: ’’وَبِالْأسْحَارِہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘۔ (الذاریات: ۱۸)
ترجمہ: اور اخیر شب میں استغفار کیا کرتے تھے۔
’’وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْأَسْحَارِ‘‘۔ (آل عمران: ۱۷)
ترجمہ: اور اخیر شب میں گناہوں کی معافی چاہنے والے ہیں۔
تاریک راتوں میں مہاجرین وانصار صحابہؓ کے رونے کی آوازیں سنی جاتی تھیں، جبکہ صبح ہوتے ہی ان کی سیادت اور شجاعت کے چرچے ہوتے، شاعر کہتا ہے:
وہ رات میں عبادت کرتے اور دشمنوں سے ملاقات کے وقت بہادری کا مظاہرہ کرتے۔
رات کی تاریکی میں مہاجرین وانصار کے گھر، تلاوت کے مدارس اور ایمانی تربیت کے مراکز ہوتے تھے، جبکہ آج اکثر گھروں کا یہ عالم ہے کہ وہ گانے بجانے اور لہو ولعب کے مرکز بن گئے ہیں۔ اللّٰہُمَّ عفوک یا کریم۔
شب بیداری نہ کرنے کی وجہ سے آج ہمارے دل سخت ہوگئے ہیں ، آنکھیں خشک اور ایمان کمزور پڑ گئے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاحْتَسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ‘‘۔ (بخاری، ج: ۱/ ۶۵، رقم الحدیث: ۳۶)
جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ عبادت کرتا ہے تو اُس کے سابقہ گناہوں کو بخش دیا جاتاہے۔
شب بیداری میں ہمیں اس طورپر کچھ تعاون مل سکتا ہے کہ روزِ محشر کی ہولناکی اور اس دن رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور کریں۔
یومَ یقوم النَّاسَ لِرَب العالمین۔
ترجمہ: جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
جس دن قبروں میں مدفون سارے انسان اللہ کے روبرو ہوںگے۔
جس دن، دل کا کوئی بھید ، بھید نہ رہے گا۔
ہمارے اسلاف مختلف طرح سے شب بیداری کرتے، چنانچہ کبھی تو وہ پوری رات صرف حالتِ رکوع میں گزار دیتے، کبھی سجدے میں اور صرف کھڑے ہوکر، کبھی تلاوت کرتے ہوئے روتے ہوئے۔کبھی ذکر کرتے ہوئے ،خدا کی نشانیوں میں غوروفکر کرتے ہوئے اور کبھی شکر گزاری کرتے ہوئے۔
آج کیسی بات ہے کہ ہمارے گھروں سے شب بیداری کا خاتمہ ہوچکا ہے، تلاوت ِقرآن کا نام باقی نہیں رہ گیا اور تہجد گزاروں کی کمی کی شکایت ایک عام بات ہوگئی ہے، جب رات کی تاریکی چھا جاتی ہے تو غافلین کے دل سوجاتے ہیں، لہوولعب میں مشغول رہنے والوں کی روحیں مردہ ہوجاتی ہیں اور عین اسی وقت ایمانی قلوب کو ایک نئی زندگی ملتی ہے اور خوف کرنے والی آنکھیں بیدار ہوتی ہیں۔
اگر کوئی شخص قبروحشر کے احوال یاد رکھے تو اُس کو نیند نہیں آسکتی، حیرت ہوتی ہے مسلمانوں کی اُن نسلوں پر جو پوری پوری رات گانے بجانے شطرنج اور بے حیائی وغیرہ میں گزار دیتے ہیں، شاعر کہتا ہے:
صحابۂ کرامؓ کے مانند بنو! زہد وتقویٰ میں، وہ ایک ایسی قوم تھی جس کی کوئی نظیر نہیں، رات کی تاریکی میں وہ عبادت کرتے تھے، بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جن کے رخسار پر خوفِ خدا سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوتی ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ِ عمرؓ سے ارشاد فرمایا: کہ فلاں شخص کی طرح مت بنو وہ پہلے شب بیداری کرتا تھااور اب  فجر ترک کردیتا ہے۔
اللّٰہم ارحمنا ووفقنا