Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 14, 2019

نواں سبق ۔۔۔۔۔۔۔نواں روزہ۔۔۔۔۔۔۔۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلے وار تحریر۔۔

صدائے وقت/ ماخوذ / عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
نواں سبق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبان کا روزہ۔
زبان کا بھی ایک خاص قسم کا روزہ ہوتاہے، اِس کی معرفت صرف انھیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اِدھر اُدھر کی باتوں سے اعراض کرتے ہیں، لہو ولعب سے دور رہتے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے تو زبان کا روزہ رمضان میں بھی ہوتاہے اور غیرِ رمضان میں بھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اپنی زبان کو روکو (یعنی حفاظت کرو) تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا، کیا ہم سے ہماری گفتگو پر مواخذہ کیا جائے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگ اپنی فضول باتوں کی وجہ سے اوندھے منھ جہنم میں 
ڈالے جائیں گے۔ 


زبان کے بہت سے نقصانات ہیں، اسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی زبان پکڑ کر روتے اور فرماتے : اِس نے تو مجھے تباہ وبرباد کردیا۔
زبان ایک مضر درندہ، زہریلا سانپ اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے اسی لیے شاعر نے کہا:
ترجمہ: تم اپنی زبان سے کسی بھی شخص کاعیب ظاہر نہ کرو، کیونکہ ہر شخص میں کچھ نہ کچھ عیوب ہوتے ہیں اور ہر شخص کے پاس زبان بھی ہوتی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ اپنی زبان سے کہا کرتے تھے ’’اے زبان بھلی بات کہو !فائدہ میں رہوکی، برا مت کہو محفوظ رہو گی، اس شخص پر اللہ کی رحمت نازل ہو جس نے اپنی زبان کو فحش کلامی ، غیبت، لغویات اور حرام  باتوں سے روک لیا، اس شخص پر بھی اللہ کی رحمت ہو جس نے اپنے الفاظ کا محاسبہ کیا ، اپنے اوقات کا پاس ولحاظ کیا اور اپنی زبان وگفتگو کو ادب کے دائرے میں رکھتے ہوئے معتدل رکھا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ‘‘۔ (ق: ۱۸)
ترجمہ: وہ کوئی لفظ منھ سے نہیں نکالنے پاتا مگر اُس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔  (بیان القرآن، ج: ۳/ ۴۴۷)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ سے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت لے گا، میں اس سے جنت کی ضمانت لوں گا، شاعر کہتا ہے:
اے انسان! اپنی زبان کو محفوظ رکھو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں ڈس لے، کیونکہ یہ سانپ ہے، بہ خدا موت تو بس ایک لفظ کی لغزش ہے، جس میں صرف ہلاکت اور بربادی ہی ہے۔
سلفِ صالحین چونکہ کتاب وسنت کے آداب سے بہرہ ور تھے، اُن کے الفاظ بہت معتدل ، گفتگو بہت پاکیزہ، ہوتی تھی، ان کی بول ذکر سے معمور، نگاہیں عبرت پذیری کا سامان اور خاموشی سراپا فکر ہوتی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر خدائے واحد وقہار کا خوف اِس قدر غالب تھا کہ اُن کی زبانیں ہر لمحہ اللہ کے ذکر وشکر سے لبریز اور فحش کلامی، بدگوئی اور فضول باتوں سے محفوظ رہتی تھیں۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے تھے کہ! بہ خدا روئے زمین میں اگر کوئی ایسی چیز ہے جس کو زیادہ دیر تک قید میں رکھا جاسکتا ہو تو وہ زبان ہے، اسی لیے صلحاء پہلے گفتگو کے نتائج وثمرات پر نظر ڈالتے تھے اور خاموش ہی رہ جاتے۔

۔ اس شخص کا روزہ معتبر نہیں جس کی زبان بے لگام ہوجائے، وہ اپنی زبان کے ذریعے دوسروں کو دھوکہ دے اور زبان ہی کی وجہ سے فخر وغرور میں مبتلا ہو۔
۔ اس شخص کا بھی روزہ کما حقہ ادا نہیں ہوتا جو جھوٹ، غیبت اور گالم گلوچ میں مشغول ہوکر روزِ حساب سے غافل ہوجاتاہے، اور اس شخص کا بھی روزہ مکمل طورپر ادا نہیں ہوتا ہے جو جھوٹ کو پیشہ بنالیتا ہے۔ اور دیگر مسلمان اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کہ کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں، اور اسلام تو سراپا عملی مذہب ہے، امتثال واطاعت اس کا امتیازا ورخصوصی وصف ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وَقُلْ لِعِبَادِيْ یَقُوْلُوْا الَّتِيْ ہِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْزَغُ بَیْنَہُمْ‘‘۔ (بنی إسرائیل: ۵۳)
ترجمہ: اور آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ ایسی بات کہا کریں جو بہتر ہو، شیطان لوگوں میں فساد ڈالوادیتا ہے۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۳۷۹)
اچھی گفتگو وہی ہے جس میں ادب کا دائرہ ملحوظ ہو، کسی فرد اور جماعت کو نشانہ نہ بنایا جائے، کسی مسلمان کی عزت نہ اچھالی جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’وَلاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہتُمُوْہُ‘‘۔ (حجرات: ۱۴)
ترجمہ: اور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھالے اس کو تو تم ناگوار سمجھتے ہو۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۴۴۱)
کتنے ہی روزے دار ایسے ہوتے ہیں جو محض اپنی زبان کے غلط استعمال کی وجہ سے اپنا روزہ خراب کرلیتے ہیں، کیونکہ روزہ کا مقصد بھوک اور پیاس نہیں ہے، بلکہ مہذب اور بادب ہونا بھی روزہ کا ایک مقصد ہے۔زبان تو خطاؤں کا مجموعہ ہے، بشرطیکہ اُس کا استعمال صحیح طورپر ہو، زبان کے کچھ عیوب حسب ذیل ہیں:
• جھوٹ بولنا۔
• غیبت کرنا۔
• چغل خوری کرنا۔
• فضول گوئی ۔
• گالم گلوچ۔
•  فحش کلامی۔
• جھوٹی گواہی دینا۔
• لعن وطعن کرنا۔
• کسی پر ہنسنا، مذاق اڑانا۔
جولوگ اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرتے، بلکہ اُس کوبے لگام چھوڑدیتے ہیں، وہ گویا کہ اپنے آپ کو اوندھے منھ جہنم میں ڈالتے ہیں۔
زبان میں خیر اور شر دونوں کا پہلو موجود ہے، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی زبان سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، تحمید وتسبیح میں مشغول رہتے ہیں، شکریہ بھی ادا کرتے ہیں اور توبہ بھی کرتے ہیں اور بد قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی زبان سے دوسروں کی پردہ دری کرتے ہیں، ان کی عزتیں اچھالتے ہیں اور حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں، لہٰذا روزے داروں کو چاہئے کہ اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں، اُس کوتقوی سے آراستہ کریں اور معاصی سے محفوظ رکھیں۔
خدایا! تو ہمیں سچ بولنے والی زبان، قلب سلیم اور اخلاق حسنہ کا حامل بنا۔ آمین