Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 22, 2019

مبالغے ہی سہی،،، سب کہانیاں ہی سہی۔سید شجاع اور ای وی ایم کے تعلق سے ایک قابل غور تحریر۔


ایم ودود ساجد/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کیا آپ سید شجاع حیدرسے واقف ہیں؟اگر نہیں تو یہ وقت ہے کہ کل ہونے والی ووٹوں کی گنتی سے پہلے اس کے بارے میں کچھ واقفیت حاصل کرلیں۔
سیدشجاع کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔لیکن وہ اس وقت امریکہ کے شہر ڈلاس میں مقیم ہے۔امریکہ نے اسے سیاسی پناہ گزیں کا درجہ دے رکھا ہے۔ سید شجاع کے مطابق وہ ہندوستان کے ای وی ایم انجینئرس کی اس 11رکنی  ٹیم کا حصہ تھا جس کے تمام ارکان کو حیدر آباد یا اس کے آس پاس 2014 میں بی جے پی کی حکومت تشکیل پاجانے کے بعد اجتماعی طورپرسیکیورٹی افسران نے گولیوں سے بھون دیا تھا۔گولی سید شجاع کو بھی لگی تھی اور اسے وہ لوگ مردہ سمجھ کر چھوڑ بھی گئے تھے لیکن سید شجاع ’معجزاتی 
طورپر‘زندہ رہ گیا۔
یہاں سے بچ کر سید شجاع امریکہ پہنچا۔جہاں اس نے اپنا علاج بھی کرایا۔اس نے وہاں سیاسی پناہ کی درخواست دی جو 2015  میں منظور بھی ہوگئی۔اس کے بعد سید شجاع نے امریکہ میں پہلے سے مقیم ایک اور گجراتی کاروباری اوی ڈانڈیا کے ساتھ مل کر یوٹیوب اور فیس بک پرکچھ حیرت انگیز انکشافات کرنے شروع کئے۔آپ کو یاد ہوگا کہ دونوں نے مل کر لندن میں ایک ویڈیو پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا تھا۔لیکن عین وقت پر یہ پریس کانفرنس منسوخ ہوگئی۔اس پریس کانفرنس میں سید شجاع یہ دکھاتا کہ 2014 میں کس طرح اس نے مذکورہ 10رکنی ٹیم کے ساتھ مل کرای وی ایم مشینوں کا ڈاٹا تبدیل کرکے بی جے پی کو فقیدالمثال کامیابی سے ہم کنار کیا تھا۔۔
شجاع کا دعوی ہے کہ راز کھل جانے کے ڈر سے بی جے پی والوں نے پوری ٹیم کا خاتمہ کرادیا تھا جس میں وہ خود بچ گیا تھا۔بعد میں اس نے یہ بھی کہنا شروع کیا کہ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ ای وی ایم مشینوں کا ڈاٹا تبدیل کرکے وہ بی جے پی کی مددکر رہا ہے۔اسے اپنے اس عمل پر افسوس بھی ہے۔اسی بنیاد پر وہ نریند رمودی کی 2014 میں قائم ہونے والی حکومت کو’ غیر قانونی حکومت ‘قرار دیتا ہے۔اور اب تلافی مافات کے طور پر بی جے پی  کو ہرانا چاہتا ہے۔۔

اس سلسلہ میں اس نے یوٹیوب اور فیس بک پر سینکڑوں ویڈیوز بناکر ڈالی ہیں۔لیکن 11 اپریل سے اب تک کی تقریباً 80 ویڈیوز دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔۔۔ ان میں اس نے بڑے کمال کے انکشافات اور دعوے کئے ہیں۔اس نے ہندوستان کے الیکشن کمیشن کو کہا تھا کہ وہ یہ مظاہرہ کرنے کو تیار ہے کہ ای وی ایم مشینوں میں دور سے بیٹھ کر گڑ بڑ کی جاسکتی ہے اور ان کا ڈاٹا بدلا جاسکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اس دعوے کو مسترد کردیا اور کہا کہ اس کی مشینیں بالکل محفوظ ہیں۔اس کے بعد ہی سید شجاع متحرک ہوا اوراس نے یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعہ لوگوں کو بتانا شروع کیا کہ 2014 میں بی جے پی کو اتنی بڑی کامیابی صرف اس لئے ملی تھی کہ اس نے مشینوں میں گڑ بڑ کرائی تھی۔
اوی ڈانڈیا کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ فراڈ ہے۔لہذا جلد ہی اوی ڈانڈیا اور سید شجاع کے درمیان رقم کے لین دین پر جھگڑا ہوگیا۔اوی ڈانڈیا نے سید شجاع پر حملہ کیا اوراس کی کم سن بچی کو لے کر بھاگنے کی کوشش کی۔شجاع نے پولس میں رپورٹ درج کرادی اور سریع الحرکت پولس نے کارروائی شروع کردی۔اس کے بعد سے صورت حال یہ ہے کہ ہر روزکئی کئی بار فیس بک پر لائیو نظر آنے والا اوی ڈانڈیا منظر نامہ سے غائب ہے۔
اس کے کچھ ہی دن بعد ایک حیدرآبادی عورت فیس بک پرنمودار ہوئی اورلائیو پروگرام نشر کرکے خود کو سید شجاع کی بیوی بتاتے ہوئے اس پر دوالزام لگائے۔

1: یہ کہ سید شجاع نفسیاتی مریض ہے۔
2: وہ لوگوں کو بیوقوف بنارہا ہے اور اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔۔۔اس عورت کے انکشاف سے ہندوستان میں شجاع کے چاہنے والوں میں مایوسی چھاگئی۔لیکن جلد ہی شجاع نے اس صورت حال پر قابو پالیا۔ایک طرف تو پولس کارروائی کے ذریعے اوی ڈانڈیا کو ’ٹھکانے ‘لگادیا اور دوسری طرف اپنی بیوی کی عاشقانہ حرکتوں پر سے لائیو پردہ ہٹاکر لوگوں کو یقین دلادیا کہ اب اس کی بیوی اس کے ساتھ نہیں رہتی اور کسی غیر مسلم کے ساتھ رہتی ہے۔سید شجاع کے ایک سے زائد بچے بھی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ اس کی بیوی کے قبضے میں ہیں اور کچھ اس کے پاس ہیں۔بہرحال سید شجاع کے جوابی وار کے بعد اب اس کی بیوی بھی منظر نامہ سے غائب ہے۔۔۔
سید شجاع پولنگ کے تمام ساتوں مرحلوں کے دوران سامنے رکھی ہوئی بڑی بڑی اسکرینوں پردیکھ کرانتہائی اطمینان‘انتہائی وثوق اور حتمی دعوے کے ساتھ یہ بتاتا رہا کہ کس مرحلہ میں بی جے پی کو کتنی سیٹیں ملی ہیں۔یہاں تک کہ اس نے انفرادی طورپر بھی بعض نمایاں امیدواروں کی ہار جیت کاانکشاف بھی کیا ہے۔مثال کے طورپراعظم خان‘کنہیا کمار‘راہل گاندھی اوراکھلیش یادو کے جیتنے کی اطلاع دی ہے۔اسی طرح امت شاہ‘نریندر مودی‘سمبت پاترا اورراجناتھ سنگھ‘ کے ہارنے کی خبر دی ہے۔نریندر مودی کے بارے میں تو اس نے بتایا ہے کہ وہ ایک لاکھ 90ہزار ووٹوں سے ہار رہے ہیں۔اس کے علاوہ اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ مختلف ریاستوں میں سے کس ریاست میں بی جے پی کو کتنی سیٹیں ملی ہیں۔اس نے دعوی کیا ہے کہ این ڈی اے کو کل 171سیٹیں ملی ہیں۔اس میں بھی وہ کہتا ہے کہ 23مئی کو جب گنتی ہوگی تو وہ اس تعداد کو اور کم کرنے کی کوشش کرے گا۔۔
اس نے کہا ہے کہ بی جے پی نے جو پلان بنایا تھا اس کے مطابق وہ واقعی چار سو سیٹیں حاصل کرلیتی لیکن پولنگ کے ساتوں مرحلوں کے دوران اس نے اپنی ’مہارت‘کا استعمال کرکے اسے 171پر روک دیا ہے۔ اس نے بتایا کہ 171 بھی اس لئے آگئیں کہ الیکشن کمیشن نے ہزاروں ای وی ایم مشینیں بدلوادی ہیں۔اس نے ہندوستان کے ووٹروں اور سیاسی جماعتوں کواسٹرانگ روموں کے باہر پہریداری کی بھی تلقین کی ہے۔
مذکورہ سطوراس کی 100سے زائد ویڈیو پیغامات کا نچوڑ ہیں۔تفصیل سے اگر لکھا جائے تو کئی سو صفحات کی ایک کتاب بن جائے لیکن تلخیص اس سے کم نہیں لکھی جاسکتی۔
ہر انسان کے اندر ایک اور انسان بستا ہے۔یا کم سے کم ہر صحافی کے اندر ایک غیر صحافی انسان تو ضرور بستا ہے۔بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر دونوں میں کشمکمش ہوتی ہے۔دونوں کے نظریات میں فرق ہوتا ہے۔ایسا ایک بار ہوا ہے جب میں نے صحافی کو ایک طرف رکھ کر ایک عام انسان کے نظریات کی بنیاد پر خیالات کا اظہار کیا تھا۔یہ وہ موقع تھا جب سعودی عرب نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز عطا کیا تھا۔اتفاق یہ ہے کہ آج بھی بالواسطہ ہی سہی ‘وہی شخص موضوع بحث ہے۔لیکن آۡج میں نے صحافی اور عام انسان دونوں کے نظریات کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے سید شجاع کے دعووں‘انکشافات اور الزامات میں ’پراسراریت‘معلوم ہوتی ہے۔لیکن ایک عام انسان ہونے کے ناطے میں بلا تکلف یہ کہہ سکتا ہوں کہ سید شجاع ایک غیر معمولی انسان ہے۔وہ اپنی گفتگو سے مذہبی انسان معلوم ہوتا ہے۔ایسا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ابتدائی تعلیم کسی دینی مدرسے میں ہوئی ہے۔لیکن وہ بلا کا ذہین ‘ہوشیار اور دوربین انسان ہے۔میں ٹکنالوجی یا سائنس کا طالب علم نہیں رہا لیکن اتنی بڑی مدت کی صحافتی زندگی کے تجربات کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں سید شجاع کوغیر معمولی مہارت حاصل ہے۔یہی نہیں وہ سیاسی شعور بھی رکھتا ہے اور سفارتی صلاحیت بھی۔انسان دنیا کو اپنی خواہش کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے۔یہاں بھی بہ حیثیت انسان میں الیکشن کے وہی نتائج دیکھنا چاہتا ہوں جن کی پیش گوئی سید شجاع نے کی ہے۔
بہ حیثیت صحافی مجھے اس کے تنہا ہونے پر شک ہے۔اس نے بتایا بھی ہے کہ اس کی 70 افراد کی ٹیم دن رات کام کر رہی ہے اور بی جے پی کو ہر حال میں اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کرے گی۔سید شجاع کانگریس سے بھی بیزار ہے اور بی جے پی جیسی ہی نفرت اس سے بھی کرتا ہے۔اس نے ایک بار دو ڈھائی کروڑ روپیہ دکھا کر انکشاف کیا تھا کہ یہ اسے کسی نے یہ کہہ کر دئے ہیں کہ یہ ٹوکن منی ہے‘اگر تم بی جے پی کے خلاف بولنا بند کردو تو تمہیں تین سو کروڑ تک دے سکتے ہیں۔شجاع نے یہ رقم ہندوستان کے پلوامہ میں جاں بحق ہونے والے جوانوں کے اہل خانہ کو بھجوانے کا دعوی کیا تھا۔اس نے عہد کیا تھا کہ وہ بی جے پی سے نہیں ملے گا اور یہ کہ اسے پیسو ں کا لالچ نہیں ہے۔اس نے بتایا تھا کہ وہ امریکہ کے شہر ڈلاس میں پرائیویٹ ٹیکسی چلاتا ہے اور اس سے دوسو ڈالر یومیہ کماکر اپنا گزارہ کرلیتا ہے۔لیکن اب بہت دنوں سے وہ بڑی ٹھاٹ کی زندگی گزار رہا ہے ۔اس کی ویڈیوز سے جو کچھ نظر آتا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس بہت مہنگا فلیٹ ہے ‘بہت پیسے ہیں اور پر تعیش زندگی گزارنے کے تمام وسائل موجود ہیں۔لیکن وہ اپنی گفتگو میں خدا ترس نظر آتا ہے۔میرا شک ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس میں وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کی پشت پر کچھ نادیدہ خارجی طاقتیں بھی ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ خود ہندوستان کی بھی بعض نادیدہ طاقتیں اس کے ساتھ ہوں۔خدا کرے 23 مئی کووہی نمودار ہو جس کا دعوی شجاع کر رہا ہے۔لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ کوئی انہونی بھی ہوسکتی ہے۔
سید شجاع سے ہندوستان کے صحافی شمبھوناتھ نے کئی مرتبہ لائیو گفتگوکی ہے۔وہ اپنے تکنیکی میدان کے بارے میں جب گفتگو کرتا ہے تو نہیں لگتا کہ وہ کوئی نفسیاتی مریض‘بے وقوف‘پاگل‘دیوانہ‘مجنوں یاجھوٹا شخص ہے۔وہ کوئی بہت بڑا حریص یا لالچی بھی معلوم نہیں ہوتا۔وہ کہتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں اپنے 


ملک اور اس کے عوام کی فلاح کے لئے کر رہا ہوں۔۔۔ اب اندھے کو کیا چاہئے؟  دونین۔۔۔۔۔!
بہرحال اب وقت ہی کتنا رہ گیاہے؟گنتی شروع ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں۔رجحان بھی دن کے 10بجے تک آنا شروع ہوہی جائیں گے۔اپنے وعدے کے مطابق شجاع بھی کل پورے دن لائیو رہے گا۔تب تک احمد فراز کی مشہور غزل کا یہ شعر سامنے رکھئے:
         مبالغے ہی سہی‘ سب کہانیاں ہی سہی
         اگر ہے خواب ‘ تعبیر کرکے دیکھتے ہیں